ڈاکٹر ابرار رحمانی
وہ بھی کیا زمانہ تھا جب ہماری پیاری زبان اردو کا ہر چہار طرف غلغلہ تھا ۔ پٹنہ اور اطراف میں ہم اردو بولتے تھے اور خوش ہوتے تھے ۔ رام پور پہنچے تو وہاں بھی مزدور سے لے کر رؤسا اور نواب تک کو اردو زبان بولتے دیکھا ۔ دکانوں کے سائن بورڈ اردو میں ہوتے تھے ۔ دہلی ہندوستان کا دل ، یہاں بھی اردو کا بول بالا تھا ۔
دِلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب ، جہاں کے میر اور غالب رہنے والے تھے اور جن کی پہچان اردو سے تھی اور اردو کی پہچان نہ صرف دہلی بلکہ پورا ہندوستان تھا ۔ اس وقت نہ تو کوئی اردو اکادمی تھی اور نہ ہی کوئی کونسل ۔ پھر بھی اردو اپنے عروج پر تھی ۔ لوگ اردو بولتے تھے ، اردو پڑھتے تھے ، اردو لکھتے تھے ، اردو گاتے تھے ، گویا دن ہو کہ رات اردو ہمارا اوڑھنا بچھونا تھی ۔اردو ہم سے تھی اور ہم اردو سے تھے ۔
آج ہم جس انٹرٹینمنٹ کی بات کرتے ہیں وہ بھی اس زمانے میں اردو میں ہی ہوا کرتےتھے۔یہ انٹرٹینمنٹ ایڈیٹ باکس نہیں بلکہ رسالوں کی شکل میں ہرماہ شایع ہوا کرتے تھے، جس کا ہم بڑی بے چینی سے انتظار کیا کرتے تھے ۔ بچپن کی بات ہے ۔ ہم بچوں کے مشہور رسالے’’ کھلونا‘‘ کا انتظار کرتے تھے اور جب تک وہ ہمیں نہیں مل جاتا ایک بے کلی کی کیفیت سے دوچار رہتے ۔
ہمیں وہ دن بھی یاد ہے جب ہم نے کھلونا کے ایک انعامی مقابلے میں پوچھے گئے سوال کا صحیح جواب ارسال کیا تھا اور انعام کے طور پر ہمیں صرف دو روپے کا منی آرڈر ملا تھا ۔’’کھلونا‘‘ سے کھیلتے ہوئے جب ہم ذرا بڑے ہوئے تو رام پور کے ’’نور‘‘ صاحب سے واسطہ پڑا ۔ انہوں نے بھی ہمیں کافی متاثر کیا اور جب ہم ذرا بالغ ہوئے تو ذہن و دماغ ھل من مزید کا نعرہ لگاتے ہوئے کچھ رنگین ماحول ،رنگین مزاج اور رنگینیت کا مطالبہ کرنے لگا ۔
چنانچہ چوری چھپے’’شمع‘‘ کا دیدار کرنے لگے ۔ ’’شمع‘‘ سے کچھ ایسی محبت ہوئی کہ ہم اسے شریک حیات بنا بیٹھے ۔ شمع کے ہم اکیلے عاشق نہ تھے ۔ ہمارے جیسے لاکھوں تھے جو اس ایک شمع کی زلفِ گرہ گیر کے اسیر تھے ۔
ماہ نامہ ’’شمع‘‘ کو جو غیر معمولی شہرت ملی وہ پھر کسی اور اردو رسالے کو نصیب نہیں ہوسکی ۔’’ شمع‘‘ کی بہن’’ سشما‘‘ بھی جو ہندی کو اپنائے ہوئے تھی ، اپنی بڑی بہن شمع کو قابل رشک نظروں سے دیکھتی تھی۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ’’ سشما‘‘ کبھی ’’شمع ‘‘پر فوقیت حاصل نہ کرسکی ۔ اسی’’ شمع‘‘ کے گھر سے لڑکیوں کے لیے ’’بانو‘‘ سامنے آئی جسے کافی پسند کیا گیا ۔ پھر اسی خاندان سے ایک ’’مجرم‘‘ نے بھی جنم لیا ۔ مجرم سے یوں تو سب ہی ڈرتے ہیں، لیکن اس’’ مجرم‘‘ نے ایک پوری خلقت کو اپنا گرویدہ بنارکھا تھا ۔ اسی خاندان میں ایک اور خوب صورت بچہ پیدا ہوا جس نے اس زمانے کے شکاریوں اور ایڈونچر پسند لوگوں کو کافی لبھایا تھا ۔ اس کا نام خیر سے ’’شبستان‘‘ تھا ۔
ہمارے حاجی یوسف دہلوی نے ان سب رسالوں کو اپنی بے پناہ صلاحیتوں سے نہ صرف سینچا بلکہ اپنا خونِ جگر پلا کر جوان کیا ۔ لیکن کیا کہا جائے کہ جوں ہی حاجی صاحب نے آنکھیں بند کیں ، ان سب رسائل پر گویا خزاں چھاگئی ۔ یہ سارے اردو رسالے بند ہوتے گئے ۔ ان تمام رسالوں کی موت کا آخر ذمے دار کون تھا ؟ حاجی یوسف دہلوی کے پس ماندگان ؟ قارئین ؟ یا اردو کے ساتھ برتا جانے والا مخاصمانہ رویہ ؟ میرا جواب ان تینوں کو ذمے دار ٹھہراتا ہے ۔
اس زمانے میں دہلی کے اس شان دار گھرانے نے نہ صرف دہلی بلکہ پورے ہندوستان کو اپنے سحر میں باندھ رکھا تھا ۔’’شمع ‘‘سے بھی پہلے اس دِلّی سے فوجیوںکے لیے ایک رسالہ ’’فوجی‘‘ کے نام سے1909میں جاری کیا گیا جو صرف اردو میں چھپتا تھا ،کیوں کہ اس وقت فوجیوں کی اکثریت اردو ہی جانتی تھی ۔ بعد میں یہ فوجی اخبار ’’سینک سماچار‘‘ کے نام سے تیرہ زبانوں میں شایع ہونے لگا ۔
الہ آباد ایسا شہر ہے جو گنگاجمنا سنگم کے لیے مشہور ہے ۔ آج گنگا جمنی تہذیب ایک ایسی اصطلاح بن چکی ہے جس کا پس منظر رواداری اور میل و محبت کی پوری ایک تاریخ سمیٹے ہوئے ہے ۔ اسی گنگا جمنی تہذیب کے امین الہ آباد سے ابنِ صفی نام کے ایک ذہین شخص نے ’’جاسوسی دنیا‘‘ کے نام سے اردو میں ایک پاکٹ سائز رسالہ نکالنا شروع کیا ۔ جس نے اس زمانے کی زبان و تہذیب کے دل دادہ قارئین کو موہ لیا ۔
الہ آباد کا جاسوسی دنیا اور دہلی کا شمع ، دونوں نے اپنے اپنے طور پر اردو کی وہ خدمات انجام دیںجن کا ایک زمانہ معترف ہے ۔ اس ’’جاسوسی دنیا‘‘ کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ہر ماہ کی ایک متعینہ تاریخ کو اسے حاصل کرنے کے لیے ایک لمبی لائن لگتی تھی ۔ نہ صرف الہ آباد میں بلکہ کئی دوسرے شہروں میں بھی اس کے حصول کے لیے دن گنے جاتے تھے ۔ قارئین کی تڑپ اور للک کو دیکھتے ہوئے جاسوسی دنیا کے ادارےنے ’’نکہت‘‘ کےنام سے ایک دوسرا جاسوسی ماہ نامہ بھی شایع کرنا شروع کردیا ۔’’جاسوسی دنیا‘‘ اور ’’نکہت‘‘ کو پڑھنے کےلیے بہت سے شائقین حضرات نے جو اردو نہیں جانتے تھے اردو سیکھی اورجو اردو داں تھے انہوںنے ابنِ صفی کی تحریروں کو پڑھ کر اپنی زبان کو صیقل کیا ۔’’جاسوسی دنیا‘‘ ہر خاص و عام قاری کے لیے آکسیجن کا حکم رکھتا تھا ۔
لیکن جو حال دہلی کی ’’شمع‘‘ کا ہوا تھاکچھ ویسا ہی سانحہ’’ جاسوسی دنیا‘‘ کو بھی پیش آیا ۔ ابنِ صفی پاکستان چلے گئے اور کچھ عرصے تک وہاں سے اسے جاری رکھنے کی کوشش بھی کی ۔ ابنِ صفی کے بعد جاسوسی دنیا اور نکہت دونوں یتیم ہوگئے ۔ اس معاملے میں ان کی اولاد بھی کچھ نہیں کرسکی۔ البتہ ہندوستان میں کئی پبلشر ابنِ صفی کو چھاپ چھاپ کر اپنی جیبیں بھرتے رہے، لیکن تابہ کے ؟
’’شمع‘‘ کے پھلنے پھولنے اور بڑھتے جانے کے پیچھے رازیہ تھا کہ اسے اپنے قارئین کو سحر میں باندھے رکھنے کا فن آتا تھا ۔’’شمع ادبی معمّا‘‘ اسے دوسرے تمام رسائل و جرائد سے منفرد بناتا تھا ۔ حقیقی معنوں میںشمع ایک ایسا رسالہ تھا جو اپنے عاشقوں کی پسند کا ہر دم خیال رکھتا ۔ یہ ایسا فلمی اور ادبی رسالہ تھا جو نہ صرف فلم کے شائقین کو پسند تھا بلکہ اردو کی ادبی دنیا کو بھی اس نے اپنی گرفت میں لے رکھا تھا اور اس وقت کا ہر ادیب و شاعر شمع میں چھپنا قابلِ فخر سمجھتا بلکہ یوں کہیں کہ جو اس رسالے میں شایع ہوجاتا وہ معتبر ہوجاتا ۔
اسی زمانے میں ’’بیسویں صدی‘‘،’’آج کل‘‘ ، ’’شاعر‘‘ اور’’سب رس‘‘ بھی شایع ہورہے تھے ۔ خوشتر گرامی کی ایک منفرد تخلیقی کاوش شاعر و ادیب کے قلمی چہرے بہت پسند کیے جاتے تھے ۔’’بیسویں صدی‘‘ اپنے نام کی مناسبت سے بیسویں صدی تک پوری آب و تاب سے نکلتا رہا ۔ خوشتر گرامی کے بعد رحمن نیر اسے اکیسویں صدی میں لے جانے کی کوشش میں کام یاب تو ہوئے اور ان کے بعد ان کی بیوی نے اسے زندہ رکھنے کی بہت کوشش کی مگر’’ بیسویں صدی‘‘، اکیسویں صدی میں نہیں بدل سکا ۔ ’’شاعر‘‘ ایک ایسا سخت جان رسالہ ہے جو 1930 میں سیماب اکبرآبادی کی ادارت میں آگرہ سے نکلنا شروع ہوا اور آج بھی ممبئی سے افتخار امام صدیقی کی ادارت میں نکل رہا ہے ۔
اسی صف میں’’آج کل‘‘ بھی آتا ہے جو موجودہ تمام زندہ رسالوں میں اپنی شناخت رکھتا ہے جو1942سے آج تک اپنی مقبولیت کا علم بلند کیے ہوئے ہے ۔قارئین کرام! یہاں ہمارا مقصد اردو میں نکلنے والے رسالوں کی فہرست تیار کرنا نہیںہے یہاں ہماری سانس اکھڑتی محسوس ہورہی ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں چھپنے والے اور لاکھوں دلوں پر حکم رانی کرنے والے یہ رسالے آخر کیوں بند ہوگئے ؟