• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جسٹس فائز عیسیٰ کیس، کڑی سے کڑی نہیں مل رہی، تمام سرکاری خطوط کی ٹریل ہونی چاہئے

اسلام آباد ( آن لائن، آئی این پی ) پاکستان سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف شکایت کی کسی دوسرے ذریعے سے تصدیق ہوئی یا نہیں؟ صدارتی ریفرنس میں کڑی سے کڑی نہیں مل رہی،تمام سرکاری خطوط کی ٹریل ہونی چاہیے، صدر مملکت وزارت قانون کو زبانی احکامات نہیں دے سکتے، جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ صدر مملکت کو قائل ہونا چاہیے کہ بادی النظر میں ریفرنس بنتا ہے یا نہیں، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بھارت میں غیر قانونی طریقے سے حاصل شواہد قابل قبول ہیں۔ معزز جج صاحبان نے یہ ریمارکس سپریم کورٹ میںصدارتی ریفرنس کیخلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آئینی درخواست پر سماعت کے دوران دیئے۔ دوران سماعت سینئر وکیل ایڈووکیٹ منیر اے ملک نے انکشاف کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف شواہد پہلے اکھٹے کیے گئے وحید ڈوگر نے شکایت بعد میں دائر کی،لاقانونیت کی بنیاد پر کھڑی عالی شان عمارت زمیں بوس ہونے سے محفوظ نہیں رہ سکتی،صدارتی ریفرنس کی بنیاد غیر قانونی ہے اسے خارج کیا جائے،وزیر اعظم عمران خان کو بھی ٹیکس معلومات حاصل کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ایڈووکیٹ منیر اے ملک نے دلائل میں کہا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف بنائے گئے صدارتی ریفرنس میں شواہد اکھٹے کرنے کے عمل میں لاقانونیت برتی گئی،عوامی عہدوں پر کام کرنیوالوں کی ٹیکس معلومات خفیہ ہوتی ہیں،خفیہ معلومات وصول کرنے والے پر لازم ہے وہ ایسی معلومات کسی اور مقصد کیلئے بھی استعمال نہیںکر سکتا۔
تازہ ترین