برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں 1947 کا برس کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔ اس خطے میں رہنے والوں کے لیے یہ سال ایک طرف آزادی کا پرچم بن کر سر بلند ہوا تھا، تو دوسری طرف دُکھ کی ندیاں، جو دونوں طرف کے لوگوں کی آنکھوں سے بہہ نکلیں۔ تقسیم کے فسادات نے ایک طرف سرخ رنگ میں ظلم کی علامت دی تو دوسری طرف امن کا سفید رنگ استعارے میں ڈھلا۔ دونوں طرف کے لکھنے والوں نے دُکھوں کو سمیٹنے کی سعی کی، ان زخموں پر مرہم رکھا، جن کے رسنے کی اذیت آج بھی محسوس ہوتی ہے۔ وقت گزر جاتا ہے، لیکن پرچھائیاں رہ جاتی ہیں، یہ انہی پرچھائیوں کو لکھنے والے کی داستان ہے۔
پاکستان کے شہر سیالکوٹ کے نزدیک ایک گائوں میں پیدا ہونے والے’’راجندر سنگھ بیدی‘‘ اردو ادب اور ترقی پسند تحریک کا وہ درخشاں نام ہے، جس نے اردو ادب میں اپنی نگارشات کے ذریعے گراں قدر اضافہ کیا۔ ان کی کہانیاں بھی تقسیم کے فسادات سے ملنے والے دُکھوں کی اُسی ہلکی آنچ پر تخلیق ہوئیں، جن کی تپش سے احمد ندیم قاسمی اور سعادت حسن منٹو بھی حرارت زدہ ہوئے تھے۔ یہ سب ایک دوسرے کے ہم عصر بھی تھے اور ہم درد بھی۔ ان ہی میں سے ایک ’’راجندر سنگھ بیدی‘‘ ہمارا آج کا انتخاب ہیں۔
راجندر سنگھ بیدی کی پیدائش کا 1915 جب کہ رحلت 1984 میں ہوئی۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں اپنے آبائی گائوں سے حاصل کرنے کے بعد انٹرمیڈیٹ تک لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ محکمہ ڈاک اور ریڈیو اسٹیشن سے ملازمت کے سلسلے میں قلیل عرصے کے لیے وابستگی رہی۔ خالص پنجابی اور سکھ گھرانے سے تعلق ہونے کی وجہ سے ان کی فکری جہتوں میں منفرد رنگ بھی نمایاں تھے، لیکن جس رنگ نے ان کو اپنے اندر سمولیا، وہ ترقی پسندی کا رنگ تھا۔ انہوں نے سماج کے ہاتھوں ظلم کے شکار طبقات کی کہانیوں کو بیان کیا، بالخصوص ہندوستانی سماج کی مظلوم عورت کو موضوع بنایا۔ ان کا تحریر کردہ
زیر نظر ناول’’ایک چادر میلی سی‘‘ اس کیفیت کی معراج ہے، مصنف نے جس کو اپنے لہو سے کشیدکر لکھا اور پڑھنے والوں نے اشکوں میں ڈبو کر پڑھا۔ یہ ان کا پہلا اور آخری ناول ہے، اس واحد ناول کی بدولت وہ اردو ادب میں یاد رکھے جائیں گے، ہرچند کہ ان کی دوسری کہانیاں بھی اپنی تخلیقی ندرت میں نمایاں ہیں، لیکن اس ناول کی کہانی کا کوئی بدل نہیں ہے۔
بیدی بطور فلم ساز، ہدایت کار، مکالمہ نویس، افسانہ نگار، ڈراما نویس، ناول نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ترقی پسند تحریک کے زور دار حامی بھی تھے۔ وہ پاکستانی ادیب سعادت حسن منٹو سے کچھ نالاں بھی تھے، شاید یہ پیشہ ورانہ رقابت ہی تھی، ورنہ دونوں نے معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھ کر وہ کہانیاں تخلیق کیں، جن کی اشد ضرورت تھی۔
سعادت حسن منٹو جس ہندوستانی سینما میں اسکرین پلے رائٹر کی گدی چھوڑ کر پاکستان آئے تھے، راجندر سنگھ بیدی نے پاکستان سے جاکر ہندوستانی فلمی صنعت میں وہی گدی سنبھالی۔ کہانی نویس اورمکالمہ نگارکے طور پر پچاس کی دہائی میں وہ اس راہ پر گامزن ہوئے۔ ساٹھ کی دہائی میں ہدایت کاری کی طرف بھی آگئے۔ انہوں نے تقریباً ستر فلموں کے مکالمے لکھے، جن میں بڑی بہن، مرزا غالب، داغ، دیوداس جیسی فلمیں شامل ہیں، جبکہ فلم ساز کی حیثیت سے گرم کوٹ، رنگولی، آنکھیں اور دستک جیسی لاجواب فلمیں تخلیق کیں۔
1940میں ان کی مختصر کہانیوں کا پہلا مجموعہ ’’دان و دام‘‘ شائع ہوا۔ 1943 میں ان کی کہانیوں کے دوسرے مجموعے’’گرہن‘‘ کی اشاعت ہوئی۔ 60 کی دہائی میں ان کا لکھا ہوا ناول’’ایک چادر میلی سی‘‘ کو بے پناہ مقبولیت ملی۔ اس ناول کو کچھ ادبی حلقوں نے ناولٹ بھی کہا، بہرحال اس کو ناول کہا جائے یا ناولٹ، تخلیقی اعتبار سے اس کوقارئین کی طرف سے کامیابی اور پسندیدگی کی سند ملی۔
ان کے اس ناول’’ایک چادر میلی سی‘‘ کا مرکزی خیال ایک ایسی عورت کی کہانی ہے، جس پر زندگی نے بے پناہ ستم ڈھائے۔ کہانی کے مرکزی کردار کا نام ’’رانو‘‘ تھا، جس کا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہوتا ہے، سر سے والدین کا سایہ چھن جانے کے بعد ،اس نے اذیت ناک ازدواجی زندگی گزاری، اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لیے ظالم شوہر کے ساتھ نبھاہ کیا، پھر زندگی کی تلخ اور بدنما تبدیلیوں کے ہاتھ اس کی پاکدامنی پر پڑے، لیکن یہ باکردار عورت، بطور بیوی اور ماں کے اپنے صبر کے ساتھ کھڑی رہی۔
ناول اسی کشمکش اور جدوجہد کی کہانی ہے، جس کو مصنف نے دل کی اتھاہ گہرائی سے لکھا ہے۔ ۔ ان کے ہاں کرداروں کی زبان اور منظر کشی میں ایک طرف ہندوستانی معاشرت ملتی ہے، تو دوسری طرف پنجاب کی تہذیب کا در بھی وا ہوتا ہے۔ ہندی، فارسی، اردو اور پنجابی زبانوں کے رشتے بنتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں، یوں مختلف النوع انداز کی نثر میں ڈوبی ہوئی کہانیاں قاری کا دل موہ لیتی ہیں۔ ایک اقتباس پڑھ کر دیکھیے، اس سے متن کے معیاری ہونے کی ضمانت ملتی ہے۔
’’رانی اس ناگہانی صدمے سے بے ہوش ہو کر گرنے ہی والی تھی کہ صدیوں کے سُترگ سے سفید اور سرافگند، حضور سنگھ کہیں سے گرتا پڑتا چلا آیا اور قریب کھڑی جنداں بوڑی سے بے پراہ ہوکر اس نے رانی کو گرنے سے تھام لیا۔ آج اس کی آنکھیں جوہڑ پر نہانے والے کبوتروں کی طرح پھڑپھڑانے کی بجائے ، پورے پر تول رہی تھیں۔ شاہین صفت، بلند آشیانوں کی طرف دوڑ رہی تھیں۔ بہو رانی کی روح کو پالینے کے جتن میں بڈھا حضور سنگھ خود کہیں کھو گیا تھا۔ اس کی آنکھوں کی گنگا جمنا، اس کی داڑھی کے جنگل بیلوں میں گم ہو رہی تھی۔تلوکے کی موت کے بعد آج تک اس کے ہاتھ، کسی نہ ہاتھ آنے والی چیز کی تلاش میں کھپ گئے تھے۔ آواز گلے میں کانپتی رہ گئی تھی۔ نہیں لبھنے لال گواچے، مٹی نہ پھرول جوگیا۔‘‘
ہندوستان میں اسی ناول کے نام پر فلم بنی، جس کو 1986 میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔ فلم کے ہدایت کار سکھونت دھادا تھے، جبکہ کلبھوشن خربندا، رشی کپور اور ہیما مالنی نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ 60 کی دہائی میں بننے والی یہ فلم رک گئی اور 80 کی دہائی میں دوبارہ اس پر کام شروع ہوا۔ پہلے معروف ہندوستانی اداکار دھرمیندر نے یہ فلم سائن کی، ان کی بیوی ہیمامالنی ہی اس میں ان کی بیوی کا کردار ادا کر رہی تھیں، لیکن دھرمیندر کے دل میں یہ وہم بیٹھ گیا کہ یہ فلمی منصوبہ منحوس ہے، وہ اس سے الگ ہوگئے، لیکن ہیما مالنی نے توہمات کی پرواکیے بغیر فلم میں کام کیا، اسی طرح راج ببر بھی اس فلم کا حصہ بنتے بنتے رہ گئے اور آخر کار رشی کپور نے حتمی طور پر اس فلم میں ہیرو کا کردار نبھایا۔ فلم کے لیے ریکھا کو بھی کردار کی پیشکش کی گئی تھی۔
پاکستان میں اس ناول پر بننے والی فلم کا نام’’مٹھی بھر چاول‘‘ تھی، جس کو 1978 میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔ اس کی ہدایت کارہ سنگیتا تھیں، اتنی کم عمری میں ہدایت کاری اور اداکاری دونوں نےفلم سےان کے کیرئیر کو روشنی سے بھر دیا، انہیں اس فلم سے بہت کامیابی ملی۔ فلم کے فنکاروں میں سنگیتا کے علاوہ غلام محی الدین، ندیم، راحت کاظمی، کویتا، ساقی، عرفان کھوسٹ اور دیگر تھے، جبکہ موسیقار کمال احمد تھے، شوکت علی، مسعود رانا، مہناز اور ناہید اختر نے اپنی آوازوں کا جادو جگایا۔ تسلیم فاضلی اور خواجہ پرویز نے فلم کے گیت لکھے ۔ اس پاکستانی فلم کوانڈین فلم کی بدولت زیادہ پسند کیا گیا اور اس کے تخلیقی معیار کے سامنے ہندوستانی فلم ہیچ تھی، جس کے شاہد فلم بین بھی ہیں۔
پاکستانی فلم ساز اپنے ادب کی کہانیوں کا انتخاب کریں تو وہ اسی طرح کا مزید معیاری کام کرسکتے ہیں۔ جدید دور میں سماج کی تربیت اور اپنا پیغام پہنچانے کا میڈم اب فلم ہے، جس طرح ماضی میں شعر و ادب ہوا کرتا تھا، اس کی اہمیت آج بھی موجود ہے، بس فلم سازوں کو پاکستانی ادبیات سے شناسائی حاصل کرنا ہوگی، اس طرح پاکستانی فلمی صنعت کی کھوئی ہوئی ساکھ بھی واپس ہوسکتی ہے اور دوبارہ سے ہمارے ادب کا بول بالا بھی ہوسکتا ہے۔