• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دعا منگی کا میڈیکل ہوا، نہ دفعہ 161 کے تحت بیان ریکارڈ کرایا گیا

ڈیفنس کراچی سے طالبہ دعا منگی کے اغوا اور تاوان وصولی کے مقدمے میں پولیس کو سیاسی یا اخلاقی دباؤ کا سامنا ہے، کسی وجہ سے افسران بے بس ہیں یا پولیس کی مجرمانہ نااہلی ہے کہ بازیابی کو ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود دعا منگی کا ابھی تک  قانونی طبی معائنہ نہیں کرایا گیا اور نہ ہی مغویہ کا دفعہ 161 کے تحت عدالت میں بیان ریکارڈ کرایا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق تفتیشی پولیس کی جانب سے اس حوالے سے کوئی کوشش بھی سامنے نہیں آئی۔

19 سالہ دعا منگی کو 30 نومبر کی رات ڈیفنس فیز 6 میں خیابان بخاری پر چائے کے ایک ڈھابے کے باہر سے اغواء کیا گیا تھا۔

وہ 6 دن بعد اچانک خود گھر پہنچ گئی تھی اور ملزمان کی جانب سے خود کو زنجیروں میں جکڑ کر اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر قید رکھنے کا بیان دیا تھا۔ جس کے کئی دن بعد کی کوششوں کے نتیجے میں پولیس بھی دعا منگی تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی۔

دو ملین روپے تاوان کی ادائیگی کے بعد رہا کرائی گئی دعا منگی نے پولیس کو بھی فلمی طرز کا ایسا ہی گول مول اور بے ضرر بیان ریکارڈ کرایا جس میں اسے اغواء کرنے والے، ایک ہفتہ تک یرغمال بنا کر رکھنے والے یا تاوان وصول کرنے والے کسی ایک بھی ملزم کی نشاندہی نہیں کی گئی اور نہ ہی اس کے بیان سے کسی گروہ کے بارے میں کوئی اشارہ مل رہا ہے۔ دوسرے معنوں میں اس بیان سے ملزمان کو ہر پہلو سے تحفظ مل رہا ہے۔

میڈیا پر سامنے آنے والے دعا منگی کے بیان کے مطابق مغویہ نے ان ملزمان کے چہرے دیکھے اور نہ آوازیں سنیں اور حیرت انگیز طور پر ملزمان کی جانب سے اس کے کانوں پر ہیڈ فون لگا کر قید رکھنے کا فلمی سین جیسا حوالہ دیا گیا۔

پولیس ذرائع کے مطابق دعا منگی کے اس بیان کو سچ مان بھی لیا جائے تو قانونی طور پر اس بیان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ تمام قانونی تقاضے جانتے ہوئے بھی پولیس افسران نے دعا منگی کے اس بیان کو قانونی شکل دینے کے لیے ابھی تک دفعہ 161 کے تحت دعا کا بیان ریکارڈ نہیں کرایا۔

دوسری جانب اسے اس مقام پر لے جا کر تفتیش کرنے کی کوشش نہیں کی گئی کہ جہاں مغویہ کے مطابق ملزمان نے اسے رہا کیا۔ اس مقام سے شہادتیں جمع کرنے کا کوئی عمل سامنے آیا ہے اور نہ ہی سی سی ٹی وی کی مدد سے دعا کو رہا کرنے والوں کی گاڑی کا سراغ لگانے کی کوئی کوشش سامنے آئی۔

ذرائع کا کہنا ہے رواں سال 11 مئی کو ڈیفنس سے عین اسی انداز سے بسمہ سلیم کے اغوا اور 9 دن بعد پونے دو کروڑ روپے تاوان کی ادائیگی گلشن اقبال کے اسی علاقے میں کی گئی تھی جہاں دعا کے اغوا کاروں کو ادائیگی کی گئی۔

ذرائع کے مطابق پولیس اگر بسمہ اغوا کیس کے نشانات پر بھی چل پڑتی تو اب تک کیس کا ڈراپ سین ہوچکا ہوتا۔

اگر بسمہ کیس کے ضابطے کی تفتیش اور بھرپور قانونی تقاضے پورے کر لیے جاتے تو دعا منگی اغوا نہیں ہوتی۔

ذرائع نے تشویش ظاہر کی ہے کہ اب دعا منگی کے اغوا اور تاوان کے عوض بازیابی کے بعد پولیس کی مجرمانہ غفلت اور غیر پیشہ ورانہ طرز عمل سے ملزمان کی دیدہ دلیری اور بڑھے گی۔ اس طرح کے کئی اور گروہوں کے پیدا ہونے اور لڑکیوں کے اغوا کا سلسلہ پورے کراچی تک پھیلنے کے شدید خطرات پیدا ہوگئے ہیں۔

ذرائع کے مطابق ماضی میں اغوا برائے تاوان کے جتنے بھی بڑے کیسز ہوئے پولیس یا سرکاری اداروں کی جانب سے بازیاب کرائے گئے افراد کو حراست میں لے کر تفتیش کرنے کا سلسلہ ریکارڈ پر ہے۔

بازیاب افراد کا میڈیکل کرایا جانا مقدمے کے منتقی انجام تک پہنچانے کے لیے انتہائی اہم ہوتا ہے مگر دعا منگی کیس میں بعض اعلیٰ پولیس افسران ایسی کسی کوشش کو دعا کے خاندان کے ساتھ اخلاقی زیادتی قرار دے رہے ہیں۔

یہ بھی دیکھئے :تفتیشی ٹیم نے دعا منگی کا بیان ریکارڈ کرلیا


ایک اعلیٰ پولیس افسر نے ’جنگ‘ کے رابطہ کرنے پر کہا کہ صدمے کا شکار خاندان کو مزید مشکلات میں ڈالنا مناسب نہیں اسی وجہ سے وہ پولیس کی روایتی سختی کے حق میں نہیں۔

ذرائع کے مطابق دعا منگی کی بازیابی کی رات اس کے لیے صدر کراچی کے ہوٹل میں کمرہ بُک کرانے کی کوشش نے اس واردات کے سلسلے میں شکوک و شبہات کو تقویت دی ہے۔ پولیس کے ایک اور ذریعہ نے اس معاملے میں پولیس کو سیاسی اور لسانی دباؤ کا سامنے کرنے کا بھی انکشاف کیا ہے۔

تازہ ترین