امریکا اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی نئی نہیں ہے، یہ کئی دہائیوں پر محیط ہے اور پچھلی متعدد حکومتیں اس میں کبھی کمی اور کبھی شدت دیکھتی ہوئی آرہی ہیں۔
امریکا کی جانب سے ہمیشہ ہی ایران کو خلیج فارس میں حالات کے بگاڑ کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا رہا ہے جبکہ تہران واشنگٹن کے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتا رہا ہے۔
بات ماضی میں ایرانی انقلاب کے دوران امریکی سفارتخانے کے عملے کی یرغمالی کی ہو یا پھر عراق ایران جنگوں کی، اس میں امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا عنصر شامل ہو یا پھر سال 07-2006 کے دوران ایران امریکا جنگ کی تیاریوں کی، ہر جگہ ہی دونوں ممالک ایک دوسرے کے سامنے صف آرا نظر آتے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے احکامات پر القدس فورس کے کمانڈر اور ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے قتل نے ایک مرتبہ پھر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے باب میں اضافہ کر دیا ہے۔
جہاں واشنگٹن اسے اپنا دفاع قرار دے رہا ہے وہاں ایرانی سپریم لیڈر نے اعلان کیا ہے کہ امریکا سے اس حملے کا بدلہ لیا جائے گا۔
لیکن یہاں ایرانی جنرل کے اس قتل تک پہنچنے والے حالات و واقعات کا جائزہ لیا جارہا ہے۔
اپریل 2015 میں اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما نے دیگر عالمی طاقتوں چین، روس، فرانس، انگلینڈ، جرمنی اور یورپی یونین کے ساتھ مل کر ایران کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا۔
اس معاہدے کے تحت ایران کے ایٹمی پروگرام کو محدود کرتے ہوئے اس پر کچھ پابندیاں عائد کی گئی تھیں جبکہ اس کے جواب میں ایران پر موجود معاشی پابندیاں اٹھالی گئی تھیں۔
غیر ملکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ان پابندیوں کے اٹھائے جانے کے بعد ایران 2016 کے دوران تیل کا سب سے بڑا برآمدی ملک بن کر سامنے آیا اور اس سال اس نے صرف اپریل کے مہینے میں 2 ارب 60 کروڑ بیرول یومیہ تیل برآمد کیا۔
نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مئی 2018 میں اس معاہدے سے علیحدہ ہونے کا اعلان کیااور کہا تھا کہ اس میں بنیادی طور پر خامیاں موجود ہیں۔
اسی ماہ کے دوران امریکا کی جانب مطالبہ سامنے آیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ تہران شام جنگ سے نکلنے سے لے کر جوہری پروگرام کو چھوڑنے تک کے اقدامات کرے۔
واشنگٹن نے اسی سال اگست کے مہینے میں ایران پر اپنے معاہدے سے علیحدہ ہونے کے نتیجے میں نئی پابندیاں عائد کردیں، جن میں ایران کے ساتھ ایوی ایشن سیکٹر، قالین سازی کی صنعت، خشک میوہ جات، سونے اور گاڑیوں کی برآمدات پر پابندیاں شامل تھیں۔
ان پابندیوں سے ایران کو معاشی طور پر شدید نقصان اٹھانا پڑ رہا تھا کہ نومبر کے مہینے میں واشنگٹن نے تہران کی تیل کی صنعت اور بینکنگ سیکٹر پر بھی پابندیاں عائد کردیں۔
مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی کا الزام ایران پر عائد کرتے ہوئے امریکا نے اس مرتبہ 15 اپریل 2019 میں پاسداران انقلاب کو بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا۔
یہ امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ تھا کہ کسی دوسرے ملک کی فوج کو دہشت گرد قرار دیا گیا۔
اس کے جواب میں ایران نے امریکا کو خطے میں دہشت گردی کا سب سے بڑا اسپانسر اور اس کی فوج کو دہشت گرد گروپ قرار دے دیا تھا۔
مئی 2019 کے آغاز میں اس وقت امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے اعلان کیا تھا کہ ایران کی بڑھتی ہوئی دھمکیوں کی وجہ سے امریکا ایئرکرافٹ کیریئر اسٹرائیک گروپ اور لڑاکا طیارے خلیج فارس بھیج رہا ہے۔
انہوں نے واضح کیا تھا کہ امریکا ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا لیکن اپنے اوپر ہونے والے کسی بھی حملے کا دفاع کرنے کے لیے یہ اقدام اٹھایا ہے، جبکہ اسی دوران واشنگٹن نے تہران پر نئی پابندیاں بھی عائد کردیں۔
متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے 12 مئی کو بتایا کہ ریاست فجیرہ کے نزدیک آبنائے ہرمز پر 4 تیل بردار ٹینکرز پر حملہ کیا گیا ہے جو تیل کی ترسیل کو ثبوتاژ کرنے کی ایک سازش ہے۔
یو اے ای نے حملہ آوروں سے متعلق تو کچھ نہیں بتایا لیکن امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے الزام عائد کردیا کہ ان حملوں کے پیچھے ایران ملوث ہے۔
یمن کے حوثی باغیوں نے مئی 2019 میں سعودی عرب کی تیل پائپ لائن پر حملہ کرکے انہیں شدید نقصان پہنچایا، ریاض نے اس کا ذمہ دار ایران کو ٹھہرایا جبکہ تہران نے اس الزام کو مسترد کردیا۔
اسی ماہ 19 مئی کو بغداد میں امریکی سفارتخانے کے قریب ایک راکٹ آکر گرا جس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، تاہم امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اگر ایران جنگ کرنا چاہتا ہے تو یہ اس کا اختتام ہوگا۔ دوبارہ امریکا کو دھمکانے کی کوشش نہ کریں۔‘
امریکا۔ایران کشیدگی کم کروانے کے لیے جاپانی صدر ایران پہنچے تو خلیج امان میں ایک جاپانی اور ایک ناویجین آئل ٹینکر پر حملہ ہوا، ایران نے ان آئل ٹیکرز کے 44 افراد کو ریسکیو کیا۔ تہران نے پہلے اسے ایک حادثہ اور پھر بعد میں مشتبہ حملہ قرار دیا۔
جون 20، 2019 کو ایرانی فورسز نے امریکی ڈرون کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا، واشنگٹن تہران پر حملہ کرنے ہی والا تھا کہ صدر ٹرمپ نے یہ حملہ رکواتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہمیں کوئی جلدی نہیں، بات چیت کے راستے اب بھی کھلے ہیں۔‘
دو روز بعد ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان عباس موسوی نے کہا تھا کہ ایران امریکا کی جانب سے کی گئی ہر جارحیت کا منہ توڑ جواب دے گا۔ اسی روز ایران نے امریکی خفیہ ایجنسی کے لیے کام کرنے والے مبینہ جاسوس کو سزائے موت دینے کا اعلان کیا تھا۔
امریکا نے اس پر نئی پابندیوں کا اعلان کردیا تھا جن میں ایران کے سپریم لیڈر پر پابندیوں سمیت دیگر مالیاتی پابندیاں شامل تھیں۔
ان پابندیوں کے جواب میں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی صدر اور ان کے ساتھی ایران کے ساتھ جنگ کرنے کے خواہشمند ہیں۔
جون کے آخر میں امریکا کی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) نے اعلان کیا تھا کہ امریکی فورسز اور اس کے مفادات کی حفاظت کے لیے خطے میں جدید جنگی طیارے ایف-22 تعینات کیے جارہے ہیں۔
جولائی 4، 2019 کو برطانوی فورسز نے اپنے سرحد پار علاقے جبرالٹر (جبل طارق) پر ایک ایرانی تیل بردار جہاز کو روک کر اس کے کیپٹن کو گرفتار کرلیا تھا، اور الزام عائد کیا تھا کہ یورپی یونین کی پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایرانی جہاز اس گزرگاہ کو استعمال کرتے ہوئے شام میں تیل کی ترسیل کے عمل میں مصروف تھا۔
کچھ روز بعد ایران کے پاسداران انقلاب نے آبنائے ہرمز سے بین الاقوامی سمندری قوانین کی خلاف ورزی پر برطانوی تیل بردار جہاز کو گرفتار کرلیا تھا۔
امریکی پابندیوں کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری تھا، اس نے اس مرتبہ آیت اللّٰہ خامنہ ای کے لیے کام کرنے والے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف پر ہی پابندی عائد کردی۔
ایرانی وزیر خارجہ نے اس پابندی کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے ظاہر ہے کہ امریکا انہیں بھی اپنے لیے ایک خطرہ تصور کرتا ہے، اس فیصلے سے مجھ پر یا میرے اہل خانہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، کیونکہ میرے اور میرے اہل خانہ کے ایران کے باہر مفادات نہیں ہیں۔
اگست کے مہینے میں ایران اپنا نیا دفاعی نظام ایس-300 دنیا کے سامنے لے آیا جو 2010 سے عالمی پابندیوں کی وجہ سے تعطل کا شکار تھا، ایرانی صدر نے اسے دنیا کے جدید ترین دفاعی نظام ایس-400 کے ہم پلہ قرار دیا تھا۔
ستمبر میں امریکا نے ایران کی مقامی اسپیس ایجنسی پر پابندی عائد کردی اور الزام عائد کیا کہ اس ایجنسی کو بیلسٹک میزائل پروگرام کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
4 ستمبر کو امریکا نے ایرانی تیل کمپنیوں پر پابندیاں عائد کردیں اور کہا تھا کہ ان کمپنیوں کو ایران کی پاسداران انقلاب کی جانب سے ہدایات ملتی ہیں۔
14 ستمبر کو سعوی کمپنی آرامکو کی تیل تنصیبات پر حوثی باغیوں کی جانب سے حملہ کیا گیا جس کی وجہ سے پوری دنیا میں تیل کی فراہمی متاثر ہوئی۔ سعودی عرب اور امریکا نے ان حملوں کا ذمہ دار بھی ایران کو ٹھہرایا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خطاب کے دوران ایران کے خطے کی کشیدہ صورتحال کا ذمہ دار قرار دیا تھا اور دنیا سے مطالبہ کیا تھا کہ ایران کے خلاف سخت پابندیاں عائد کی جائیں۔
8 نومبر کو ایران نے دعویٰ کیا کہ اس نے اپنی فضائی حدود کے اندر ایک غیر ملکی ڈرون کو مار گرایا ہے، عالمی میڈیا میں یہ خبریں شائع ہونے لگیں کہ یہ گرایا جانے والا ڈرون بھی امریکا کا ہے، تاہم سینٹ کام نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس ڈرون کا تعلق امریکا سے نہیں ہے۔
نومبر 15 کو ایران میں تیل قیمتوں میں ہونے والے تقریباً 300 فیصد اضافے کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا، اس دوران سیکڑوں لوگ مارے گئے، اپوزیشن کا کہنا تھا کہ تقریباً 600 سے زائد جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق 300 سے زائد افراد مارے گئے ہیں۔
ایران کے جنرل حسین سلامی نے مظاہرین سے خطاب کے دوران امریکا، برطانیہ، عراق اور سعودی عرب پر اس ہنگامہ آرائی کا الزام عائد کیا جبکہ ایرانی خبر رساں ایجنسی ارنا نے سی آئی اے سے تعلق رکھنے والے 8 افراد کی گرفتاری کا دعویٰ بھی کیا۔
دسمبر میں ایرانی صدر نے بین الاقوامی باالخصوص امریکی پابندیوں کے بعد 39 ارب ڈالر کے مزاحمتی بجٹ ک اعلان کیا، جس کا مقصد ایرانی عوام کی فلاح و بہبود تھا۔
امریکا کی جانب سے ایران کی سب سے بڑی ایئر لائن اور ایرانی حکام کے ویزا پر بھی پابندی عائد کردی گئی تھی۔
تاہم 27 دسمبر کو ان دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب عراق کے ایک ملٹری بیس پر ہونے والے راکٹ حملے میں ایک امریکی کنٹریکٹر مارا گیا۔
اس حملے کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی تھی، تاہم بعد میں امریکا نے اس کا الزام ایرانی حمایت یافتہ کتائب حزب اللّٰہ پر عائد کردیا۔
دو روز بعد امریکا نے ’اپنے دفاع‘ میں کتائب حزب اللّٰہ کے ٹھکانوں پر حملے کیے اور کہا کہ یہ حملے امریکی کنٹریکٹر کے قتل کے ردعمل کے طور پر کیا گیا۔
اس حملے میں کتائب حزب اللّٰہ کے 4 کمانڈروں سمیت متعدد افراد مارے گئے تھے، تاہم اس کے بعد 31 دسمبر کو ایرانی حامیوں نے عراق کے دارالحکومت امریکی سفارتخانے پر حملہ کردیا اور اس کا مین گیٹ توڑ دیا تھا۔
سفارتخانے پر حملے کا الزام بھی امریکا نے ایران پر عائد کیا، اس نے عراق میں ایران کی حمایت یافتہ مقامی ملیشیا پی ایم ایف کے مظاہرین پر آنسو گیس کے شیل برسائے۔ تاہم یکم جنوری کو سفارتخانے کا محاصرہ ختم کردیا گیا۔
امریکا کے سیکریٹری ڈیفنس مارک ایسپر کی جانب سے الزام عائد کیا گیا کہ ایران عراق میں امریکی مفاد کے خلاف مہم جوئی کر سکتا ہے، تاہم اگر ایسا ہوا تو ہم ان پر حملہ کریں گے، اور ہم امریکی فورسز کی حفاظت کے لیے پیشگی اقدامات بھی اٹھائیں گے۔