• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکا اور چین تجارتی معاہدے کا پہلا مرحلہ طے کرنے کیلئے تیار

واشنگٹن: جیمز پولیٹی

امریکا اور چین تجارتی جنگ کو روکنے کیلئے سخت جدوجہد کے بعد ایک معاہدے پر دستخط کیلئے تیار ہیں، جو کئی ماہ کے تصادم ، جس نے عالمی ترقی کو روکا ہوا تھا،کے بعد دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے مابین مفاہمت اور مصالحت کی آزمائش کا دور شروع کررہا ہے۔

وائٹ ہاؤس کی ایک تقریب میں معاہدہ کا ’’پہلا مرحلہ‘‘ باقاعدہ طور پر طے پایا یہ معاہدہ، ایسے وقت میں واشنگٹن اور بیجنگ کے مابین ایک محدود سمجھوتے کا نتیجہ ہے جب دونوں ممالک کو کشیدگی میں اضافے سے معاشی اور مالی نقصان کا خدشہ ہے۔

معاہدے کے تحت امریکا کی جانب سے کچھ ٹیرف میں معمولی کمی اور مزید تادیبی اقدامات کو غیر معینہ عرصے تک روکنے کے بدلے میں چین نےمزید 200 ارب ڈالر مالیت کی امریکی اشیاء کی خریداری کا وعدہ کیا،جس میں زرعی مصنوعات ، کرنسی اور دانشورانہ املاک سے متعلق دیگر وعدے شامل ہیں۔

تاہم،یہ معاہدہ دو سال سے جاری تجارتی جنگ کے خاتمے کے لئے پائیدار امن سے کہیں کم ہے،جس سے دونوں ممالک کے مابین اعتماد میں کمی آئی ہے اور بحرالکاہل کے دونوں اطراف کاروبار میں خلل کا باعث بن رہی ہے۔یہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 360 ارب ڈالر کی چینی مصنوعات پر عائد ٹیرف میں وسیع چھوٹ دیتا ہے، اور ان کے معاشی ماڈل کے کلیدی پہلوؤں پر کچھ چینی مراعات حاصل کرتا ہے، جس نے سبسڈی کے استعمال سے لے کر بڑے پیمانے پر سائبر منتقلی تک امریکا کو سب سے زیادہ مایوسی کا شکار کردیا ہے۔

دونوں طاقتوں کے مابین گہری اسٹریٹجک دشمنی کو روکنے کا بھی امکان نہیں ہے، فوجی معاملات اور فائیو جی مواصلات سے مصنوعی ذہانت تک جدید ٹیکنالوجی میں برتری کے حوالے سےڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے دوران تیزی آئی ہے۔

واشنگٹن میں ایک تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن کے پالیسی تجزیہ کار علی وائن نے کہا کہ اس معاہدے پر دستخط اگرچہ خوش آئند ہیں،لیکن اس حقیقت کو رد نہیں کرتا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو مخاصمانہ نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔امریکا نے چین کے اقتصادی عروج کو اپنی قومی سلامتی اور اس کے اتحادیوں اور شراکت داروں کیلئے خطرہ قرار دیا ہے،دریں اثناء چین مقامی جدت طرازی کی تیز رفتاری اور متبادل برآمدی منڈیوں کے ناگزیر نظریہ وجود پر غور کررہا ہے۔

یہ معاہدہ مالیاتی منڈیوں میں سرمایہ کاروں کو کچھ مہلت کی پیشکش کرے گا، جیسا کہ دونوں حکومتوں کے مابین مذاکرات کا آغاز ہوچکا ہے، اس وقت معاہدے کو ڈرامائی طور پر دیکھا جارہا ہے۔ تاہم، امریکی اور چینی حکام نے مذاکرات کے دوسرے مرحلے کے وقت اور امکانات کے بارے میں چند واضح اشارے دیئے ہیں،جو دونوں ممالک میں سپلائی چینز،پیداوار اور صارفین کے ساتھ کاروبار کو کچھ زیادہ یقینی بناسکتےہیں۔

معاہدے کے بعد چین زیادہ تیزی سے ٹیرف کے خاتمے کی امید کررہا ہے،تاہم امریکا اس بات کو یقینی بنانے کیلئے کہ چین اپنے وعدوں کا احترام کرے،مزاحمت کررہا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ نومبر 2020 کے امریکی صدارتی انتخابات کے بعد تک مذاکرات کے دوسرے حصے پر اتفاق نہیں ہوسکتا ۔

نیوجرسی میں مقیم پی جی آئی ایم فکسڈ انکم کے چیف ماہر معیشت ناتھن شیٹس نے کہا کہ مارکیٹ کے نقطہ نظر سے معاہدے نے کچھ اہم شکوک کا خاتمہ کردیا ہے لیکن گہرے معاشی نقطہ نظر سے مجھے شک ہے کہ یہ کمپنیوں کے لئے دوبارہ سرمایہ کاری کے آغاز،اپنی جیبوں سے رقم نکالنے اور اخراجات شروع کرنے کیلئے کافی ہے۔وہ مزید واضح ہونے کا انتظار کریں گے۔

اس معاہدے کو ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے ہی سیاسی فتح قرار دے دیا ہے جبکہ اپنے عہد صدارت اور 2016ء کی صدارتی مہم کے دوران انہوں نے چین کے کیخلاف سخت گیر مؤقف اپنانے کا عہد کیا تھا۔لیکن یہ واضح نہیں کہ دوسری مدت کیلئے صدارتی مہم کے دوران اس جوئے سے انہیں فائدہ پہنچے گا یا نہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے خود پر تنقید کا موقع دیا کہ تجارتی جنگ معاشی طور پر لاپرواہی تھی،زراعت اور مینوفیکچرنگ پر انحصار کرنے والی ریاستوں کو کچھ حد تک متاثر کرکے اگرچہ اس سے مکمل طور پر مندی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ڈیموکریٹک ناقدین کی جانب سے یہ دباؤ ڈالنے کا امکان ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے سب کچھ جھونکنے سے کچھ بڑی چینی مراعات حاصل ہوئیں۔

سینیٹ میں اعلیٰ سطح کے ڈیموکریٹ رکن چارلس شمر نے کہا کہ صدر ٹرمپ آسان راستہ نکال رہے ہیں۔وہ امریکی کاروبار، امریکی کسانوں اور آنے والے برسوں تک امریکی مزدوروں کی قیمت پر ایک کمزور، عارضی معاہدے کیلئے تصفیہ کررہے ہیں۔

معاہدے تک تیزی سے پہنچنے سے قبل امریکا کی جانب سے اہم خیرسگالی اشارے کیے گئے تھے۔امریکی محکمہ خزانہ نے کرنسی کے جوڑ توڑ کرنے والے کی حیثیت کو ختم کردیا،جس کاچین کے نائب وزیراعظم لیو ہی کے واشنگٹن پہنچتے ہی گزشتہ سال اگست میں کشیدگی میں اضافے کے طور پر اس نے عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔

مرکز برائے اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز میں سیاسی معیشت کی سینیئر فیلو اسٹیفنی سیگل نے کہا کہ امریکا نے بھی کشیدگی میں کمی کا رویہ اپنایا تھا۔انہوں نے کہا کہ چین کی حکومت ہر سطح پر بات چیت کی راہیں دوبارہ کھولنے کی کوشش کررہی ہے، رابطے جوابی اشارے ہیں۔یہاں تک کہ فاکس بزنس نیٹ ورک کو ایک انٹرویو کے دوران سخت گیر امریکی تجارتی نمائندے رابرٹ لائٹائزر نے کہا کہ وہ معیشتوں کو الگ کرنے کی کوشش نہیں کررہے تھے بلکہ ایک ایسا اصول بنایا ہے جو دونوں ممالک کے لئے کارآمد ہو۔

انہوں نے کہا کہ لوگ تنقید کرسکتے ہیں لیکن یہ میرے لیے بالکل بھی پریشان کن نہیں ہے۔مجھے لگتا ہے کہ صدر ٹرمپ کا ایک مقصد ہے۔انہوں نے ہم سے اس پر سخت محنت کروائی اور ہم نے ایک بہت بڑا قدم آگے بڑھایا ہے۔

تازہ ترین