دل چاہتا ہے آپ کے ساتھ میں بھی خواب دیکھوں۔ نہ تو یہ خواب خرگوش ہے اور نہ ہی خواب ہو جانے والا خیال۔ بس ایک انسانستان بنانے کا خواب ہے۔ ہندو ہندوستان میں رہتا ہے، افغان افغانستان میں، ایک ہجوم پاکستان میں رہتا ہے تو انگریز انگلستان میں، لیکن انسانوں کے لئے کوئی ستان نہیں ہے۔ اس لئے آج تک کوئی جگہ انسانستان کہلانے کے لائق نہیں ہوئی۔ علم منطق میں انسان وہ ہے جو جانور نہیں ہے۔ اور جو جانور ہے وہ انسان نہیں ہے، لیکن جو جانور نہیں ہے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ انسان ہے، اسی طرح سے ہر حقیقت سچ نہیں ہوتی، ہر سچ حقیقت نہیں ہوتا، حقیقت کو سچ مانا جاسکتا ہے لیکن مان لینے سے حقیقت سچ نہیں ہو جاتی۔ اس لئے سچ کو ماننا ضروری نہیں ہے کیونکہ وہ حقیقت نہیں ہے۔ یہ عجیب سی تکرار ہے کہ میں اچھا نہیں ہوں اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ میں برا ہوں، لیکن اگر میں برا نہیں ہوں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں اچھا بھی ہوں۔ اس اگر مگر میں بندہ الجھ جائے تو وہ کچھ دیر میں ہی اپنے بال نوچتا ہوا نظر آئے گا۔ لیکن کسی نقطے اور منزل تک نہیں پہنچ سکے گا اور لوگ کہیں گے فلاسفر ہوگیا۔ انسانستان بنانے کا جنون بھی کچھ فلاسفروں جیسا ہی ہے لیکن انسان کی کوئی تعریف کرنے سے پہلے یہ کیسے پتہ چلے گا کہ یہ پتلا انسان ہے۔ کھانا کھاتے دیکھو تو سارے ہی جاندار کھاتے ہیں، سوتا دیکھو تو سارے ہی جاندار سوتے بھی ہیں، حواص خمسہ کے سارے ہی کام سارے ہی جاندار کرتے ہیں۔ اپنے اپنے حواص کے مطابق پھر کونسی ایسی چیز ہے جو ظاہر کرے کہ یہ انسان ہے محض جاندار نہیں ہے، ایسا انسان کہاں ڈھونڈا جائے جس کے لئے اسکا ”ستان“ بنایا جائے۔ اس فلسفیانہ آئیڈیل ازم سے نکل کے دیکھتے ہیں کہ ہم جس زمین میں اپنی جڑیں گاڑھے بیٹھے ہیں کیا وہ انسانوں کی زمین ہے یا وہ ”ستان“ انسانوں کا ”ستان“ ہے۔ تو ایسا کوئی خاص نظر نہیں آرہا، ہر جبلت میں حیوانیت ہی نظر آرہی ہے۔ فطری طور پر چھین چھپٹ کا دور دورا ہے۔ عادات و اطوار میں جنگل کا رہن سہن ہے۔ زہریلا اور خونخوار، جنگلی جانوروں میں بھی کئی طرح کے ڈسپلن موجود ہوتے ہیں۔ وہ اپنے ہم جنس کا خیال رکھتے ہیں۔ اسے دشمن اور خطرے سے آگاہ کرتے ہیں، ہم جنس باہم پرواز، کبوتر بہ کبوتر باز بہ باز، لیکن یہ کہاوت اس زمین پر بسنے والے یا خلوص طور پر پاکستان میں بسنے والے نام نہاد اشرف المخلوقات پر پوری نہیں اترتی۔ کیونکہ وہاں نہ تو کوئی باہم پرواز ہے نہ ہی باہم جنس خیال، باہم چھین چھپٹ ضرور ہے۔ بات ہو رہی تھی انسان کی تعریف کی، یہ ایک مشکل سا سوال ہے۔ کیونکہ ہم مسلمان کی تعریف کرسکتے ہیں لیکن ہمارا اس پر متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ جمہوریت کی تعریف کرسکتے ہیں۔ لیکن اس پر عمل ضروری نہیں ہے، سوشلزم کا ذکر کر سکتے ہیں لیکن اس پر سوچنا ضروری نہیں ہے۔ عدل کا علم اٹھا سکتے ہیں لیکن عدل کرنا اور ماننا ضروری نہیں ہے۔ تہذیب کا ذکر کرسکتے ہیں۔ لیکن مہذب ہونا قطعی ضروری نہیں ہے۔ تو پھر ہم انسان کی کیا تعریف کریں گے۔ اس لئے ہمارے ساتھ جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ اسکے برعکس ہوتا ہے۔ جو ہم کہتے، کرتے یا سنتے ہیں۔ ہم دسترخوان پر کھانا کھانے بیٹھتے ہیں تو اس بات کا احساس مٹا دیتے ہیں کہ کتنے اوروں نے بی اسی دسترخوان پر کھانا ہے۔ عالیشان گھر بنانے لگتے ہیں تو یہ محسوس نہیں کرتے کہ میرے جیسے کتنے اوروں کا جو آسمان تلے پڑے ہیں کیا حال ہوگا۔ بیماری سے سسکتے بغیر دوا کے پڑے کتنے لاکھوں جنگلوں میں پڑے زخمی جانوروں کی طرح آہستہ آہستہ موت کے جال میں پھنستے جا رہے ہیں۔ کتنے دوسروں کی محبت سے محروم گھائل دل کے ساتھ محض سانس کی ڈوری کو کھینچنے چلے جا رہے ہیں۔ یہ دوسروں کا درد ہی تو ہے جو اس مٹی کے پتلے کو انسان کہتا ہے۔ وگرنہ رینگنے والی مخلوق یا چوپائے اور ہمارے جیسے جانور میں کیا فرق ہے۔ ہم نے اس فرق کو مٹا کر اپنے مقام کا جو تعین کیا ہے اس کے مطابق ہم نے اپنے لئے ”ستان“ بنالئے ہیں، جی چاہتا ہے اس کرہ ¿ ارض پر انسانوں کا بھی کوئی ”ستان“ ہو۔ ستان تو بن ہی جاتا ہے اس کے لئے انسان ڈھونڈنے پڑیں گے۔ ڈھونڈنے تو مشکل سال کاک ہے، کہاں ملیں گے، البتہ بنانے پڑیں گے۔ لیکن انسان بنانے کے لئے شاید کوئی ٹیکنالوجی دریافت کرنی پڑے گی۔ فی الحال اسکا کوئی سافت ویئر بھی نہیں ہے۔ نہ ہی کوئی steve jobایسا کام کرسکتاہے۔ یہ انسان بنانے کا کام ہے جو بندے نے خود ہی کرنا ہے۔ جو نہ تو کسی بٹن دبانے یا آن کرنے سے ہوگا، نہ ہی اسکے لئے کوئی منتر پڑھنے کی ضرورت ہے کسی دم درود سے بھی کام نہیں چلے گا۔ کسی پوپ کی دعا چاہئے نہ کسی گورو کی پراتنا، یہ دراصل کرنے کا کام ہے، یہ عمل ہے، سوچ کو تبدیل کرنے کا ریاض، وہ سب کچھ جو بندے نے اپنے اندر بیدار نہیں کیا اسے جنجھوڑنے کا کام ہے۔ یہ کام کون کریگا، کیا ہمیں اس کے لئے کسی زرداری، نواز شریف یا کیمرون کی ضرورت ہے یا علامہ طاہر القادری، مولانا فضل الرحمن یا عمران خان جیسے کی ضرورت ہے۔ ان میں سے کوئی بھی انسانوں کا ”ستان“ بنانے کا کام نہیں جانتا۔ یہ سب کوئی اپنا سلسلہ چلا رہے ہیں۔ دراصل یہ کسی دوسرے کے کرنے کا کام نہیں ہے، یہ کام ہمارا اپنا ہے، یعنی میں نے خود مجھے ہی انسان بنانا ہے وہ وصف جو میں نے انسان ہونے کے لئے سن رکھے ہیں انہیں اپنانا ہے، میرے اندر انسان بھی چھپا بیٹھا ہے اور حیوان بھی، دونوں کو باہر نکال کے ایک کو اپنا حصہ بنانا ہے اور دوسرے کو کاٹ کے باہر پھینکنا ہے۔ اس کا ڈائیلاگ بھی میں نے اپنے آپ سے کرنا ہے اور فیصلہ بھی، لیکن پھر انسانستان کا منظر اور ماحول کیا ہوگا۔ یہ تو پتہ نہیں، انسان ملیں گے تو پوچھیں گے کہ وہ اگر انسان بن گئے ہیں تو انسانستان کا کیسا ماحول چاہتے ہیں۔ انسانوں کی دنیا والا یا تصوراتی جنت والا ویسے جنت والا بنانا تو آسان ہے کیونکہ وہ تو ہم نے خود نہیں بنانا، بلکہ بنا بنایا ملنا ہے۔ اس لئے اس کے بارے میں ہمیں سوچنے کی کیا ضرورت ہے، لیکن انسانستان کو تو انسان نے اپنے لئے بنانا ہے۔ جس میں صرف انسان ہونگے۔ وہ عورتیں بھی ہونگی اور مرد بھی ہونگے۔ جو آزاد بھی ہونگے اور کسی محرومی کا شکار بھی نہیں ہونگے۔ نہ ہی انہیں محبت اور پیار کے سوا کچھ آتا ہوگا۔ رنگ، نسل، مذہب، فرقہ، علاقہ، زبان غرض ہر طرح کے تعصبات سے مبرا۔ نہ کوئی بہت امیر نہ ہی بہت غریب، سب کی ہر ضرورت پوری ہو رہی ہو۔ سب ایک دوسرے کے لئے مر مٹنے کا درد رکھتے ہوں۔ پیدا ہونے والے کو خوش آمدید کہیں اور ہونے والے کو یاد کریں۔ یہی انسانستان کی انسانیت ہے۔ پتہ نہیں اس خواب کی تعبیر ممکن ہے یا نہیں۔ البتہ اس جانب سفر کا آغاز تو ضرور کیا جاسکتا ہے۔ جب چلنا شروع کریں گے تو راستہ بھی کھلتا جائیگا۔ اگر اسے یوٹوپیا کہہ کے رد کردیا تو یہ صریحاً راہ فرار ہے، کیونکہ پوٹوپیا تو وہ ہے جسے ہم نے خود نہیں بنانا۔ بلکہ ہمیں بنابنایا ملتا ہے۔ کسی انعام کے طور پر تو اسے کس نے دیکھا ہے۔ جبکہ انسانستان بنانا اتنا ہی حقیقی ہے جتنا کہ ہم اس دنیا میں آکر جی رہے ہیں۔ اس لئے حقیقت کا حصول یوٹوپیا نہیں۔ بلکہ یوٹوپیا کو حقیقت سمجھنا محض خیالی ہے۔ اس لئے آو ¿ پوری دنیا کو نہ سہی اپنی دھرتی کو ہی انسانستان بنانے کی کوشش کریں پھر شاید جب کبھی انسانوں کی تاریخ لکھی جائے گی۔ ہمارا بھی اس تاریخ میں کہیں نام آجائے۔