یہ ثابت ہو چکا کہ محبت وہ ’زکام‘ جو نصیحت کے جوشاندے سے ٹھیک نہیں ہوتا، یہ بھی ثابت ہو چکا کہ صرف حسین ہونا کافی نہیں، تھوڑی بہت عقل بھی ضروری، ہاں بندہ ذہین نہ ہو تو اسے حسین ضرور ہونا چاہئے، ایک دن شیخو سے پوچھا حسن کا عقل سے کیا تعلق، بولا ’’جو عقل کا حسن سے تعلق‘‘ لمحہ بھر رک کر بولا ’’حسن عقل بنا ایسے ہی جیسے امریکہ کے بنا ٹرمپ‘‘ شیخو کا عقلمندانہ جواب سن کر بس میں بیٹھے وہ سردار جی یاد آ گئے۔
جن سے ساتھ والے مسافر نے کہا ’’سردار جی جب بس چائنا چوک پہنچے تو مجھے بتا دیجئے گا‘‘ سردار جی بولے ’’اس میں بتانے والی کیا بات ہے، بس مجھے دیکھتے رہو، جہاں میں اتروں اس سے دوا سٹاپ پہلے اترجانا‘‘، ایک بار میرا دوست (چ) کہنے لگا، عقلمند آدمی بسیار خور نہیں ہوتا، پوچھا کیوں، بولا، جس کا ہروقت پیٹ بھرا رہے یا جو ہروقت پیٹ بھرنے میں لگا رہے۔
اس کا دماغ خالی ہو جاتا ہے، خیر اپنے دوست (چ) کے کیا کہنے، ایک مرتبہ ڈاکٹر نے یہ کہہ کر ’’اللّٰہ کے فضل وکرم سے تم ٹھیک ہوگئے ہو‘‘ فیس مانگی تویہ بولا ’’جب میں اللّٰہ کے فضل وکرم سے ٹھیک ہوا ہوں تو فیس کا ہے کی‘‘، اسی کی جب شادی ہوئی تو دوچار مہینوں بعد حالات پوچھے، کہنے لگا۔
عمر قید ہوگئی، کہا، سمجھ نہیں آئی، بولا ’’جو بیوی روز یہ سنائے، خاوندوں کی جوتیاں سیدھی کرنے کے بجائے اب انہیں سیدھا کرنے کا وقت آگیا، اس بیوی کے ساتھ زندگی گزارنا عمر قید ہی، جب یہ کہہ کر تسلی دی کہ جوں جوں وقت گزرے گا، سب ٹھیک ہو جائے گا، تو دکھی لہجے میں بولا ’’جس بیوی کا مائنڈ سیٹ یہ ہوکہ ’عورت مستور اور مرد بےدستور۔
اس نے کیا ٹھیک ہونا‘‘، سال بعد ایک دن (چ) سے حالات پوچھے، بولا، اب عمر قید بامشقت، کہا، پہلے تو صرف عمر قید تھی، اب یہ عمر قید بامشقت کیسے ہوگئی، جواب آیا ’’پہلے صرف بیوی تھی، اب ساس بھی ساتھ رہ رہی‘‘۔
ساس سے یاد آیا، مغربی تحقیق ثابت کر چکی کہ ساس کا خوف باقاعدہ ایک نفسیاتی بیماری، سائنسی زبان میں اسے ’پنھیرا فوبیا‘ کہیں، جنہیں ساس کا بہت زیادہ خوف رہے، جو ساس کی موجودگی میں بوکھلائے بوکھلائے سے رہیں، جنہیں ساس سے شدید نفرت ہو یا جو ساس سے دور رہ کر سکون محسوس کریں، وہ ’پنھیرا فوبیا‘ کے مریض، ان دنوں مغرب اس مرض کا علاج دریافت کرنے میں لگا ہوا۔
ویسے مغرب کے کیا کہنے، وہ تو دلخراش یادوں سے چھٹکارے کی دوا بھی تیار کر چکا، سوچوں، کاش یہ دوا لیلیٰ مجنوں، ہیرا رانجھا، رومیو جولیٹ دور میں ہوتی، ایسا ہوتا تو رانجھا ہیر کی بھینسیں چرانے اور آئے روز کیدو سے بےعزت ہونے کے بجائے دوا کھاتا اور ہیر سمیت سب یادوں سے آزاد ہو جاتا، مجنوں صاحب ’پتھر کھانے‘ اور لیلیٰ بدنامی سے بچ جاتی، رومیو، جولیٹ کی زندگیاں پُرسکون ہوتیں۔
صاحبو! زمانہ بدل رہا، بہت پہلے زمبابوے کے دارالحکومت ہرارے سے خبر آئی تھی کہ ایک شوہر مقامی عدالت جا پہنچا، شکایت یہ، بیوی تشدد کرے، سو رہا ہوں تو ٹھنڈا پانی پھینکے، منع کروں، بہت مارے، دوستوں کے سامنے مرغا بنا دے، یہ گزرے کل کی خبر تھی۔
آ ج کی خبر، ویتنام کا رہائشی لی وین، بیوی سے اتنی محبت، بیوی مری، کئی ماہ دن رات قبر پر، ایک دن قبر کھودی، بیوی کی باقیات نکالی، گھر لا کر اسے پلاسٹک کے لیپ سے خاتون کی شکل دی اور اپنے بیڈ پر ایک طرف لٹا دیا، آج 16سال ہو گئے اسے بیوی کی باقیات کے ساتھ رہتے ہوئے۔
یہ مثالی محبت بھرا قصہ شیخو کو سنایا تو طنزیہ لہجے میں بولا ’شیر کی شادی تھی، چوہا ناچ ناچ گائے جارہا تھا ’آہ ہا میرے بھائی کی شادی، آہ ہا میرے بھائی کی شادی‘ بندر نے یہ دیکھا تو چوہے کو روک کر پوچھا ’’تم چوہے ہو، شیر تمہارا بھائی کیسے‘‘ جھومتا جھامتا چوہا بولا ’’اپنی شادی ہو چکی، شادی سے پہلے ہم بھی شیر تھے‘‘ یہ سن کر میں نے شیخو سے کہا، میری ویتنامی لَو اسٹوری کے جواب میں، یہ گھسا پٹا لطیفہ۔
آج آپ مجھے وہ سردار لگ رہے جس نے اپنے نوکر کو ڈانٹتے ہوئے کہا ’’کل تم نے پودوں کو پانی کیوں نہیں دیا‘‘ نوکر نے کہا ’’پانی۔ کیا مطلب کل تو سارا دن بارش ہوتی رہی‘‘سردار نے کہا’’بیوقوف، بارش ہورہی تھی تو چھتری اوڑھ کر پانی دے دیتے‘‘۔
صاحبو، ویتنامی شوہر کی محبت اپنی جگہ، بیویوں کا احترام بجا مگر ہمارے ہاں زوجہ ماجدہ کی اپنی ہی منطق، جیسے، پہلا منظر، بیوی ’’امی یاد آ رہی، میکے نہ ہو آؤں؟‘‘، خاوند، خیر سے جاؤ، ساسو ماں کو میرا سلام دینا، بیوی، کتنی خوشی ہو رہی ہے میرے جانے کی، تم تو بس جان چھڑانے کیلئے تیار بیٹھے تھے، خاوند، حیران پریشان۔
دوسرا منظر، بیوی امی یاد آرہی، میکے نہ ہو آؤں، خاوند ابھی رک جاؤ، اگلے ہفتے چلی جانا، بیوی، ہاں ہاں تم کیسے جانے دو گے، تمہاری تو مفت کی نوکرانی چلی جائے گی، تمہارے کام کون کرے گا، تمہاری تو خواہش میں اسی قید خانے میں قید رہوں اور اسی قید خانے میں مر جاؤں، خاوند حیران پریشان۔
تیسرا منظر، بیوی، امی یاد آرہی، میکے نہ ہوآؤں، خاوند، جیسے تمہاری مرضی، بیوی، واہ جی واہ، جیسی تمہاری مرضی، ہاں جی،میں یہاں رہوں، میکے چلی جاؤں، جیوں یا مروں، کیا فرق پڑتا ہے کسی کو، خاوند حیران پریشان۔
چوتھا منظر، بیوی،امی یاد آرہیں، میکے سے نہ ہو آؤں، شوہر، کیا خیال ہے دونوں نہ چلیں؟ بیوی، کیا مطلب دونوں نہ چلیں، دفتر، بچوں کے اسکول، گھر، یہ سب کون دیکھے گا اور دو دن مجھے بھی اپنی امی کے ساتھ اکیلے رہ لینے دیں، میں بھی انسان، مجھے بھی ذہنی سکون چاہئے، خاوند حیران پریشان۔
بات کہاں سے کہاں چلی گئی، ذکر ہو رہا تھا، حسن اور عقل کا، فرانسیسی کہاوت، حسن خاموش ہو تب بھی بولتا ہے، روسی سیانے کہیں، عقلمند سوچ کر بولے اور بیوقوف بول کر سوچے، آج کی دنیا میں عقل حسن کے بنا بےمزا، حسن عقل بنا مصیبت، صرف عقلمند بھی دکھی، صرف حسین بھی پریشان، لہٰذا حسن اور عقل دونوں کا ہونا ضروری۔
لیکن یاد رہے عقل بھی خدا دے اور حسن بھی مگر محبت وہ بلا جو دونوں کو کھا جائے، لہٰذا اے حسن والو! اے عقلمندو! بھلائی اسی میں ’محبت ‘ سے بچنا، لو کر لو گل، میں کیا نصیحتیں کرنے بیٹھ گیا، ابھی تو بتایا کہ محبت وہ ’زکام‘ جو نصیحت کے جوشاندے سے ٹھیک نہیں ہوتا۔