بچوں کے درمیان کھیل کود کے دوران اکثر تلخ کلامی کے بعد ہاتھاپائی ہوجاتی ہے ، لیکن جب اس لڑائی میں بڑے کود جائیں تو خون خوابے کی نوبت آ جاتی ہے۔ ایسا ہی واقعہ جھڈو میں پیش آیا۔گزشتہ دنوں جامع مسجد کے قریب بچوں کی ایک لڑائی میں ایک لڑکے کو چوٹ لگ گئی، جس کے بعد نوبت تھانہ پولیس تک پہنچ گئی۔اس واقعہ کا جھڈو تھانہ کے روزنامچہ میں اندراج ہے اور ڈسٹرکٹ اسپتال سے زخمی لڑکے کو حیدرآباد کے اسپتال لے جانے کی ہدایت کی گئی تھی۔
لیکن وقوعہ کے تھوڑی دیر بعد ہی زخمی لڑکے کے مشتعل رشتہ دارجن کی تعداد تقریباً دس تھی، مخالف فریق سے بدلہ لینے کے لئے بابا نورالدین روڈ کے قریب مصطفیٰ گوندل کے گھر پر مبینہ طور پر حملہ کیا۔ انہوں نے گھر پر پتھراؤ کیا، روازے پر ڈنڈے برسائے گئے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر جھڈو پولیس کو اطلاع ملنے کے باوجود اس نے نہ تو مشتعل افراد رکو روکنے کے لیے کوئی کارروائی کی اور نہ ہی اس واقعے کی رپورٹ درج کی ۔پولیس نے بچوں کی لڑائی کو جواز بنا کرموسی گوندل کے بیٹے غلام مصطفیٰ گوندل کو حوالات میں بند کردیا۔ بعد ازاں بعض افراد نے فریقین میں صلح کروا دی، جس کے بعد علاقے میں امن قائم ہوگیا
اسی قسم کا دوسرا واقعہ مذکورہ وقعےکے دو روز بعد مین اسٹیشن روڈ پرپیش آیا۔ ایک ورکشاپ پر نوجوان لڑکوں میں گالم گلوچ اور مارپیٹ نے بڑھ کر گروہی فساد کی صورت اختیار کرلی۔ اس مرتبہ بھی مبینہ طور پر ڈنڈوں سے مسلح درجنوں افراد نے اختر آرائیں کے گھر کا گھیراؤ کر کے پتھراؤ کیا۔گھر میں موجود افراد کے مطابق حملہ آور گھر کے اندر داخل ہوئے، اور انہوں نے خواتین کے ساتھ بدتمیزی کی اور مردوں پر اندھا دھند ڈنڈے برسائے، جس سے تین افراد زخمی ہوگئے۔زخمیوں کو ڈسٹرکٹ اسپتال لے جایا گیا جن میں سے ایک شدید زخمی شخص کو حیدرآباد کے اسپتال منتقل کردیا گیاجب کہ باقی دو زخمیوں کو پولیس نے اپنی حراست میں رکھا۔
حملہ آوروں نے مخالف پارٹی کے گھر پر چڑھائی کے الزام کی تردید کی ہے جبکہ متاثرین کا کہنا ہے کہ مذکورہ حملے کے وقت پولیس بھی موقع پر موجود تھی جنہوں نے حملہ آوروں کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائےخاموش تماشائی کا کردار ادا کیا اور احتجاج کے باوجود حملہ آور گروپ کے خلاف رپورٹ بھی درج نہیں کی۔ شہری حلقوں نے پولیس کے روئیے کی مذمت کی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ قانون کی بالادستی اسی صورت میں قائم ہوسکتی ہے جب پولیس کا کردار غیرجانبدارانہ رہے۔