• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قراۃ العین (ایڈووکیٹ )

عورت اس کائنات کی سب سے خوبصورت تخلیق ہے اس دنیا کے رنگ عورت کے وجود سے قائم ہیں ماں ،بیوی بہن بیٹی کسی بھی روپ میں ہو قابل احترام ہوتی ہے اسلام کی آمد سے ہی عورت کی قدر و منزلت کو عزت ملی ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اللہ تعالی اسے ایک جنس کے ساتھ دنیا میں بھیجتے ہیں پہلا نام اسے مرد یا عورت کا ہی ملتا ہے اس کے بعد دنیاوی پہچان کے لیے اسے ناموں سے بلایا جاتا ہے اب ذرا سوچیں کہ پیدا ہونے والی بچی عورت کیوں کہلاتی ہے عورت کے لفظی معنی ہیں چھپانے کی چیز نبیﷺ نے فرمایا "عورت" عورت سے بھی چھپانے کی چیز ہے جب وہ نکلتی ہے تو اسے شیطان جھانک کر دیکھتا ہے، ہم پر اللہ تعالی کا فضل ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان ملک میں سانس لے رہے ہیں۔ مسلمان عورت کا مقام کسی اور مذہب میں دیکھنے میں نہیں آیا نبی ﷺ نے فرمایا کہ ایک مسلمان کی ہر چیز دوسرے مسلمان پر حرام ہے اس کا مال بھی اور اس کی عزت بھی (صحیح مسلم) اتنی واضع حدیث کے بعد کسی مسلمان پر جائز نہیں کہ وہ دوسرے مسلمان کے گھر کی عزت پر نظر ڈالے، ہم الحمدللہ ایک اسلامی ملک کی فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں تو ایسے اسلامی ملک میں قانون بھی سنت سے مطابقت رکھنے والا ہی ہونےچاہیے۔ عورت کی عزت کی حفاظت سے متعلق سارے قوانین موجود ہیں جن کا علم میں آنا بے حد ضروری ہے عورت فطرتاً جذباتی ہوتی ہے اپنی اسی کمزوری کے باعث فیصلہ کرنے میں اتنی مضبوط نہیں ہوتی جس کا فائدہ اکثر مجرمانہ ذہن رکھنے والے افراد اٹھاتے ہیں سب سے بڑا دھوکا جو عورت کی ذات اٹھاتی ہے وہ شادی کے نام پر ہونے والا دھوکہ ہے، کم عمر لڑکیوں کو معصوم ہرگز نہیں کہوں گی،کیوں کہ جب تک ایسی لڑکیاں بڑی چوٹ نہیں کھاتی ان کو سب اپنے دشمن لگ رہے ہوتے ہیں اور ان کی نظر میں ان کو دھوکہ دینا آسان نہیں ہوتا اور یہی بیوقوفی کر جاتی ہیں آج کل عدالتوں میں بڑی تعداد میں گھریلو مسائل پر مبنی مقدمے آتے ہیں جن میں عورتیں اپنے شوہر سے خلع لیتی ہیں اور جن کے پیچھے وہ اپنا گھر توڑتی ہیں وہی ان کو استعمال کرکے ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیتے ہیں اسلامی قوانین کے مطابق بغیر شادی کے کسی کے ساتھ تعلقات بنانے پر حد کی سزا کا نفاذ ہوتا ہے ۔

اگر ہم اپنے مسلکی قانون کو دیکھیں تو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 496 اے کے تحت کسی بھی عورت کو اس نیت سے اپنے پاس روکنا کہ اس کے ساتھ غلط فعل کرے تو اس کی سزا سات سال قید اور جرمانہ ہے اس کے علاوہ اسی قانون کی دفعہ 496 بی کے مطابق اگر آدمی اور عورت جو آپس میں شادی شدہ نہ ہوں اور بطور میاں بیوی ساتھ رہیں تو انہیں پانچ سال تک کی سزا اور جرمانہ ہوگا جو کہ دس ہزار روپے ہو سکتا ہے یہ تو وہ سزائیں ہیں جو تعزیرات پاکستان میں بیان ہیں اگر اسلامی سزاؤں کے بارے میں بات کریں تو ایسے بدکار مرد عورت کوزندہ سنگسار کرنے کی سزا ہے آج ہمارا معاشرہ تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، دوسروں کی بہن بیٹی، بیوی پر بری نظر رکھی جاتی ہے اور اپنی عزت کو بچا اور چھپا کر رکھا جاتا ہے جبکہ احادیث میں واضع ہے کہ ہر مسلمان کی حرمت دوسرے پر حرام ہے۔

ہمارے معاشرے کو اس بات کا یقین کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ گھر سے باہر نکلنے والی عورت کمزور کردار کی نہیں ہوتی پہلے کے معاشرے میں بہن بیٹی کو عزت کا مقام دیا جاتا تھا اب عورت کے نام کوبدنام کرنے والی عورت نما مخلوق نے اسے عورت کے مقام سے ہی گرا دیا ہے اب یہ ایسی نمائشی چیز کے طور پر پیش کی جانے لگی ہے جسے روپے کی چمک دمک گمراہ کر سکتی ہے جب کہ عورت کا دوسرا نام ہی مضبوط کردار ہے وہ نہ بکتی ہے نہ ہی ورغلانے، پھسلانے سے پھنستی ہے۔ آج کل اس گمراہی کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اولاد ماں، باپ سے بیوی ،شوہر سے اور بہن، بھائی سے بدظن ہے اور ایک بات یاد رکھیں کہ اگر آپ اپنے گھر والوں، دوستوں اور رشتے داروں سے چڑنے لگیں تو سوچیں کہ کہیں اللہ آپ سے ناراض تو نہیں اللہ سے دوری آپ کو دنیا وآخرت دونوں میں رسوا کردے گی۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہر بہن بیٹی کو گمراہی سے بچائے اور ہر کسی کی عزت کو محفوظ رکھے، آمین 

تازہ ترین