ایک معروف مقولہ ہے کہ’’تم مجھے ایک تعلیم یافتہ ماں دو، مَیں تمہیں ایک بہترین قوم دوں گا‘‘، یعنی قوموں کی ترقّی اور کام یابی ماں کے تعلیم یافتہ ہونے میں مضمر ہے۔ تاہم، تعلیم یافتہ ہونے سے مُراد ڈگری یافتہ ہونا نہیں، بلکہ نئی نسل کو علم کے ساتھ بہترین تربیت فراہم کرنے کی صلاحیت بھی ہے۔ اِسی لیے تعلیمی اداروں سے توقّع رکھی جاتی ہے کہ وہ طلبہ کو تعلیم کے ساتھ معاشرتی، مذہبی اور انسانی اقدار بھی سِکھائیں گے اور خوشی کی بات یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے بہت حد تک ایسا کر بھی رہے ہیں، لیکن اِس ضمن میں ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔ ہمارا ایک اہم قومی مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں آج کے ترقّی یافتہ دَور میں بھی لڑکیوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے حصولِ علم سے دُور رکھا جاتا ہے۔ اگرچہ گزشتہ چند سالوں سے سرکاری اور نجی سطح پر لڑکیوں کی تعلیم پر خاص توجّہ دی جا رہی ہیں، لیکن اب بھی ہزاروں، لاکھوں بچّیاں تعلیمی اداروں سے باہر ہیں۔ حالاں کہ شاید ہی کوئی ایسی بچّی ہو، جو تعلیم حاصل نہ کرنا چاہتی ہو، پھر یہ بھی کہ ہر سال مُلک کے مختلف امتحانی بورڈز اور یونی ورسٹیز میں لڑکیاں ،لڑکوں کی نسبت بہتر نتائج دیتی ہیں اور خود کو ’’ٹاپرز‘‘ ثابت کرنے میں کافی حد تک کام یاب بھی رہی ہیں۔اس منظر نامے کے باوجود، مُلک بھر خصوصاً خیبر پختون خوا میں لڑکیوں میں تعلیم کی شرح انتہائی کم ہے، جس کی کئی وجوہ ہیں۔ کئی خاندانوں میں لڑکیوں کی تعلیم میں معاشی مسائل اور سماجی روایات آڑے آجاتی ہیں، تو کہیں حکومت کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم کا مناسب انتظام نہ کرنا بھی اُنھیں تعلیم ،خاص طور پر پرائمری کے بعد کی تعلیم سے محروم کرنے کا سبب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوبے میں لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد بمشکل پرائمری تعلیم حاصل کر پاتی ہیں۔
لڑکیوں کو تعلیمی میدان میں جو چیلنجز درپیش ہیں، اُن میں معاشرتی رویّے بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔’’ بیٹا تعلیم یافتہ ہو کر کمائے گا اور ہمارا معاشی سہارا بنے گا، کیوں کہ والدین بیٹے کے ساتھ ہی رہیں گے، جب کہ بیٹی کی تعلیم پر خرچ کرنا تو بے کار ہے، اُس نے پرائے گھر جانا ہے اور پھر کون سا ہم نے اس سے نوکری کروانی ہے‘‘ والدین کا اِس سوچ کا حامل ہونابھی لڑکیوں کی تعلیم میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ نیز، بہت سے کیسز میں بچیّوں کو اسکول نہ بھیجنے میں غربت بھی ایک بڑا عنصر ہے۔
ہمارے یہاں کم شرحِ خواندگی انتہائی سنگین صُورت اختیار کر چُکی ہے، خاص طور پر دیہات میں، جہاں بچّیوں کی تعلیم کا رواج ہی نہیں، صُورتِ حال ابتر ہے۔ گرلز اسکولز کا نہ ہونا یا بہت دُور ہونا، خواتین یا لڑکیوں کے لیے’’رول ماڈلز‘‘ کا فقدان کہ جن سے متاثر ہو کر بچّیاں تعلیم حاصل کریں، کم عُمری کی شادیوں کا رحجان وغیرہ تعلیم کے حصول میں رکاوٹ ہیں۔ اِس حوالے سے شہری علاقوں کے کچھ الگ نوعیت کے مسائل بھی ہیں۔ تنگ و تاریک کمرے، چھوٹی چھوٹی عمارتیں، بجلی کی عدم فراہمی، پینے کا صاف پانی، واش رومز، خاکروب، کینٹین، چار دیواری، سیکیوریٹی، ضروری فرنیچر اور اساتذہ کی کمی وغیرہ بھی اہم مسائل ہیں، یہی وجہ ہے کہ خیبر پختون خوا ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے سال 2018ء کے سروے کے مطابق، صوبے میں دس لاکھ، 80ہزار اسکول جانے کی عُمر کے بچے اسکولز سے باہر ہیں، جو کہ صوبے کےپندرہ سے سترہ سال کی عُمر کے بچّوں کا 23فی صد ہیں۔ ان اسکول نہ جانے والے بچّوں میں 64فی صد لڑکیاں اور 36فی صد لڑکے ہیں۔ اسی محکمے کی شماریاتی رپورٹ برائے سال2017-18ء کے مطابق صوبے میں 21ہزار، 33اسکولز ہیں، جن میں39فی صد لڑکیوں کے ہیں۔ ان میں صوبائی دارالحکومت، پشاور میں450گورنمنٹ گرلز پرائمری اسکولز ہیں، جن میں ایک لاکھ، 34ہزار154 طالبات زیرِ تعلیم ہیں۔
ایک قابلِ غور معاملہ یہ ہے کہ پشاور کی تقریباً ڈیڑھ لاکھ اور مجموعی طور پر صوبے کی لاکھوں طالبات کے لیے پرائمری اسکولز میں کلاس رومز، میدانوں اور واش رومز کی صفائی کے لیے سِرے سے عملہ ہی موجود نہیں، جب کہ ان اسکولز میں طالبات کے لیے کینٹین کی بھی کوئی سہولت دست یاب نہیں۔ طالبات اسکولز کی صفائی خود کرتی ہیں اور اس مقصد کے لیے بچیوں کی باقاعدہ ڈیوٹیز لگائی جاتی ہیں۔
بڑی کلاسز کی طالبات اسکول ٹائمنگز سے کچھ وقت پہلے آکر میدان اور کلاس رومز صاف کرتی ہیں۔ جھاڑو لگاتی، فرش دھوتی ہیں، جب کہ یہی طالبات اسکولز میں ماسیوں، خادماؤں اور خاکروبوں کا کردار ادا کرنے کے بعد جمعدار کے فرائض بھی سَرانجام دیتی ہیں کہ اُنھیں طالبات کے واش رومز کے ساتھ اساتذہ کے واش رومز بھی صاف کرنے ہوتے ہیں۔ بریک، یعنی آدھی چھٹی ختم ہوتی ہے، تو ہر کلاس کی بچّیاں اپنے اپنے کلاس روم کی صفائی کرتی ہیں۔ یوں تعلیم حاصل کرنے کے لیے جانے والی یہ نوعُمر بچّیاں صحت کے مسائل کے ساتھ ساتھ اسکول کا ایک بُرا تصوّر لے کر گھر آتی ہیں۔بعض والدین نے اس حوالے سے’’ جنگ‘‘ سے گفتگو میں کہا’’ ہماری بچّیاں اکثر و بیش تر اِس طرح کے کام کروانے کی شکایت کرتی ہیں، بلکہ کئی بار تو وہ اسکول کی صفائی نہ کرنے کے ساتھ، اسکول چھوڑنے کی بھی ضد کرتی ہیں، مگر ہم اُنھیں سمجھا بُجھا کر اسکول بھیج دیتے ہیں کہ ہمیں بہرحال اپنی بچیوں کو پڑھانا ہے اور نجی اسکولز کی بھاری فیسیز ادا کرنے کی ہم میں سکت نہیں۔
اساتذہ سے شکایت کریں، تب بھی کوئی سنوائی نہیں ہوتی کہ وہ خود تو صفائی نہیں کر سکتیں۔‘‘ بلاشبہ طالبات کے اسکول چھوڑنے کی وجوہ میں مذکورہ مسائل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سیکڑوں بچّوں کے استعمال میں آنے والے واش رومز کی صفائی سے جِلدی اور دیگر بیماریاں، بچّیوں کی شخصیت پر منفی اثرات ، وقت کا زیاں، حصولِ علم میں حرج ، طالبات کا اسکول سے اُکتا جانا اور اُن کی عزّتِ نفس پر مرتب ہونے والے اثرات ایسے مسائل ہیں، جو کسی طور والدین، طالبات یا معاشرے کے لیے قابلِ قبول نہیں۔جہاں بچّیاں پڑھنے جائیں، وہاں سے مختلف طبّی اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہو کر لَوٹیں یا پھر اسکول ہی چھوڑ دیں اور تعلیم کا سلسلہ منقطع کردیں، تو اس سے زیادہ تکلیف دہ بات اور کیا ہوگی۔
پشاور میں گورنمنٹ گرلز پرا ئمری اسکول جوگیواڑہ، جی جی پی ایس فدا آباد، زرگرہ آباد اور دیگر سیکڑوں اسکولز میں اِس طرح کے مسائل موجود ہیں۔چند سال پہلے تک پرائمری اسکولز میں کینٹین کی اجازت اور خالہ کی پوسٹ ہوا کرتی تھی،لیکن نہ جانے کیوں یہ اسامی ختم کر دی گئی۔ اب سرکاری پرائمری اسکولز میں صرف خواتین اساتذہ اور چوکیدار کی پوسٹس ہیں۔ پہلے بھرتی کی گئی بعض خالائیں اب بھی چند اسکولز میں موجود ہیں، تاہم اُن کی ریٹائرمنٹ کے بعد وہاں سے بھی یہ پوسٹ ختم کر دی جاتی ہے۔ یہ خالائیں اسکولز کے باتھ رومز کی صفائی کے ساتھ کینٹین کا کام بھی کرتی تھیں، کھانے پینے کی اشیاء اور اسٹیشنری وغیرہ آدھی چُھٹی کے وقت فروخت کیا کرتیں۔ اب بیش تر اسکولز میں بچّیاں صفائی کا کام کرتی ہیں، جب کہ بعض اسکولز میں اساتذہ نے اپنی مدد آپ کے تحت یعنی اپنی تن خواہوں سے چندہ جمع کر کے پرائیویٹ خاکروب، صفائی کرنے والی یا ایسی خواتین کا بندوبست کرلیا ہے، جو اساتذہ کے لیے چائے بنانے، دفتری کاغذات پرنسپل کے دفتر سے کلاس رومز میں موجود اساتذہ تک کا پہنچانے وغیرہ کا کام کرتی ہیں،مگر ان کی تعداد بھی آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اِس حوالے سے’’ آل ٹیچرز پرائمری اسکولز ایسوسی ایشن برائے زنانہ‘‘ کی نائب صدر، جمیلہ افتخار نے بتایا’’ اسکولز کو درپیش مسائل میں یہ ایک بڑا مسئلہ ہے کہ صوبے کے تمام پرائمری اسکولز میں صفائی کا عملہ تعیّنات نہیں کیا جاتا۔ صرف اساتذہ اور چوکیدار کی اسامیاں ہیں۔
ہم نے متعدّد مرتبہ اجلاسوں میں متعلقہ افسران کو اس اہم مسئلے سے متعلق آگاہ کیا اور اسکولز میں خالہ، جمعدار کی تعیّناتی اور کینیٹن کے مطالبات پیش کیے، تاہم کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔‘‘ اُن کا مزید کہنا تھا’’ بعض اسکولز میں پہلے سے تعیّنات خالائیں موجود ہیں،تاہم اُن کی ریٹائرمنٹ کے بعد وہ پوسٹس بھی ختم کر دی جاتی ہیں۔‘‘اس ضمن میں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم،’’ بلیو وینز‘‘ کی سربراہ، قمر نسیم نے کا کہنا ہے کہ’’ طالبات سے اسکولز کی گندگی صاف کروانا کسی طور قابلِ قبول نہیں۔ اس طرح بچّیوں میں مختلف اقسام کے انفیکشنز پیدا ہو جاتے ہیں، جو بعد میں ان کے لیے مسائل اور طرح طرح کی پیچیدگیوں کا سبب بنتے ہیں۔‘‘
اُنہوں نے مزید کہا’’گو کہ حکومت مجموعی طور پر تعلیم کے شعبے میں اچھے اقدامات کر رہی ہے، تاہم اس مسئلے پر بھی توجّہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔‘‘ ہماری اِس مسئلے پر کئی طالبات سے بھی بات ہوئی، تو اُنھوں نے بتایا’’ ہمارا اسکول جانے کو اُس وقت دل نہیں چاہتا، جب ہماری صفائی کرنے کی ڈیوٹی ہوتی ہے۔ اساتذہ نے بچّیوں کی ڈیوٹیز لگا رکھی ہیں، لیکن ہم مجبور ہیں، ٹیچرز کی بات ماننی پڑتی ہے اور ہمارے علاوہ اسکول میں کوئی اور ہے بھی نہیں، جو صفائی کرے۔‘‘تاہم، پرائمری اسکولز کی بعض اساتذہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک بالکل مختلف بات بتائی کہ’’ بچّیوں سے اسکول کی صفائی کروانے کی ہمیں اجازت نہیں اور آج کل کی بچّیاں تو یہ کام گھروں میں بھی نہیں کرتیں، تو سیکڑوں بچّیوں کے زیرِ استعمال باتھ رومز کیسے صاف کریں گی؟ مختلف اسکولز کی پرنسپل صاحبان نے اس حوالے سے ذاتی طور پر یا اساتذہ کے تعاون سے اپنی مدد آپ کے تحت خالہ اور جمعدار کا بندوبست کر رکھا ہے اور اُن ہی سے یہ کام لیا جاتا ہے۔‘‘
خیبر پختو ن خوا کے تعلیمی بجٹ پر نظر ڈالیں، تو رواں مالی سال کے بجٹ میں تعلیم کے شعبے کے لیے136 ارب روپے مختص کیے گئے، جب کہ قبائلی اضلاع کے صوبے میں ضم ہونے کے بعد مذکورہ بجٹ 145ارب روپے کر دیا گیا، اس میں 20 ارب قبائلی اضلاع کے لیے رکھے گئے۔ تاہم، ان 20 میں سے 8ارب ترقّیاتی کاموں کے لیے اور باقی غیر ترقّیاتی کاموں، تن خواہوں اور دیگر ضروریات پر خرچ کیے جائیں گے۔ صوبے کے مجموعی تعلیمی بجٹ سے 90 ارب روپے غیر ترقّیاتی کاموں اور تن خواہوں وغیرہ کی مَد میں خرچ ہوں گے، جب کہ صرف 25 ارب روپے ترقّیاتی کاموں کے لیے مختص ہیں۔ صوبائی حکومت نے پہلی مرتبہ محکمۂ تعلیم کے ترقّیاتی بجٹ میں 70 فی صد حصّہ لڑکیوں کے تعلیمی اداروں کے لیے مختص کیا، جو یقیناً ایک خوش آیند اقدام ہے۔ اِس حوالے سے وزیرِ تعلیم، خیبر پختون خوا، اکبر ایّوب کا کہنا ہے کہ’’ پرائمری اسکولز میں یہ مسئلہ موجود ہے کہ وہاں خاکروب اور خالائوں کی پوسٹس نہیں ہیں،ہم اِس مسئلے کو دیکھ رہے ہیں اور اس پر بات چیت کریں گے تاکہ اس کاکوئی حل نکل سکے،۔عام طور پر چوکیدار ہی اسکول کی صفائی کرتے ہیں، لیکن اُن کا بھی یہ کام نہیں۔‘‘ اُنہوں نے کہا’’ محکمہ فنانس کلاس فور ملازمین کی بھرتی کے لیے روڑے اٹکاتا ہے۔ حکومت تعلیمی شعبے میں بہتر اقدامات کر رہی ہے۔گزشتہ 5سال میں 551پرائمری اسکولز اَپ گریڈ کر کے مِڈل اسکولز میں تبدیل کیے گئے۔بنیادی ضروریات کی فراہمی کو 50سے 77فی صد بڑھایا ۔
اسکول کی سطح پر ڈیٹا اکٹھا کرنے اور اساتذہ کی حاضری ممکن بنانے، گھوسٹ اساتذہ کی نشان دہی کی اور این ٹی ایس کے ذریعے بہترین اساتذہ بھرتی کیے۔انڈیپنڈنٹ مانیٹرنگ یونٹ(IMU) قائم کیا اور لڑکیوں کے اسکولز میں اعزایہ دینے کے ساتھ گرلز اسکولز کے لیے تعلیمی بجٹ کا 70فی صد مختص کیا۔ ‘‘اِس حوالے سے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر برائے زنانہ، محکمہ ایلمنٹری اینڈ سیکنڈری، ثمینہ غنی نے بتایا کہ’’ مذکورہ پوسٹس 2007 ء میں ختم کر دی گئی تھیں۔ہم نے بارہا متعلقہ افراد کو اس مسئلے کی سنگینی سے آگاہ کیا، لیکن محکمۂ فنانس نئی بھرتیوں پر راضی نہیں۔ عام طور پر اسکولز کی انتظامیہ اپنے طور پر صفائی اور کاغذات وغیرہ کی ترسیل کے لیے ملازمہ کا انتظام کرتی ہے۔‘‘