• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پٹرول ڈیزل 15 روپے سستا، شرح سود 1.5 فیصد کم، 1200 ارب کا ریلیف پیکیج، بجلی گیس بلوں کی قسطیں ہوں گی، وزیراعظم

پٹرول ڈیزل 15 روپے سستا، شرح سود 1.5 فیصد کم، 1200 ارب کا ریلیف پیکیج


اسلام آباد (نمائندہ جنگ) اسٹیٹ بینک شرح سود میں ڈیڑھ فیصد کمی کا اعلان کردیا ہے جس کے بعد پالیسی ریٹ 11 فیصد ہوگیا جبکہ وزیراعظم عمران خان نے کرونا وائرس کے اثرات سے نمٹنے کیلئے معیشت کے مختلف شعبہ جات کے لئے تقریباً 1200 ارب روپے کے ریلیف پیکیج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ پٹرول ،ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں 15 روپے کمی کا فیصلہ کیا گیاہے۔

 اس کیلئے 75 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ انہوں نے اس پیکیج کا اعلان سینئر صحافیوں سے گفتگو کے دوران کیا۔ 

عمران خان نے کرفیو نہ لگانے کا دفاع کرنے ہوئے کہاکہ ملک میں ایک کنفیوژن سی مچی ہوئی ہے، ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ اگر لاک ڈائون نہ کیاگیا تو ملک تباہ ہوجائے گا، یہ کوئی ٹوئنٹی ٹوئنٹی میچ نہیں ہے، یہ ایک دو مہینے کا گیم نہیں ہے۔ہو سکتا ہے 6 مہینے چلے یہ، یہ صورتحال ابھی سامنے آ رہی ہے، ہمیں نہیں پتہ کہ جو قدم آج اٹھا رہے ہیں وہ صحیح ہے یا نہیں، یہ وقت بتائے گا.

سب سے زیادہ خطرہ ہمیں کرونا وائرس سے نہیں بلکہ خوف میں آ کر غلط فیصلے کرنے سے زیادہ خطرہ ہے‘18ویں ترمیم کے بعد وفاق صوبوں کو مشورہ دے سکتاہے حکم نہیں‘ان کا کہناتھاکہ یہ میہ اجرت پر کام کرنے والے افراد اور مزدوروں کے لیے ہم دو سو ارب روپے رکھ رہے ہیں۔ 

بیروزگار ہونے والوں کیلئے پلان بنا رہے ہیں‘ اس کے لیے صوبوں سے بات کر رہے ہیں کہ اگر فیکٹریاں بند ہو گئیں تو کیا کرنا پڑے گا۔ برآمدی صنعت کوفوری طور پر ایک سو ارب روپے کے ٹیکس ریفنڈ دیں گے۔ 

اس کے علا وہ برآ مدی صنعت کیلئے ادائیگیوں کو موخر کر دیاجا ئے گا۔ ایس ایم ایز اورزرعی شعبہ کے لیے 100 ارب روپے رکھے ہیں۔ ایک کروڑ20لاکھ غریب خاندانوں کوچار ماہ تک تین ہزار روپے دیں گے‘ اس کے لیے ڈیڑھ سو ارب روپے رکھ رہے ہیں۔

پناہ گاہوں کی تعداد میں توسیع پر6 ارب روپے خرچ کئے جائیں گے‘ گندم کی خریداری کیلئے 280ارب‘ یو ٹیلیٹی اسٹورز کے لیے 50 ارب روپے رکھے گئے ہیں ۔ بجلی اور گیس کےبلوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ان کی قسطیں کی جا رہی ہیں۔ یہ قسطیں تین ماہ کے لیے ہوں گی۔ بجلی کے تین سو یونٹ والے صارفین اور گیس کے وہ صارفین مستفید ہوں گے جن کا بل دوہزار روپے ہوگا۔

میڈیکل ورکرز کے لیے پچاس ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔کھانے پینے کی چیزیں بالخصوص دالوں ، چینی اور گھی پر ٹیکسز ختم کر دیئے گئے ہیں یا کم کر دیئے گئے ہیں تاکہ قیمتیں مزید کم ہو سکیں۔

الگ سے 100ارب روپے مختص کیے ہیں تاکہ اس لاک ڈاؤن کے دوران ایمرجنسی کی صورت میں اس کو استعمال کیا جا سکے ۔ این ڈی ایم اے کو 25ارب روپے دیے گئے ہیں تاکہ کٹس وغیرہ خریدی جاسکیں۔صحت اور خوراک کی فراہمی کیلئے 15 ارب روپے خرچ ہوں گے‘کنسٹرکشن انڈسٹری کیلئے وزیر اعظم نے کہا کہ اس کیلئے الگ پیکج تیار کیا جا رہا ہے جس کا اعلان دوتین دن میں کر دیا جا ئےگا۔ ہم کنسٹرکشن انڈسٹری کو ایسا پیکج دیں گے جو آج تک کسی نے نہیں دیا ۔

ابھی کرفیو لگانے کا مرحلہ نہیں آیا۔ صورتحال روز بروز بدلتی ہے اور اس کے مطابق ہم ریویو کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں ایک کنفیوژن سی مچی ہوئی ہے ۔ ا یسا تاثردیا جا ر ہا ہے کہ اگر لاک ڈائون نہ کیا گیا تو ملک تباہ ہوجا ئے گا‘افراتفری پھیلائی جا رہی ہے، سب سے زیادہ خطرہ ہمیں کرونا وائرس سے نہیں بلکہ خوف میں آ کر غلط فیصلے کرنے سے زیادہ خطرہ ہے۔میں ایک چیز کلیئر کرنا چاہتا ہوں کہ جب ہم نےنیشنل سیکورٹی کونسل کا اجلاس بلایا تھا ۔ اس وقت سےہی ملک لاک ڈاؤن ہونا شروع ہو گیا تھا۔

لاک ڈائون کی کئی قسمیں ہیں‘لاک ڈاؤن کا آخری مرحلہ کرفیو ہے۔ آج بھی میں یہ کہتاہوں کہ کرفیو لگانے سے معاشرے پر بہت برا اثر پڑے گا‘ہم ملک بھر میں کرفیو کے متحمل نہیں ہو سکتے، کرفیو کا امیر طبقہ پر اثر نہیں پڑے گا لیکن غریب لوگ اس سے متاثر ہوں گے‘ہم نے 70 سالہ تاریخ میں سیکھا نہیں۔ جیلیں کمزور لوگوں سے بھری پڑی ہیں۔ عدالتی نظام میں طاقتور اور کمزور کے لیے الگ الگ نظام ہے۔

اگر میں ڈیفنس میں رہتا ہوں تو میں نے بہت سامان جمع کر کے رکھ ہوا ہے تو مجھے کوئی مسئلہ نہیں لیکن اگر غریب کے بارے میں سوچیں کہ وہاں کیا ہو گا، جو دیہاڑی دار ہے وہ کیا کرے گا۔میری سب سے پہلی ترجیح غریبوں تک کھانا پہنچاناہے‘ غریبوں کا خیال کیسے رکھنا ہے یہ سوچنے والی باتیں ہیں کیا ہمارے پاس اتنے وسائل ہیں کہ کچی آبادیوں میں کھانا پہنچا سکیں اور کم سے کم دیہی علاقوں میں حالات قابو میں رہیں ۔ 

میں اپنے غریبوں کے بارے میں سوچتا ہوں کہ وہ ان حالات میں کہاں سے اپنے گھر کا چولہا جلائیں گے‘پاکستان کے فیصلے ایک چھوٹی سے ایلیٹ کلاس کو دیکھ کر کیے جاتے ہیں،کورونا وائرس کے پیش نظر بھی لاک ڈاؤن کو لیکر عمومی سوچ یہی ہے‘مکمل لاک ڈاؤن کرنے سے غریبوں کو کھانا کون فراہم کرے گا، غلط فیصلہ کرکے معاشرے میں تباہی نہیں لانا چاہتے ہیں۔

ہمیں افراتفری کی بجائے دور رس اور دانشمندانہ فیصلے کرنا ہوں گے‘ روزانہ کی بنیاد پر وباءکے اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں‘گھروں پر کھانا پہنچانے کیلئے رضاکاروں کی فورس بنانا پڑے گی، اﷲ سے دعا ہے کہ ہمیں کبھی کرفیو نہ لگانا پڑے۔

سب اداروں سمیت قوم کے ہر فردکو کورونا وباءسے مل کر نمٹنا ہے۔ خوف اور ہیجان سب سے بڑا چیلنج ہے۔حکومت بدلتی صورتحال مدنظر رکھ کر فیصلے کر رہی ہے، آئندہ جو بھی صورتحال درپیش ہو گی اس کے مطابق فیصلے کئے جائیں گے۔پاکستان میں کورونا وائرس سے متعلق صورتحال دوسرے ممالک سے بہتر ہے‘ہمیں ایک قوم بن کر اس چیلنج کا مقابلہ کرنا ہے‘جتنی تیزی سے ہم نے کام کیا ہے ‘ میں چیلنج کرتا ہوں کہ کسی ملک نے اتنا کام نہیں کیا۔ 

ضرورت پڑی تو ہم اووسیز پا کستانیوں سے فندز جمع کریں گے۔ ہم انشاء اللّٰہ مل کر کورنا کا اسی طرح مقابلہ کریں گے جس طرح 2005میں قوم نے زلزلہ اور 2010 میں سیلاب کا کیا تھا۔ یہ بھی اتنا ہی بڑا چیلنج ہے۔ قوم خود کو ڈسپلن کرے ورنہ آخری آپشن کرفیو ہوگا۔

تازہ ترین