• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپین میں کرونا وائرس، متاثرین اور شرح اموات میں کمی

نیا کو اس وقت”کورونا“ نامی وباء نے اپنے شکنجے میں لیا ہوا ہے، چائنا کے شہر ”ووہان“ سے شروع ہونے والی اس وباء نے آہستہ آہستہ دُنیا کے مختلف ممالک کو مکمل اور جزوی طور پر اپنی لپیٹ میں لیا تو ہر طرف کہرام مچ گیا۔

امریکا، جرمنی، فرانس، سپین، اٹلی، کوریا، جاپان سمیت دوسرے بہت سے ممالک میں اموات کی شرح بڑھتی چلی گئی، کورونا وائرس بہت تیزی سے پھیلا جس نے لاکھوں انسانوں کو متاثر کیا جب کہ لاکھ سے زیادہ افراد لقمہ اجل بن گئے۔

اموات کے ساتھ ساتھ ہر ملک کی معاشی ابتری بھی شروع ہو گئی، معیشت کی گراوٹ نے دُنیا کو ایک نئے امتحان میں ڈال دیا، کورونا وائرس، معیشت کی بتدریج تنزلی اور لاک ڈاؤن سے پیدا ہونے والی خطر ناک صورت حال سے گھروں میں بند ہو جانے والے افراد پر نئی قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ 

چائنا کے بعد کرونا وائرس نے سپین کو اپنا نشانہ بنایا اس اچانک حملے سے لوگ تلملا اُٹھے، سپین میں کورونا وائرس کی وجہ سے 14دن کی ایمرجنسی لگائی گئی تھی اب وہ مزید چودہ دن کے لیے بڑھا دی گئی ہے لہٰذا اب ایمرجنسی 26اپریل تک ہو گی، فلائٹس آپریشن مکمل بند، عارضی اسپتال کا قیام، لاک ڈاون میں سخت پہرہ، کسی قسم کی آمد و رفت پر مکمل پابندی، میتوں کو دفن کرنے کے لئے جگہ کم ہو گئی جیسے اثرات ہیں کرونا وائرس کے۔ اس وقت سپین بھر میں ایک لاکھ 31 ہزار افراد کورونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں، جن میں سے 12ہزار چار سو بیس کی موت واقع ہو چکی ہے جبکہ 38ہزار تین سو بائیس افراد صحت یاب ہو کر اپنے اپنے گھروں میں جا چکے ہیں۔

اس کل تعداد میں سے سپین کے صوبے کاتالونیا میں اب تک متاثرین کی تعداد 26 ہزار دیکھنے میں آئی ہے جبکہ 2637 اموات سامنے آئی ہیں اور 10ہزار افراد صحت یاب ہوئے ہیں۔ سپین میں لاک ڈاون اور ایمرجنسی لگانے کا یہ فائدہ ہوا کہ کرونا وائرس مزید نہیں پھیلا اور اس وائرس سے متاثرہ افراد کا علاج کیا گیا۔

اسی طرح لاک ڈاؤن اور ایمرجنسی اور ہسپانوی سیکیورٹی اداروں کی سختی کی وجہ سے آج سپین میں اموات اور مزید مریضوں کے اندراج میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے، پورے سپین میں نئے متاثرین اور اموات میں واضح کمی دیکھنے کو ملی جس کے مطابق 30 فیصد روزانہ سے کرونا وائرس میں کمی ہو کر یہ شرح 7فیصد رہ گئی ہے۔ 

اس وقت انتہائی نگہداشت وارڈ میں 6480 افراد موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں لیکن اُمید کی جا رہی ہے کہ سپین اس وباء پر جلد قابو پا لے گا۔

اب بات کرتے ہیں لاک ڈاؤن اور ایمرجنسی میں سپین میں مقیم پاکستانیوں کی وہ کس طرح زندگی بسر کر رہے ہیں، بارسلونا کے ٹیکسی سیکٹر میں کام کرنے والے پاکستانی ڈرائیورز نے ہسپانوی کمیونٹی کے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو مفت میں اسپتال سے گھر اور گھر سے اسپتال لے جانے کی ایسی روائت قائم کی کہ جسے آج حکومتی ادارے بھی خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔

 پاکستانی کمیونٹی کی قدر ہسپانوی کمیونٹی کی نظروں میں مزید بڑھ گئی ہے اس عمل پر پاکستانی اور اسپانوی کمیونٹی پاکستانی ٹیکسی سیکٹر کے ڈرائیورز کو سیلوٹ پیش کر رہی ہے، اس وجہ سے کئی ڈرائیورز بھی کورونا وائرس کا شکار ہوئے لیکن اللّٰہ نے انہیں محفوظ رکھا اور بروقت علاج سے وہ صحت یاب ہو گئے۔

گھروں میں بند پاکستانیوں کو خوراک پہنچانے کے لیے پاکستانی بزنس سیکٹر میدان میں اُترا جبکہ سفارت خانہ میڈرڈ اور قونصل خانہ بارسلونا سرکاری طور پر ایسا کچھ نہ کر سکے، پاکستانی بزنس سیکٹر کے میاں یاسر، عزیز احمد، راجہ سعید، امتیاز آکیہ، مہر عمران، مہر فرحان، راجہ مدثر، چوہدری شہباز کھٹانہ، طاہر فاروق وڑائچ، چوہدری نوید وڑائچ، کلیم الدین وڑائچ، چوہدری سلیم لنگڑیال، چوہدری عبدالغفار مرہانہ اور دوسرے پاکستانیوں نے پاکستانیوں کے گھر گھر جا کر انہیں خوراک پہنچائی۔

اسی طرح ہسپانوی حکومتی پالیسیوں، قانونی مشاورت، نئے قوانین کے اجراء کے حوالے سے ملک عمران آئی کیئر والے اور عمیر ڈار سوشل میڈیا پر لائیو آکر پاکستانیوں کو اردو زبان میں آگاہی دیتے رہے۔

میڈیکل سیکٹر میں ڈاکٹر عرفان مجید راجہ لائیو آکر کرونا وائرس سے بچاؤ اور لاک ڈاؤن میں رہنے کے فوائد کے ساتھ ساتھ حکومتی پالیسیاں جو میڈیکل کے حوالے سے تھیں اُن کے بارے میں پاکستانیوں کو آگاہی دیتے رہے۔

دوسری طرف حکومت پاکستان اور پاکستان کے سپین میں سرکاری ادارے لاک ڈاؤن میں پاکستانی کمیونٹی کو کسی قسم کی خوراک یا ایسی کوئی سہولت دینے سے قاصر رہے کہ جس سے پاکستانیوں کی معاونت ہو جاتی۔

حکومت پاکستان نے یہ اعلان بھی اُس وقت کر دیا جب یورپی ممالک میں رہنے والے پاکستانی اتنی گھمبیر حالت میں تھے کہ جو پاکستانی دیار غیر میں فوت ہوں گے اُن کی میت پاکستان نہیں لانے دی جائے گی۔

پاکستانی کمیونٹی نے اس اعلان پر حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستانیوں کو اپنی دھرتی ماں کی آغوش میں دفن ہونے کی پابندی فی الفور ختم کرے کیونکہ حکومت اوورسیز سے کورونا وائرس کے لیے مدد تو مانگ رہی ہے لیکن اُن کے لئے کوئی سہولت پیدا نہیں کر رہی۔

اوورسیز پاکستانی باہر سے فون تک پاکستان میں بغیر ٹیکس کے نہیں لا سکتے لیکن اُن سے کہا جا رہا ہے کہ وہ کورونا فنڈ میں عطیات دیں۔

حکومت پاکستان کو چاہیئے کہ وہ دوسرے ممالک میں قائم سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو آرڈرز جاری کریں کہ وہ مقامی حکومتوں کے ساتھ مل کر وہاں مقیم اپنے ہم وطنوں کی مدد کریں۔

تازہ ترین