اسلم جمشید پوری
سفر کی روداد لکھنے کا سلسلہ خاصاقدیم ہے۔ اردو کے مقا بلے میں فارسی اور عربی میں سفر نامہ نگاری کی روایت خاصی قدیم اور مضبوط و مستحکم ہے۔ اردو میں پہلا سفر نامہ یو سف خاں کمبل پوش کے سفر انگلستان کی روداد پر مبنی ہے، جو انہوں نے 1837 میں کیا تھا اور جو1847 میں’عجائبات فرنگ‘ کے نام سے شا ئع ہوا۔تقریباً پونے دوسو سالہ تاریخ میں اردو سفر نامہ نگاری میں خاصا تغیر آ یا ہے۔جہاں تک سفر ناموں کی سماجی اور ادبی اہمیت و افا دیت کا سوال ہے تو زیادہ تر سفر نامے اپنے اپنے سماج کے عکاس ہیں۔ ابتدا ئی سفر ناموں میں تاریخ، جغرا فیہ، سیاسی پس منظر وغیرہ کا بیان زیا دہ ہو تا تھا۔ بیسویں صدی میں بھی یہ اوصاف پائے جاتے ہیں لیکن بیسویں صدی کے آ خر میں سفر ناموں میں خاصی تبدیلی واقع ہو ئی ہے۔سفر نگاری کے ابتدا ئی سفر کے تعلق سے پروفیسر خالد محمود اپنی تنقیدی کتاب’اردو سفر ناموں کا تنقیدی مطا لعہ‘ میں لکھتے ہیں:
’’اردو کے ابتدائی دور کے سفر ناموں پر تاریخ اور جغرافیہ کا غلبہ ہے۔ ابتدائی سفر نامہ نگاروں نے غیر جانب دار ہو کر مختلف ملکوں اور قوموں سے متعلق ہر قسم کی تہذیبی، ثقا فتی، معا شی، سیاسی اور سماجی معلومات فرا ہم کر نے کی حتی الامکان کوشش کی ہے اور معلومات فراہم کرتے ہوئے غیر ضرور ی تخلیق کاری سے گریز کیا ہے۔
بیسویں صدی کے نصف اول میں جو سفر نامے قلم بند کیے گئے، ان میں اگرچہ معلومات فرا ہم کر نے کا رجحان غالب ہے اور وہاں بھی ہر شے کو تاریخ و جغرا فیہ کے پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے مگر اس دور کے سفر نامہ نگاروں نے اپنی ذات کو سفرنامے سے بالکل علیحدہ نہیں رکھا۔وہ اپنی را ئے اور پسند و نا پسند کا بھی برملا اور بے تکلف اظہار کرتے ہیں اور اپنے تجربات و مشاہدات کو نسبتاً زیادہ ادبی انداز میں پیش کرتے ہیں۔‘‘
انیسویں صدی اور بیسوی صدی کے پہلے نصف تک کے سفر ناموں میں یہ رجحان غالب نظر آ تا ہے۔ ’عجائبات فرنگ ‘ سے تاریخِ انگلستان (مولوی مسیح الدین1856-)، زاد مغرب، نیرنگ چین، زاد سفر، آئینہ فرنگ (محمد عمر علی خاں (1880-1890)سفر نامہ روم و مصر و شام(مولانا شبلی نعمانی1894) سیر یورپ (نازلی رفیعہ بیگم(1908تک اور روز نا مچۂ سیاحت(خواجہ غلام الثقلین ((1912 سفر نامۂ بغداد (منشی محبوب عالم( (1912سے سفر نامۂ ہندوستان(خواجہ حسن نظا می ((1923سفر نامۂ حجازمولانا عبد الماجد دریابادی ((1931 اور لندن سے آداب عرض(آغا محمد اشرف ((1946،1907 کا جاپان ڈاکٹر محمد حسین، ((1947تک اردو سفر ناموں کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ جن میں سفر ہے، قیام ہے، مناظر ہیں، نظا رے ہیں، جغرافیہ ہے، تاریخ ہے، سیاسی و سماجی صورت حال ہے، معاشیات کے معاملات ہیں ،ثقافتی و تہذیبی رنگا رنگی ہے اور نہیں ہے تو مسافر کی ذاتیات۔
نیا سفر نامہ اس اعتبار سے بالکل مختلف اور منفرد ہے کہ اس میں تمام خا رجی شوا ہد سیاح کی داخلی کیفیات سے بے پردہ اور بے تکلف ہو جاتے ہیں۔ سفر نامہ نگار ہر شے میں اپنے آپ کو محسوس کرتا ہے اور تمام واقعات اس کی ذات کا حصہ بن جا تے ہیں۔ سفر اور سفر نامہ نگار ایک دوسرے میں اس حد تک پیوست ہوجاتے ہیں کہ انہیں الگ کر کے دیکھا نہیں جا سکتا۔جدید سفر نامہ نگار خود کو سفر میں اس قدر غرق کرلیتا ہے کہ وہ ہر شے کو اپنے وجود سے جوڑ کر دیکھتا ہے۔ اس کا یہ عمل دو طرفہ ہو تا ہے۔کہیں وہ بذات خود شریک ہو تا ہے تو کہیں بحیثیت انسان اسے خود سے جوڑ لیتا ہے۔ بعض سفر ناموں میں سفر کی ابتدا سے قبل کی تیاریوں کی روداد بھی شامل ہوتی ہے اور بعض میں مسافر ہر ہر قدم پر اپنے ما در وطن کو بھی یاد کرتا رہتا ہے۔ایسے سفر ناموں سے دو نوں ممالک کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات کی عکاسی ہوتی رہتی ہے۔
تقسیم ہند کے اثرات یوں تو شاعری خصوصاً نظم و غزل اور فکشن ناول اور افسا نہ پر زیادہ مرتسم ہوئے لیکن سفر نامے کی بات کی جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ سفر نامہ دیگر اصناف کے مقابلے، زندگی سے زیادہ قریب ہے، بلکہ یہ کہا جائے تو بھی غلط نہ ہو گا کہ سفر نامہ زندگی کا ہی بیان ہے۔ تقسیم کے دوران برپا ہونے وا لے انسا نیت سوز واقعات اور سرحدوں کو عبور کرنے وا لے مسافرہمارے متعدد ادبا و شعرا نے زندگی کے اس المیے کو سفر نامے میں زندہ کیا ہے۔ ان میں سفر نامۂ پاکستان( خوا جہ حسن نظامی)، جزیروں کی سر گو شیاں( بلراج کومل)، پاکستان یاترا( جوگندر پال)، بھارت یاترا( حمید احمد خان)، ایک طویل ملا قات( وزیر آ غا)، موسموں کا عکس( جمیل زبیر)، اے آب رودِگنگا (رفیق ڈو گر)، ہند یاترا( ممتاز مفتی) سا حل اور سمندر( احتشام حسین)، نئے شہر پرا نی بستی (ماجد در یا بادی) خا ص سفر نامے ہیں۔ ان میں وطن کی یاد ہے تو وہاں کا بچپن، جھومتی گاتی گلیاں، باغوں کے جھو لے، دوست احباب، سب کچھ ہے۔ پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ ہمیں ہماری مٹی بلا رہی ہے۔ ملک کو ئی سا بھی ہو پا کستان کی گلیاں ہوں یا دہلی کے گلی کوچے، سب میں یکسانیت ہے۔ اپنی مٹی،اپنا ملک انسان کو ہمیشہ یاد آ تا ہے۔
آزادی کے بعد کے سفر ناموں نے ہی در اصل جدید سفر ناموں کے لیے اساسی کردار ادا کیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اکیسویں صدی آتے آتے، سفر ناموں کے مو ضوع، تکنیک اور ہیئت میں تغیرات آنے لگے تھے،لیکن اس کی شروعات تقسیم کے بعد کے تقریبا25,30 سال بعد کے سفر ناموں سے ہوتی ہے۔
سفر ناموں میں خاطر خواہ تبدیلیوں کا دور بیسویں صدی کے اواخر کا زمانہ ہے۔
بیسویں صدی کے آخر میں سفر نامہ نگاری میں بھی خا طر خواہ تبدیلیاں واقع ہو ئی۔ ان کی شروعات قدرت اللہ شہاب(تو ابھی رہگذر میں ہے (1976، ابن انشا(چلتے ہو تو چین تو چلیے (1974، مرزا ادیب، (ہمالہ کے اس پار(1983 مجتبیٰ حسین (جاپان چلو جاپان چلو) عطا ء الحق قاسمی (شوق آوارگی (1973، بلراج کو مل (جزیروں کی سر گوشیاں(1982،رام لعل(زرد پتوں کی بہار (1982، جو گندر پال(پاکستان یاترا (1983، وزیر آغا (ایک طویل ملاقات(1976،انتظار حسین (زمیں اور فلک اور (1984،رفیق ڈوگر(اے آب رودِ گنگا (1983، ممتاز مفتی (لبیک (1975،صغریٰ مہدی (سیر کر دنیا کی غافل(1988، حکیم محمد سعید ( ازبکستان۔ 1980 میں، (1993وغیرہ کے سفر ناموں سے اس صنف میں خا طر خواہ تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ اب صرف واقعات کا بیان، عمارتوں کا ذکر، موسم کی بات نہیں رہی بلکہ اب مسافر نئے نئے رنگ دکھاتا ہے۔ اسلوب پر خاصا زور دیا جاتا ہے۔ سفر نامہ نگار واقعے میں خود اس طرح موجود رہتا ہے گویا وہ کہانی کا مرکزی نہیں تو بہت اہم کردار ہے۔
اکیسویں صدی میں متعدد معیاری سفر نامے شائع ہوئے ہیں۔ ان سفر ناموں میں ایک واضح تبدیلی یہ نظر آ تی ہے کہ اب چھوٹے چھوٹے سفر نامے بھی تحریر میں آرہے ہیں۔پہلے سفر نامہ کو طویل ترین ناول کی طرح باب در باب رقم کیا جاتا تھا۔ کسی بڑے اور خوبصورت غیر ملک کے سفر اور سفر نامے کو نہ صرف اہمیت دی جاتی تھی بلکہ اشتیاق سے پڑھا جاتا تھا۔ اب یہ سب تصورات یکسر تبدیل ہو گئے ۔تبدیلی کے ساتھ جدید سفر ناموں کی ادبی اور سماجی اہمیت و افادیت میں بھی اضا فہ ہوا ہے۔ ان سفر ناموں پر نہ صرف تحقیقی مقالے تحریر کیے جارہے ہیں بلکہ ملتے جلتے موضو عات پر تحریر کیے جانے والے مقالات میں ضرورت کے مطابق ان کے حوا لے بھی دیے جاتے ہیں۔ کسی عہد، شخصیت یا مقالے کے تعلق سے مواد کی فرا ہمی میں سفر ناموں کو بھی تلاش کیا جاتا ہے۔ ادھر اکیسویں صدی کے سفر ناموں کی زبان میں تخلیقیت کا رنگ بھی زیادہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ رنگ پیشتر سفر ناموں کی دین ہے۔ بعض سفر ناموں کے خالق افسا نہ نگار ہیں تو ان کے سفر ناموں میں بھی افسانوی رنگ غالب ہے جو قاری کو اچھا لگتا ہے۔
قاضی مشتاق احمد کے ایک سفرنامے کا اقتباس ملاحظہ کریں :
’’خراسان کی خواتین ہندوستانی عورتوں کے سامنے ہیچ ہیں۔ خراسان کی عورتیں سرخ و سفید ہوتی ہیں۔لیکن رنگ میں کوئی کشش نہیں ہوتی۔ اس کے مقابلے میں ہندوستانی عورتیں اپنے رنگ کی کشش سے پہچا نی جاتی ہیں۔روس اور روم کی عورتیں برف کی مانند سفید اور ٹھنڈی ہو تی ہیں۔ سمر قند اور قندھار کی عورتوں میں وہ مٹھاس نہیں جو ہندوستانی عورتوں میں ہے۔امیر خسرو کی ہندو ستانیوں کے رنگ و حسن پر انتہائی خو بصورت نظم ہے، جس سے ان کا جمالیاتی شعور واضح ہے۔کہتے ہیں:سر زمین ہند میں تین رنگ ہیں۔ سیاہ، سبز اور گندم گوہ۔ ۔ گندم رنگ میں کشش فطری ہے۔ ایک نمکین گیہوں سیکڑوں پھیکی ٹکیوں سے بہتر ہے۔ سیاہ رنگ تو وہ ہے کہ جسے آنکھ میں جگہ ملی آنکھ کی پتلی بھی سیاہ ہے۔آنکھوں کو سرمے کی بھی ضرورت نہیں۔سفید رنگ عارضی ہے۔بہتر سبز یعنی سانولا رنگ ہے، کیو نکہ جس تخت سے تاروں کی زینت ہے وہ بھی سبز ہے۔سبز رنگ میں رحمتیں گوندھ دی گئی ہیں۔دیکھ لو جو جنتی ہیں ان کے رنگ بھی سبز ہیں‘‘ یہ اقتباس قاضی مشتاق احمد کے سفر ناموں کے مجمو عے’آٹھ سفر نامے‘ کے سفر نامہ یورپ یعنی ’جس نے یورپ نہیں دیکھا‘ سے ہے۔ قاضی مشتاق احمد معروف افسا نہ نگار ہیں۔ یہاں افسا نوی رنگ کے ساتھ ساتھ ایک خاص بات اور نظر آ تی ہے۔ یعنی غیر ممالک میں جب کوئی مسافر کے ملک کی بے عزتی یا تو ہین کرتا ہے تو مسا فر کی حب الوطنی کوند آ تی ہے۔ یہاں بھی قاضی مشتاق احمد خراسان کی خوا تین کی خو بصورتی سے ہندوستانی خوا تین کی خو بصورتی اور کشش کو اور رنگوں کو فخر سے بیان کررہے ہیں۔
جدید سفر ناموں خصوصاً اکیسویں صدی کے سفر ناموں میں واضح تبدیلی رو نما ہو ئی ہے۔ کچھ رنگ ایسے ہیں جو آہستہ آہستہ معدوم ہوئے او رنگ مزید گہرے ہوئے ہیں۔ہیئت کے اعتبار سے بھی اختصار کو صا ف دیکھا جاسکتا ہے۔ اب سفر ناموں میں افسا نے جیسا لطف بھی آنے لگا ہے۔ تحیر اور تجسس تو سفر نامے کی خوبی رہی ہے۔لیکن اب یہ خوبی تخلیقات کے رنگ میں ہمارے سا منے آرہی ہے،اس سے سفر نامہ، سفر نامہ بھی رہتاہے اور افسا نہ بھی لگتا ہے۔