• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ دن جن سے کہ ہم گذر رہے ہیں، آئندہ برسوں نہیں بلکہ عشروں تک یاد رکھے جائیں گے۔ یہ وہ دن ہیں کہ جن میں دنیا بھر کے انسانوں نے آناً فاناً خود کو ایک نئی دنیا میں پایا۔ خوف اور سراسیمگی کی دنیا، ویران سڑکوں، بند کاروبار، ہوائی اور زمینی سفر کے خاتمے، تابوتوں اور موت کے اعدادوشمار کی دنیا۔ کرہ ٔ ارض کے ساڑھے سات ارب باسیوں میں سے تین ارب سے زیادہ گھروں میں محصور ہیں۔ ایک جرثومہ عفریت بن کرہنستی بولتی بستیوں کو ویران کر رہا ہے۔ کیا چھوٹے ملک اور کیا عالمی طاقتیں، سب بے یارومددگار نظر آرہی ہیں۔ایک سائنسدانوں اور لیبارٹریوں کی طرف نظریں ہیں کہ کب یہاں سے کوئی نسخۂ حیات نکلے، ہبوط عالم میں ٹھہرائو آئے اور زندوں کو از سرنو اذن سفر ملے۔

چند ہفتے قبل ہی’ قرطاس ادب‘ پر عالمگیریت کے انسانی تہذیب اور ثقافت پر اثرات کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے گذارش کی گئی تھی کہ انسانی تاریخ کے کل دورانیے پر نظر رکھی جائے تو جو دو بڑے چیلنج ابتدائے آفرینش ہی سے انسان کو درپیش رہے ہیں، ان میں ایک تو وہی ہے جو انسان نے خود کو تقسیم در تقسیم کے ذریعے پیدا کر لیا ہے، جب کہ دوسرا اور حقیقی چیلنج وہ تھا جو نظام کائنات اور اس میں آنے والے مادی اتار چڑھائو کے پس منظر میں نسلِ انسانی کی بقا اور انسان کے تحفظ ذات کا چیلنج تھا۔ موسموں کی بے مہری، سمندروں کی طغیانیاں، زلزلے، یہ سب انسان کے وجود کے درپے رہے ہیں، مگر افسوس کہ انسان کی جملہ توانائیاں اس چیلنج سے عہدہ برآ ہونے کے کام نہیں آئیں بلکہ ان کازیادہ تر استعمال زمین پر قائم کردہ غیر منصفانہ نظاموں کو مستحکم کرنے کے لیے ہوا۔ آج انسان ایک مرتبہ پھر ایک ایسے بحران سے دوچار ہے جو ماضی کے ارضی ، آبی، اور ماحولیاتی چیلنجوں سے بڑھ کر ہے کہ اب یہ ایک وبا کی شکل میں عالمی سطح پر آیا ہے۔

وبائیں پہلے بھی پھوٹتی رہی ہیں اور لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں کو لقمۂ اجل بھی بناتی رہی ہیں۔ کبھی چیچک ، کبھی ہیضے، اور کبھی طاعون کی شکل میں ، مگر ماضی کی یہ وبائیں دنیا کے کسی ایک یا دوسرے خطے پر حملہ آور ہوتی تھیں۔ عالمگیریت کے موجودہ زمانے میں ہر چیز اطراف و اکناف تک پھیل جانے کا رجحان رکھتی ہے۔ سرمایہ عالمگیر بن چکا ہے، تجارت، صنعت،معلومات کے ذرائع اور ان کے حاصلات ، سب ہی عالمی قالب میں ڈھل چکے ہیں۔ اب وبا بھی پھوٹی ہے تو چہار دانگ عالم کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ پھر وبا بھی ایسی خوفناک کہ، بقول حافظ (ترجمہ):وائے دنیا کہ جہاں دوست، دوست سے ڈر رہا ہے، غنچے باغ سے ڈر رہے ہیں، عاشق دلدار کی آواز سے اور موسیقار تار ساز سے ڈر رہے ہیں۔

عالمی سطح پر وبا کے پس منظر میں لکھا جانے والا ایک ناول جو بڑی حد تک ایک کلاسیک کی حیثیت اختیار کر چکا ہے، البرٹ کامیو (Albert Camus) ’طاعون‘ ((The Plagueہے۔یہ اولاً1947 میں فرانسیسی میں شائع ہوا، مگر اگلے ہی سال انگریزی میں ترجمہ ہو کر یہ دنیا بھر میں پھیل گیا۔ اب دنیا کی سب ہی بڑی زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ ’طاعون‘ ایک علامتی اور تمثیلی ناول ہے جس کے ذریعے کامیو نے فرانس پر جرمنی کے قبضے کے بعد کی صورتحال پر ، ایک مقبوضہ معاشرے میں لوگوں کی بے چارگی، ان کی باہمی لاتعلقی اور مغائرت کے کلچر کو پیش کیا ہے۔ کامیو کے فلسفۂ حیات پر ہم آخر میں تنقیدی نظر ڈالیں گے۔

اس ناول کو جو عالمگیر شہرت حا صل ہوئی وہ کامیو کا وبا کے اضطراب انگیز دنوں میں مختلف انسانی رویوں کو تلاش کرنے، ان میں ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھنے اور پھر ان کو بیان کرنے کا ہنر تھا۔ کامیو اپنے کرداروں پر خوب محنت کرتا ہے۔ اس کے کردار اپنے معاشرے، اپنے پیشوں، اور اپنی افتاد طبع کے بڑے اچھے نمائندہ ہیں۔وہ ان کرداروں کی نفسیاتی کیفیتوں اور ان میں آنے والی تبدیلیوں کو بڑی چابکدستی سے بیان کرتا ہے۔ ان سب کرداروں کو سامنے رکھیں تو وہ سب سوال سامنے آجاتے ہیں جو کامیو کے پیش نظر تھے۔ خوف کیا ہے اور کیسے پھیلتا ہے، جاں بلب لوگ ارد گرد کس طرح سراسیمگی پھیلاتے ہیں، رشتوں کی معنویت کیسے بدل جاتی ہے، فطری آفات کے دوران انسان کو اس کے گناہ یاد دلانے والے کس طرح لوگوں کے ذہنوں میں اترتے ہیں، نیکی کا کیا مفہوم ہے، نیکیاں نظریوں کی دین ہوتی ہیںیا یہ انسان کی سرشت میں شامل ہوتی ہیں، محبت کیا ہے اور ا س کی پہنچ کہاں تک ہے۔ اور پھر یہ وجودی سوال کہ انسان ہے ہی کیوں، اور اگر ہے تو کس برتے پر ۔ بے معنویت اورمہمل کا مطلب کیا ہے،۔ زندگی کوئی بے معنی اور مہمل چیز ہے یا اس کا کوئی مقصد بھی ہو سکتا ہے۔ سچی بات ہے کہ چلتے پھرتے ، اٹھتے بیٹھتے، اور گرتے پڑتے کرداروں کے حوالے سے کامیو نے فلسفیانہ سوالوں کی ایک ٹھیک ٹھاک زنبیل کھول دی ہے۔ کچھ کے جواب بھی دیے ہیں، کچھ پڑھنے والوں کی فکر مزید کے لیے چھوڑ دیے ہیں، مگر’ طاعون‘ اچھاخاصا گہرا ناول ہونے کے باوجود فلسفے کی کتاب نہیں ہے۔ یہ ایک قاری کو اپنے اندر جذب کر لینے والا دلچسپ ناول ہے۔

ناول ایک راوی کی زبان سے بیان کردہ ان تفصیلات پر مشتمل ہے، جن کا تجربہ ’اوران‘ نامی شہر کے لوگوں کو ہوا۔ اوران حقیقت میں تو الجزائر میں واقع ایک شہر تھا اور الجزائر، فرانس کی نوآبادی تھا۔ کامیو نے اوران کو استعمال کیا، فرانس پر جرمنی کے قبضے کی تمثیل کے طور پر۔ کامیو نے ناول کے لوکیل کے لیے اوران کاا نتخاب شاید اس لیے بھی کیاکہ تاریخ میں اس شہر میں وبائوں نے بارہا بسیرا کیا تھا۔ناول کا مرکزی کردار ڈاکٹر برنارڈ ری یو (Bernard Rieux) ایک پینتیس سال کے لگ بھگ پیشہ ور ڈاکٹر ہے۔ اس کی بیوی ایک اور بیماری میں مبتلا ہو کر سینی ٹوریم میں داخل ہو چکی ہے۔ ڈاکٹر ری یو نے اپنے فلیٹ میں آتے جاتے، راستے میں اور سڑک پر پہلے پہل جب اکا دکا مرے ہوئے چوہے دیکھے تو وہ کچھ نہ سمجھ سکا، لیکن پھر ان مردہ چوہوں کی تعداد بڑھنے لگی، یہاں تک کہ شہر کی صفائی کا عملہ ٹرکوں پر مردہ چوہوں کو بھر بھر کر ٹھکانے لگانے کے لیے لے جاتا نظر آنے لگا۔ جلد ہی چوہوں سے طاعون پھیلنا شروع ہوا۔ شروع میں شہریوں کا رویہ قدرے لاتعلقی کا تھا۔ یہ خبر تو سب کے کانوں تک پہنچ رہی تھی کہ طاعون پھیل رہا ہے، مگر کوئی بھی یہ نہیں سوچ پا رہا تھا کہ وہ خود بھی اس کی زد میں آسکتا ہے۔ رفتہ رفتہ چوہوں کا ذکر ہر چیز پر چھا گیا، گھروں میں، دفتروں میں اور اخباروں میں۔ طاعون کا حملہ بڑا سبک ہوتا تھا۔ جسم میں درد ہوتا، تیز بخار چڑھتا، بغل میں یا جسم پر کسی اور جگہ گٹھلی نکل آتی، انسان کچھ دیر تڑپتا اور دیکھتے ہی دیکھتے موت واقع ہو جاتی۔ ڈاکٹر ری یوکے پاس بھی مریض آنے لگے۔ پہلا مریض تو اس کے اپارٹمنٹ کا وارڈن ہی تھا۔ علاج کے لیے ڈاکٹر کے پاس کچھ نہ تھا، زیادہ سے زیادہ وہ مریض کو خونناب دے دیتا، یا نشتر سے پھوڑے کو چیر کر پس کو خارج کر دیتا، وقتی طور پر مریض کو سکون مل جاتا، لیکن علاج کی کوئی مستقل دوا دستیاب نہیں تھی۔ اسے یک گونہ اطمینان تھا کہ وہ اپنی سی کر رہا ہے۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اس لیے کر رہا تھا کہ وہ ایک ڈاکٹر تھا اور اس کا کام تھا کہ وہ لوگوں کی تکلیف کو دور کرے۔ وہ یہ سب کچھ کسی عظیم مقصد سے، کسی مذہبی فریضے کے طور پر نہیں کر رہا تھا۔ یہی نہیں بلکہ وبا کے پھیلنے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر ری یو کی ذات بھی خوف اور اعتماد کے دو متوازی دھاروں میں بٹتی چلی جا رہی تھی۔ اعتماد اس کے خوف پر غالب آنے کی کوشش کرتا تھا، خوف اس کو اعتماد کے بحران سے دوچار کر رہا تھا۔

ناول کا ایک کردار پادری پن لو (Panelous) ہے جو مذہبی جذبے سے سرشار ہے، طاعون کو خدا کا عذاب باور کراتا ہے۔ یہ عذاب یوں نازل ہوا ہے کہ لوگوں کے دل سے خدا کا خوف نکل گیا ہے۔ وہ ایک اور کردار اوتھاں کے بچے کے بستر کے پاس دعا کرتا ہے مگر بچہ بچ نہیں پاتا۔ پادری ڈاکٹر ری یو سے کہتا ہے کہ بچے کی موت کا کوئی تعلق خدا کے عذاب سے تو نہیں ہو سکتا لیکن بس یہ ہے کہ اسی میں اس کی مرضی رہی ہو گی۔ پادری پن لو کے سامنے سوال تو کئی ہیں لیکن وہ اپنے سامعین کو یہی تلقین کرتا ہے کہ ہم یا تو ہر چیز پر ایمان رکھیں یا پھر کسی پر بھی نہ رکھیں۔ کچھ ہی دنوں بعد پادری پن لو بیمار پڑتا ہے لیکن وہ کسی ڈاکٹر کو دکھانے کا روادار نہیں۔ کچھ ہی دنوں میں اس کی بھی موت واقع ہو جاتی ہے۔ لیکن کیونکہ اس میں طاعون کی علامتیں نظر نہیں آئی تھیں لہذا اس کی موت کا سبب بھی واضح نہیں ہو سکا۔

طاعون سے ہونے والی ابتدائی اموات کے بعد ڈاکٹر ری یو اور اس کے ساتھی ڈاکٹر کاستل یہ نتیجہ اخذکر چکے تھے کہ وبا شہر میں بہت تیزی سے پھیل رہی ہے اور جلد یہ صورتحال قابو سے باہر ہو جائے گی۔ شروع میں تو انتظامیہ نے ان کی باتوں پر کان نہیںدھرے مگر جب اموات کی تعداد بڑھنے لگی تو سرکاری دفتروں میں کچھ حرکت شروع ہوئی۔ایک اسپتال میں اسپیشل وارڈ کھولا گیا مگر یہ سخت ناکافی ثابت ہوا کیونکہ تین دنوں ہی میں اس کے اسّی بیڈ بھر گئے۔ تب گھرہی کو قرنطینہ بنایا جانے لگا، کچھ دوائیں بھی آنے لگیں۔ جب مرنے والوں کی روزانہ کی تعداد تیس تک پہنچ گئی تو شہر کو سیل کر دیا گیا۔ شہر کے سارے باسی اب گھروں میں محبوس تھے۔ طاعون کا آسیب غالب آ چکا تھا، معمول کی زندگی مکمل طور پر معطل تھی۔ آمدورفت بندٹیلیفون لائینیں ٹھنڈی، ڈاک کی ترسیل ختم، صرف تار ایک دوسرے تک خبر رسانی کا ذریعہ رہ گئے تھے۔شہر کی بندش کو کئی د ن ہو گئے تو لوگوں کا تنہائی کا احساس شدید ہونے لگا۔ دروں بینی نے شخصیتوں کو بوجھل بنا دیا، مزاجوں میںتبدیلیاں آنے لگیں، بد نظمی نے بھی سر اٹھانا شروع کیا۔ کچھ مارا ماری کی صورت بھی بنی۔ ریمنڈ ریمبرٹ( Raymond Rambert ) جو صحافی ہے اور اوران کے دورے پر آیا ہوا ہے، اب وہ شہر میں پھنس گیا ہے۔ وہ سرکاری عملے سے سازباز کرتا ہے کہ وہ کسی طرح اسے شہر سے نکلنے میں مدددے۔ ادھر ناکامی ہوتی ہے تو وہ اسمگلروں سے رابطہ کرتا ہے، دس ہزار فرانک میں معاملہ طے ہوتا ہے، مگر پھر ریمبرٹ کا ذہن بدل جاتا ہے۔ وہ شہریوں کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کرتا ہے تاکہ اسے اپنے ضمیر کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ تو گویا وبا کے دنوں میں ضمیر بھی موجود ہو سکتا ہے۔

کرداروں کے اس نگار خانے میں ایک اور کردار ہے کوتارد (Cottard)کا۔ یہ ایک سنکی انسان ہے، اپنے آپ میں کھویا ہوا، اپنے آپ سے الجھا ہوا، کوئی باقاعدہ کام بھی نہیں ہے اس کے پاس۔ ڈاکٹر ری یو کے ملنے والے جوزف گراند (Joseph Grand) کا پڑوسی۔ گراندہی ڈاکٹر ری یو کو کوتارد کے فلیٹ میں لاتا ہے۔ کوتارد نے خود کشی کی کوشش کی ہے۔ وہ ناکام رہا ہے۔ مگر اب شہر کی طاعون زدگی کے بعد اس پر ایک اور کیفیت طاری ہوتی ہے ، ہر طرف یاس اور حرمان ہے، بے دلی اور مایوسی ہے، لیکن عجیب بات ہے کہ کوتارداپنی ذاتی نفسیاتی الجھنوں سے باہر نکل آتا ہے یا اس کو اپنے حزن کی شدت پہلے کی طرح محسوس نہیں ہوتی۔ مگر ارد گرد کی اذیتوں کے ماحول میں اپنے حزن کے قابل برداشت بن جانے کی یہ کیفیت بھی زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہتی اور اس وقت ختم ہو جاتی ہے جب وبا سمٹتے سمٹتے معدوم ہو جاتی ہے۔ اب اس کے مزاج میں پھر اتار چڑھائو آنے لگتا ہے، کبھی لوگوں سے میل جول، کبھی اپنی ذات میں گم، پھر وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھتا ہے۔ سڑک پر نکل آتا ہے، ادھر ادھر دیکھے بغیر گولیاں چلانے لگتا ہے، لوگ زخمی ہونے لگتے ہیں، کوتارد کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔

طاعون کا یہ سلسلہ اپریل میں شروع ہوا تھا اور اب اگست آچکا تھا۔ اس آفت ناگہانی کے ختم ہونے کے کوئی آثار نہیں تھے۔ لوگ پناہ کے لیے شہر سے نکلنا چاہتے تھے۔ قانون نافذ کرنے والوں کے عام لوگوں سے تصادم بھی ہوئے۔ تشدد ہوا، انتظامیہ کو مارشل لا اور کرفیو لگانے پڑے۔ مایوسی کا شہر پر غلبہ ہو چکا تھا۔ جذبات سرد ہو رہے تھے۔ لوگ مرجھاتے جا رہے تھے۔

دو ماہ اور گذر گئے۔ طاعون کا زور ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ مرنے والوں کی آخری رسومات ہبڑ تبڑ کی نذر ہو رہی تھیں۔ کون مرا، کہاں دفن ہوا، کسی کو غرض نہیں تھی، ورثا کون تھے، ان پر کیا گذری، کسی کے پاس ان باتوں کے بارے میں سوچنے کا وقت نہیں تھا۔اکتوبر کے ختم ہونے تک ڈاکٹر کاستل کے طاعون شکن خونناب کاتجربہ کیا جا چکا تھا ،لیکن کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ نئے سال کے شروع کے بعد طاعون کا زور رفتہ رفتہ ٹوٹنا شروع ہوا۔ ڈاکٹر ری یو طاعون کے بحران سے نکلا تو بیوی کی موت کا ٹیلیگرام موصول ہو گیا۔ اطمینان اور خوشی کا احساس وقتی ثابت ہوا۔ ایک عذاب ختم ہوا تھا کہ ایک اور غم انگیز اطلاع نے آن لیا۔

’ طاعون‘ کی کہانی اختتام پذیر ہوئی، مختلف کرداروںکے جلو میں مختلف انسانی رویے منظر عام پر آئے۔ ناول کے راوی نے بالآخر اپنا حتمی فیصلہ سنایا کہ انسان کی سرشت میں وہ چیزیں زیادہ ہیں جن کو پسند کیا جا سکتا ہے، اُن چیزوںکے مقابلے میں جو ناپسندیدہ ہیں۔ کامیو انسان کے اندر اچھائی کا منکر نہیں۔ وہ کسی ایک صورتحال میں انسانوں کی ایک دوسرے کے لیے دردمندی کا بھی اعتراف کرتا ہے۔لیکن وہ انسان کو نظریوں کا ممنون احسان نہیںدیکھنا چاہتا، کیونکہ وہ نظریوں کو بالآخر طاقت کا آلہ بنتا دیکھتا ہے۔ اور بظاہر یہی اس کے ناول کا پیغام بھی ہے۔

’طاعون‘ علامتی ناول ہے جس کے ذریعے کامیو کے دو بنیادی تصورات سامنے آتے ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ انسانی صورتحال کو وجودی نقطۂ نظر سے دیکھتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ انسان ایک لغو اور مہمل صورتحال سے دوچار ہے، جو اس کی اپنی ایک ناقابلِ حصول خواہش کا نتیجہ ہے۔ انسان کی بے معنویت اور لغویت اس وقت جنم لیتی ہے جب وہ ایک غیر مرتب اور لاتعلق دنیا کو مرتب کرنے اور اس کو کسی معنی سے ہمکنار کرنے کی کوشش کرتا ہے جبکہ دنیا ہے ہی ایک بے ترتیب اور ناقابلِ فہم چیز۔ اس کے نزدیک انسانی صورتحال کا یہ بے تکا پن(absurdity)ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے۔

کامیو کا دوسرا تصور یہ ہے کہ اختیار اور اتھارٹی لازماً معاشروں کو زیرِ دام لے آتے ہیں۔انسان ایک دوسرے کے ساتھ جڑنے کی جو تھوڑی بہت اہلیت رکھتے بھی ہیں وہ بھی زیرِ تسلط معاشروں میں مفقود ہو جاتی ہے۔ ’طاعون‘ ایک مثالیہ ہے، ایک تمثیل ہے، ایک ایسے ہی زیرِ تسلط معاشرے کی۔ یہاں تو اشارہ ہے جرمنی کے زیرِ تسلط فرانس کی طرف، مگر کامیو کے نقطۂ نظر سے یہ تمثیل ہر مقبوضہ معاشرے پر صادق آتی ہے، اور شاید اس کے نزدیک، سبھی معاشرے مقبوضہ ہیں کہ یہاں اختیا ر اور اتھارٹی ہے اور نظریے ہیں۔ اور کامیو کا انسان تنہائی اور مغائرت کا شکار ہے۔

تازہ ترین