18 اپریل کو ڈاکٹر جمیل جالبی کی پہلی برسی ہے۔ ان کی علمی و ادبی خدمات اورامتیازات کے متعدد گوشے ہیں جنھیں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ انھوں نے ادب میں اپنے بیش قیمت خیالات و نظریات پیش کیے اور ان کے توسط سے ادبی اقدار اورمعاصرین ادب کی ادبی قدروقیمت متعین ہوئی لیکن وہ دانش ور و مفکر اور ادبی نقاد بڑے تھے یا پاکستانی ثقافت کے مفکر یا پھر ان سب سے قطع نظر ایک محقق اور مُدوِن بڑے تھے، جن کی تلاش و جستجو اور کوششوں کے سبب ’’مثنوی کدم راؤ وپدم راؤ‘‘ جیسا نایاب و نادر متن، جس کی قرأت اور زبان کی تفہیم ہی کسی کے بس کی بات نہ سمجھی گئی تھی، نہایت سلیقے و مہارت سے ُمدوِن و مرتب ہوکر ادبی دنیا کو میسر آیا ،جس کے ساتھ تدوین میں ان کی ذیلی کاوشیں ’’دیوانِ حسن شوقی‘‘ اور ’’دیوان ِنصرتی‘‘ تھیںاور جن سے کئی اہم ادبی خلا پُرہوئے۔تحقیق ہی کے زمرے میں میرتقی میر اور جرأت پران کی تصانیف بھی اپنے موضوعات پر نظر انداز نہیں کی جاسکتیں اور اپنے موضوع پر ناگزیر مآخذ کے طور پرشمار ہوتی اور استعمال میں آتی رہیں گی۔ برسی کے موقعے پر ان کے کاموں کا مختصراً تذکرہ نذر قارئین ہے۔
تصنیف و تالیف کے علاوہ ڈاکٹر جالبی صاحب کا ایک وصف ان کی انتظامی صلاحیت بھی تھا جو ان کے سرکاری منصب پرمستزادان کی نظامت بحیثیت شیخ الجامعہ، جامعہ کراچی بھی ہے ان کی تصنیفی و تالیفی خدمات عالمی سطح پر سراہی جاتی ہیں اور مطالعاتی حوالوں میں بصورت سند استعمال ہوتی ہیں ۔عالمی خاص طور پر جنوبی ایشیا میں مرتب و شائع ہونے والی کتابیات میں درج ہوتی ہیں۔بحیثیت شیخ الجامعہ ڈاکٹر صاحب اپنے پس منظر میںاگرچہ کوئی طویل تدریسی تجربہ نہ رکھتے تھے، محض کچھ عرصہ ’بہادریارجنگ اسکول‘،حیدرآباد کالونی، کراچی میں پڑھاتے اور صدرمدرسی کے منصب پر فائز رہے،پھر بھی انھوں نے جامعہ کراچی میں اپنی یک مدتی منصبی ذمے داریوں کے تحت ایسے مثبت و مؤثر اقدامات کیے کہ جامعہ کا تعلیمی وانتظامی نظم و نسق حددرجے بہتر ہوگیااورطلبہ سیاست سے جامعہ کو بڑی حد تک نجات مل گئی۔ان کے دور میں جامعہ کی عمومی تعلیمی و مطالعاتی روایات میںجہاں بہتری آئی وہیں سب سے نمایاں بہتری جامعہ کے کتب خانے کی انتظامی اور علمی ثروت میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا کہ جالبی صاحب قریباً ہر ہفتے کتب خانے کا دورہ کرنے اور انتظامات و سہولتوں کا جائزہ لیتے۔اسی دور میں ایک بڑا اقدام ڈاکٹر صاحب نے یہ کیا کہ انڈیا آفس لائبریری کے نادر و نایاب ذخیرے میں سے وہ نادرات، جو یہاں محققین اور تلاش و جستجو کرنے والوں کو میسر نہ آتے تھے کہ ان کا عکس تک حاصل کرنا کسی کے لیے آسان نہ تھا، ڈاکٹر صاحب نے خاص اہتمام کے ساتھ نہایت منتخب مخطوطات کا انتخاب کرکے ان کے عکس اور ان کی مائیکروفلمیں حاصل کرنے کی کامیاب کوشش کی،تقریباً ڈھائی سو مخطوطات کی مائیکرو فلمیں حاصل ہوئیں جو بعد کے ادوار کی افسوس ناک حد تک بے نیازی اور لاپروائی کے سبب قریب قریب رکھے رکھے یا ان کی مناسب حفاظت نہ کیے جانے کے سبب اور موسمی اثرات کیے نتیجے میںضائع ہوگئیں اور مزید ستم یہ کہ جو مائیکروفلم پڑھنے اور ان کے عکس لینے کے لیے مشینیں موجود تھیں وہ بھی حفاظت نہ کیے جانے کے باعث ناقابل استعمال ہوگئیں!اب اس گوشے میں گرد اور دھول کا راج ہے اور جو ہر ایک کے لیے قابل مشاہدہ ہے۔
کسی علمی و تعلیمی ادارے کی سربراہی کے اس مثالی اورشان دارتجربے کے علاوہ ڈاکٹر صاحب جامعہ کراچی کے بعد’ مقتدرہ قومی زبان‘ اسلام آباد کے صدر نشین نامزد ہوئے۔وہاں بھی ’فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں اپنا‘ کے مصداق انھوں نے ایسے ایسے بعض یادگار کام کیے کہ ان کے بعد کسی اور صدرنشین سے ایسے کام نہ ہوسکے۔ان کاموں میں متعدد اصطلاحات کے مجموعوں کے علاوہ ڈاکٹر صاحب نے ایک واضح منصوبہ بندی کے تحت ایک ’’جامع انگریزی اردو لغت‘‘، جو دراصل انگریزی زبان کی معروف امریکی لغت ’Merriam-Webster‘کا ترجمہ ہے، اپنے مختصر عرصے میں مکمل کرواکر شائع کردی جو آج وسیع ترعالمی استعمال میں ہے۔
لیکن ان تمام منفردومثالی صفات اور امتیازات سے قطع نظر، میرے خیال میں ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ، جو اپنی نوعیت کی حد تک اپنی مثال آپ ہے،وہ ان کی اردو کی ادبی تاریخ نویسی یا ’’تاریخ ادب اردو‘‘ہے، جو بدقسمتی سے اگرچہ چار ضخیم جلدوں میں بھی نامکمل رہ گئی لیکن جس حد تک بھی یہ لکھی جاچکی، یہ اردو زبان و ادب کی وہ بے مثال اور واحد تاریخ ہے، جوا پنے موضوعات و عنوانات کے ذیل میں مآخذ و اسناد کی تلاش و جستجواور ان کے حصول کے اعتبار سے نہایت وقیع و معتبر ہے، جس میں متعدد ایسی معلومات اور دید و دریافت اور انکشافات کے مقامات موجودہیں جو شاذ ہی اردو زبان و ادب کی کسی اور تاریخ میں سماسکے ہیں۔پھر ان معلومات کے مآخذ پر اور ان کے حقائق کے تسلیم کرنے یا انھیں رد کرنے کے لیے جو دلائل جالبی صاحب نے دئیے ہیں وہ نہایت مُحکم اورمُسلم ہیں۔اس نہایت منفرد صفت کے ساتھ ساتھ جالبی صاحب کا اپنے متعینہ موضوعات اور مذکور-------- اکابر ِادب و شعرکے خیالات و افکار اور ان کی تخلیقات ونگارشات کا جو مفصل اور سیر حاصل تجزیاتی مطالعہ اس تصنیف میںملتاہے وہ اردو ادب کے حوالے سے تواریخِ اردو ادب میںایک عنقا مثال ہے۔اس نہایت اہم وصف کو قدرت کی طرف سے جو امتیاز عطا ہوا ہے اس کے پسِ پشت جالبی صاحب کا وہ معاشرتی شعور اور مطالعہ ہے جوہمیں قبل ازیں ان کی تصنیف ’’پاکستانی کلچر‘‘ میں نظر آیاہے،اور پھرعالمی ادبی و تنقیدی افکار پر ان کی گرفت سے بھی انھیں اپنے تجزیاتی رویے میں خاصی مدد ملی ہے جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ اپنے تجزیاتی مطالعے میں وہ ادب اور شاعری کے اس پس منظر اور محرکات و اسباب کو بھی زیر غور لاتے ہیںجو تخلیقِ ادب و شعر کا سبب بنتے ہیں اور ایک تخلیق کار کو متاثر کرتے ہیں۔اس معاشرتی تناظر کے وسیلے سے جالبی صاحب کے پیشِ نظرہر عہد کا وہ سیاسی اور سماجی پس منظر رہاہے جو ادب و شعر کی تخلیق کے محرکات رہے ہیں اور ادب و شعر نے ان سے فیض بھی اٹھایا ہے اور ان سے اثر بھی قبول کیاہے۔یہ وصف اور یہ انفرادیت اردو زبان و ادب کی کسی بڑی سے بڑی اور معروف سے معروف تاریخ میں نظر نہیں آتا ہے چاہے وہ تاریخ (’’تاریخ ادب اردو‘‘) رام بابو سکسینہ نے لکھی ہوجو اپنی تصنیف کے وقت تک اردو زبان و ادب کی سب سے اہم تاریخِ ادب شمار ہوتی رہی ہے اورایک بڑے دور کی نظم و نثر دونوں کا احاطہ کرتی ہے،جب کہ مختصر تواریخ ِادب یا علاقائی نسبتوں سے لکھی جانے والی بیسیوں تواریخ کا تو کیا مذکور، اور اسی طرح صرف نثرکے ارتقا کی متعددتاریخوں :بمثل حامد حسن قادری کی ’’داستان تاریخ اردو‘‘ یامحمدیحیٰ تنہاکی ’’سیرالمصنفین‘‘کا بھی کیا کہنا،اور جو بڑے بڑے منصوبوں کے تحت مرتب ہونے والی علی گڑھ یونیورسٹی کی’’علی گڑھ تاریخ ادب‘‘۱۲؎، یا پنجاب یونیورسٹی کی ’’تاریخ ادبیات مسلمانانِ پاکستان وبھارت‘‘، لیکن یہ ہر ایک تاریخ، اگرچہ اسے متعدد مشاہیر اہلِ قلم نے مل کر لکھا لیکن اپنے مطالعات و تجزیات اور ساتھ ہی اپنی مجموعی تحقیقی تلاش و جستجو ، مباحث اور انکشافات وتجزیات کے لحاظ سے جالبی صاحب کی تاریخِ ادب کے مقابل نہیں رکھی جاسکتیں۔دیگر تمام تواریخ ِادب کی طرح جالبی صاحب نے تاریخ ادب کو نثر اور نظم کے زمروں میںعلیحدہ علیحدہ تقسیم کرکے نہیںدیکھا،انھوں نے تخلیقِ ادب کووقت اور زمانے کی قید کے تناظر میں رکھ کردیکھاہے۔تاریخ کا سیاسی دور-------ان کی نظر میں سب سے اہم ہے جو معاشرے کو بھی متاثر کرتاہے اور اسی مناسبت سے ادب پر بھی اپنے اثرات مرتسم کرتاہے۔یہ معاشرہ اور وقت ہوتا ہے جس میں ادب اور شعر دونوں بیک وقت اسی کے تناظر میں اور اسی کے مطابق تخلیق ہوتے ہیں جنھیں الگ الگ رکھ کر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔
اردو کے ادبی مؤرخین میں، جن کی تحریر کردہ تواریخِ ادب کا ایک مبسوط مطالعہ ڈاکٹر گیان چند جین نے اپنی ضخیم تصنیف:’’اردو ادب کی تاریخیں‘‘میںکیا ہے اور پچاس سے زیادہ چھوٹی بڑی تاریخوں کا تذکرہ اپنی تصنیف میں شامل کیا ہے،لیکن نہایت افسوس اور بدقسمتی ہے کہ وہ اپنا تاریخ نویسی کا منصوبہ مکمل نہ کرسکے اور اردو زبان و ادب کی تاریخ صرف انیسویں صدی کے اختتام تک لکھ سکے ۔
جالبی صاحب ایک بڑا کام کرتے ہوئے رخصت ہوئے، جب تک وہ اپنے ہوش و حواس میں رہے اپنے اس زیر تکمیل کام کو مکمل کرنے کے لیے کوشاں رہے۔ میرے علم میں ہے کہ جالبی صاحب اپنی تاریخ کی پانچویں جلد کی تصنیف میں مصروف تھے اور جیسے ہی انھوں نے اس تاریخ کی چوتھی جلد کو ناشر کے سپرد کیاتھا، وہ پانچویں جلد لکھنے میں مصروف ہوگئے تھے لیکن مکمل نہ کرسکے۔ یقیناً جالبی صاحب کے کاغذات میں شاید بطور ابتدائی مسودہ محفوظ ہوں گے۔کاش ان نوٹس کو ملاحظہ کیا جائے اور اگر وہ یادداشتیں یا نوٹس کسی طرح، چاہے جس صورت میں بھی ہوں، مرتب و شائع کیے جاسکیں تو یقیناًہمیشہ استفادے میںآتے رہیں گے ،پھر جالبی صاحب کے منتشر کاغذات اور ان کے نام موصولہ خطوط بھی نہایت احتیاط کے ساتھ یک جا کرنا اور انھیں مرتب کرکے شائع کرنا بھی ایک بڑا کام اور واقعتاً جالبی صاحب کی اور ساتھ ہی علم و ادب کی ایک بڑی خدمت کے مترادف ہوگا۔