ایم ڈی تاثیر نے طرفہ طبیعت پائی تھی۔ ہماری تمدنی اور ادبی تاریخ میں اقبال اور فیض کی درمیانی کڑی سمجھنا چاہئے۔ ذہانت بےپناہ اور مزاج شوریدہ تھا۔ ایک روز اقبال کے پاس اپنی غزل لے کر پہنچے، تیری صورت سے تجھے درد آشنا سمجھا تھا میں… الخ۔ اقبال نے غزل سنی اور کہا ’کاغذ قلم لیجئے، کچھ غلط فہمیاں آپ نے بیان کر دیں، کچھ کا افشا ابھی باقی ہے‘۔ اور پھر وہ غزل ہوئی جس کا مقطع ہمارا آشوب بیان کرتا ہے۔ تھی کسی درماندہ رہ رو کی صدائے دردناک/ جس کو آواز رحیل کارواں سمجھا تھا میں۔ اقبال کی بصیرت سے کچھ بعید نہیں تھا۔ قریب سو برس پہلے جان لیا کہ مملکت پاکستان میں حرفِ گفتہ اور لفظِ مطبوعہ گردن زدنی قرار پائیں گے۔ قلم ساہوکار کے نام بیع ہوگا اور ساہو کار صاحب حکم کا اسیر۔ مرغانِ دست آموز کا سکہ چلے گا۔ شہر پر جب یہ افتاد ٹوٹتی ہے تو اہلِ ضمیر جنگلوں کی راہ لیتے ہیں، اکا دکا کوئی مسافر کوئے جاناں کا دکھائی دیتا ہے تو ظلم کے دست بہانہ جُو سے نظر چرا کے نکلتا ہے۔ ایسے میں برادرم سہیل وڑائچ کا کالم ’مت ماری گئی‘ پڑھ کر حوصلہ ہوا۔ سہیل صاحب کا ہنر پہلو دار ہے۔ بظاہر ڈھیل کے پیچ لڑاتے ہیں، جہاں کھینچ کا ہاتھ دکھاتے ہیں، مخالف کا پیٹا ہتھے سے کاٹ لیتے ہیں۔ نرے انگریزی خواں نہیں، پنجابی کلاسیک ادبیات میں گہرا درک رکھتے ہیں۔ ایسے کافر سے دست پنجہ آسان نہیں، بابا فرید الدین مسعود سے مدد مانگنا پڑتی ہے۔
مت ہوندی ہوئے ایانا، تان ہوندے ہوئے نِتانا
اَن ہوندے آپ ونڈائے، کوئی ایسا بھگت سدائے
(عقل ہوتے ہوئے کم عقل نظر آئے، طاقت ہوتے ہوئے بھی عاجزی دکھائے۔ مفلسی میں دوسروں کے کام آنے کا حوصلہ رکھتا ہو، ہمیں ایسے بھگت کی تلاش ہے)۔ صاحبانِ ذی وقار، ایسا بھگت تو اجتماعی بندوبست کے دستوری، ادارہ جاتی اور شفاف تسلسل ہی سے برآمد ہو سکتا ہے۔ یہ وہ ہما نہیں کہ کسی کم آشنا کے کندھے پر اترے، ہجوم سے ایک اجنبی برآمد ہو اور جادو کی چھڑی گھما کر منظر بدل دے۔ ہمارا المیہ ہی یہ ہے کہ اپنی کم نگاہی پر نظر نہیں کرتے، شہر پناہ کی بنیادوں میں تزلزل ہے مگر دون کی لیتے ہیں۔ تہی کیسہ ہیں مگر سعی کی فکر نہیں، تدبیر سے تعلق نہیں، لطائف غیبی کے منتظر ہیں۔ یہ جو برادر عزیز نے کہا کہ قوت فیصلہ نہیں رکھتے، درست فرمایا۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ قوتِ فیصلہ دیوار سے سر ٹکرانے اور گہرے پانیوں میں کود جانے کو نہیں کہتے۔ حقائق کی ہر ممکن پرکھ کے بعد ایک حکمت عملی اختیار کرنے پر قوت فیصلہ کا مدار ہے۔ حقائق کی پرکھ کے لئے مبادیات پر عبور چاہیے۔ ہم نے نسل در نسل اوہام اور وسوسوں کی ترویج سے شعور تناسب کی جڑیں کھودی ہیں۔ تاریخ کو مسخ کیا، شعور زمان سے محروم ہوئے۔ جغرافیے کی تعلیم نہیں دی، شعور مکاں گنوا دیا۔ فنون عالیہ سے بےاعتنائی کی، احساس کی دولت جاتی رہی، کیفیت کا ادراک اوجھل ہو گیا۔ منطق سے گریزاں رہے، استدلال کی مہارت نہیں رہی۔ سوال اٹھانے کو کج فکری اور اختلاف کو غداری سے تعبیر کیا تو ایسی نسلوں کا ظہور ہوا جو سامنے کی حقیقت بھانپنے سے معذور ہیں۔
ہم نے عقل اور دانش کا معیار یہ رکھا کہ فرمانِ امروز کی عذر خواہی کی جائے۔ ایوب خان آئے تو انقلاب کی جے، یحییٰ خان کا ورود ہو تو ابنائے وطن کے خلاف مہم جوئی کی جائے۔ بھٹو صاحب کے لئے اسلامی سوشلزم کی تان اڑائی جائے اور ضیاء الحق کے عہد زیاں میں پارسائی کا عمامہ اوڑھ لیا جائے۔ پرویز مشرف کا ظہور ہو تو سامری کے بچھڑے کی آرتی اتاری جائے۔ یہ بتائیے کہ جہانگیر ترین نے 2013کے انتخابات کے بارے میں جو بیان فرمایا، اس میں انکشاف کا پہلو کونسا ہے۔ کیا پورا ملک یہ سب نہیں دیکھ رہا تھا۔ میاں نواز شریف پر آج کی فردِ جرم تو اس زمانے کی دراز دستیوں کا قصہ ہے جب میاں صاحب کسی صاحب تزویر کی آنکھ کا نور تھے۔ ہم افغانستان میں 19 سالہ لڑائی کا نوحہ پڑھ رہے ہیں، کیا ہمیں خبر نہیں کہ ہمارا ملک چالیس برس سے اس لڑائی کا تاوان دے رہا ہے اور یہ کہ ہم نے درپردہ مفادات کی آبیاری کے لئے خود آگے بڑھ کر یہ مصیبت مول لی۔ معیشت کی بدھیا بیٹھ گئی تو عمران خان کو اس کا دوش کیوں دیا جائے؟ آڑی بساط بچھانے والوں سے سوال کیا جائے۔ کورونا کی آفت تو عالمی ابتلا ہے، ساری دنیا اس سے جھونجھ رہی ہے۔ ہمیں ایک ہی فکر ہے کہ ہماری جھولی میں سکے ڈالے جائیں۔ ہم غریب اور بےوسیلہ ہیں۔ ہمیں تو کورونا میں بھی روٹیاں نظر آتی ہیں ۔ تسلیم لیکن کورونا کے طوفان سے بچ نکلنے والی دنیا میں سرد جنگ کی منقسم صف بندی نہیں ہو گی۔ یہ دو طرفہ مصیبت ٹوٹی ہے۔ ایک طرف طبی بحران ہے دوسری طرف معیشت کا پہیہ رُک گیا ہے۔ طاقت کا عالمی توازن ہی نہیں بدل رہا، بعد از کورونا دنیا میں سخت سوالات بھی اٹھائے جائیں گے۔ ایک نیا عالمی بیانیہ مرتب ہو رہا ہے۔ سوال کیا جائے گا کہ ترقی چند سرمایہ داروں کے مفادات کا نام ہے یا کوچہ گرد مخلوق کا بھی اس میں کوئی حصہ ہے۔ اسلحہ ساز بیوپاری اور اسلحہ کے خریدار بتائیں کہ زندگی کے تحفظ کی فکر کیوں نہیں کی گئی؟ ترقی پذیر کہلانے والوں نے دفاع اور انسانی ترقی میں کیا تناسب رکھا۔ وبا کی بےبسی کے بطن سے تہی دست مخلوق نئے سوال لئے برآمد ہو گی۔ ان سے بھی سوال ہوگا جو کورونا کی بھنک پاتے ہی اپنے جزیروں میں روپوش ہو گئے۔ وہ بھی جواب دہ ٹھہریں گے جنہوں نے مردہ انسان کے تابوت پر اپنے سیاسی نظام کا کتبہ لگانے کی کوشش کی۔ ان سے بھی سوال ہوگا جنہوں نے غلط ترجیحات کی پردہ پوشی کے لئے غریبوں کی دہائی دینا شروع کی۔ یہ ایک نئی دنیا ہے۔ یہاں ایک لاکھ افراد کی موت دوسری عالمی جنگ کی چھ کروڑ لاشوں سے زیادہ گہرے نتائج دے گی۔ معیشت کی استعداد کا سیاسی بندوبست کی شفافیت سے تعلق دریافت کیا جائے گا۔ ہم ایسے کاٹھ کے راہوار بھی اپنے بھگت کی تلاش میں نکلیں گے۔