• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اوور سیز پاکستانیوں کو ’’چندہ ماموں‘‘ نہ بنایا جائے!

کیا وبا ہے ،’’کورونا وائرس ‘‘ کہ جس نے ساری نسل انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا ہے ،بڑی بڑی زمینی سپر پاورز آسمان کی جانب دیکھ کر رحم مانگ رہی ہیں ۔ امیر ممالک کی معیشت کی تنزلی کا یہ عالم ہے کہ وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہو چکے ہیں ، سائنس ، میڈیکل ، ترقی ، جدیدیت اور انسان کی خلاوں میں پرواز سب کچھ ناکارہ اور ناکام سسٹم کی غمازی کا نقارہ بجا رہا ہے ۔کورونا وائرس انسانی ایجاد ہے یا قدرتی آفت ؟ اس بحث کے ساتھ دُنیا بھر سے لاشوں کے انبار چیخ چیخ کر انسان کی ناکامی اور بے بسی کا اعلان کر رہے ہیں ۔کورونا وائرس کوئی پہلی وبا نہیں جو انسان پر مسلط ہوئی ہو بلکہ تاریخو ں میں اسپینش انفلوئنزہ ، طاعون اور ایبیولا جیسی وباؤں سے لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔فرق یہ ہے کہ تاریخ میں انسان نے اتنی ترقی نہیں کی تھی جتنی موجودہ دور میں ہے ۔

تاریخ میں وباؤں کی تباہی تو سمجھ میں آتی ہے لیکن موجودہ دور میں کہ جہاں میڈیکل سائنس نے ترقی کی منازل طے کر رکھی ہیں اور سائنس اپنے بام عروج پر ہے پھر بھی کورونا وائرس سے اموات بڑھتی جا رہی ہیں ۔کبھی کہا جاتا ہے کہ جرمنی ، کبھی امریکا نے اور کبھی پاکستان نے اس وبا کے خاتمے کی ویکسین تیار کر لی ہے ، چونکہ ضرورت مند دیوانہ ہوتا ہے اس لئے سوشل میڈیا کے ڈاکٹرز اور حکماء پیاز ، زیتون کا تیل ، گرم پانی ، اسٹیم لینا ، کلونجی اور ایسے بہت سے علاج بتا رہے ہیں اور انسان انہی میں اس وباء سے بچاؤ تلاش کر رہا ہے ۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ’’ سینی ٹائزر ‘‘ میں الکوحل ہوتا ہے اور یہ ہاتھوں کے جراثیم کو ختم کرتا ہے ، ساتھ ساتھ کچھ منچلے یہ بھی کہتے ہیں کہ کورونا وائرس گلے کے راستے پھیپھڑوں میں جاتا ہے لہذا تھوڑا سا الکوحل پی بھی لینا چاہیئے تاکہ اس وائرس کو اندر سے بھی ختم کیا جا سکے ، یعنی جتنے منہ اُتنی باتیں ۔

دیکھا جائے تو اس وبا سے ساری دُنیا ہی متاثر ہوئی ہے لیکن اوورسیز پاکستانیوں کو اس وبا سے زیادہ نقصانات اُٹھانے پڑے ہیں وہ اس طرح کہ مختلف ممالک میں لاک ڈاؤن اور ایمرجنسی کی وجہ سے تمام پروازوں کو منسوخ کر دیا گیا ہے جس سے دوسرے ممالک میں مقیم اوورسیز پاکستانی وہاں اور اُن کے عزیز پاکستان میں پھنس گئے ہیں ، کچھ اوورسیز ایسے بھی ہیں جن کے اہل خانہ دیار غیر میں جبکہ وہ سیر و سیاحت کے لئے وطن عزیز میں آئے اور فلائٹس آپریشن منسوخ ہونے سے یہیں رہ گئے ، اب وہ اوورسیز پاکستان میں ہیں اور اُن کے اہل خانہ دوسرے ممالک میں اور کچھ ایسے جن کے اہل خانہ پاکستان چھٹیاں گزارنے آئے اور وہ یہاں لاک ڈاؤن ہو گئے ۔

یورپی ممالک میں مقیم تارکین وطن پاکستانی اس وقت سخت تذبذب کا شکار ہیں کیونکہ فرانس،اسپین ، بیلجیم ، اٹلی ، یونان ، پرتگال ، آسٹریا ، جرمنی ، ہالینڈ میں کورونا وائرس کی وجہ سے اور طبعی وفات پانے والوں کی میتیں پاکستان جانے کی منتظر ہیں ، پاکستان میں وفات پانے والوں کے لواحقین اپنے پیاروں کا آخری دیدار کرنے کے لئے حکومت پاکستان کے تعاون کے منتظر ہیں ۔ تارکین وطن پاکستانی وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور مشیر برائے اوورسیز زلفی بخاری کی توجہ اس مسئلے کی طرف مبذول کرانے کے لئے دن رات کوششیں کر رہے ہیں ۔ 

تارکین وطن کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت اوورسیز کے مسائل حل کرنے کا نعرہ لگا کر میدان میں آئی تھی ، اوورسیز پاکستانیوں نے 2018کے قومی انتخابات میں پی ٹی آئی کو دل کھول کر چندہ دیا تھا تاکہ یہ جماعت برسر اقتدار آکر ہمارے مسائل حل کر سکے ، چندہ مہم سے پی ٹی آئی جیت تو گئی لیکن تارکین وطن کے مسائل کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ وہ پاکستان میں بسنے والوں کے مسائل حل کرنا بھی بھول گئی ۔وزیر اعظم پاکستان اور اُن کے وزیروں مشیروں کے بلند و بانگ وعدے اور نعروں کے دکھائے گئے خواب آج تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے اور شائد مستقبل میں بھی ایسا نہ ہو سکے ۔تارکین وطن پاکستانی حکومت پاکستان کے ذمہ داران سے کہنا چاہتے ہیں کہ وہ دوسرے ممالک کے سرکاری عہدیداران اور سیاسی اکابرین سے رابطہ کریں اور خصوصی پروازوں کے ذریعے زندہ نہ سہی لیکن میتوں کو پاکستان لانے کا بندوبست کریں ۔ 

زلفی بخاری آئے دن جھوٹ پر مبنی ایک پلندہ پڑھ کر سنا دیتے ہیں کہ ہم بڑی کوشش کر رہے ہیں لیکن ایسا بالکل نہیں ، دیار غیر میں لاک ڈاؤن کی نذر ہونے والے پاکستانیوں کے گھروں میں صاحب حیثیت پاکستانی از خود یا اپنی مدد آپ کے تحت ایک دوسرے کو راشن پہنچا رہے ہیں۔ دوسرے ممالک کی بات رہنے دیں اگر ہم صرف اسپین کی بات کریں تو وہاں کورونا وائرس سے 20ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں ، قبرستانوں اور مردہ خانوں میں میتیں رکھنے کی گنجائش نہیں ۔

اسپین میں مسلم قبرستان نہیں کہ جہاں اسلامی شعار کے ساتھ میت کو دفن کیا جا سکے ،ا سپین میں اس وقت تک 15کے قریب پاکستانیوں کی میتیں اپنی دھرتی ماں کی آغوش میں دفن ہونے کی منتظر ہیں ان میں سے کچھ کورونا کی نظر ہوئے اور کچھ طبعی موت جہاں فانی سے کوچ کر گئے ۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کی آسٹریلیا اور کینیڈا کے لئے فلائٹس چل رہی ہیں ،جو وہاں سے خالی آتی ہیں اور پاکستان سے پسنجرز کو لے کر جا رہی ہیں اسی لئے فی پسنجر کرایہ ڈبل لیا جا رہا ہے ۔ حکومت پاکستان اگر اوورسیز پاکستانیوں سے چندہ مانگنے کی بجائے ہر ملک کے لئے صرف ایک فلائٹ میتیں لانے کے لئے شروع کر دے تو وفات پانے والوں کی ارواح اپنے وطن عزیز کی فضاؤں میں پہنچ کر پر سکون ہو جائیں گی ۔

ورنہ بے یارومددگار میتیں اور اُن کے لواحقین حکومت وقت کو بدعاؤں کے علاوہ کچھ نہیں دیں گے ۔میرا خیال ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کو اگر کہا جائے کہ اُن کے وفات پا جانے والوں کی میتیں ڈبل کرائے کے ساتھ پاکستان لائی جائیں گی تو بھی پاکستانی تیار ہو جائیں گے کیونکہ وہ اپنے وطن سے بہت محبت کرتے ہیں ۔پاکستان کی موجودہ حکومت کو چاہیئے کہ وہ اوورسیز کے مسائل کے حل کا چورن بیچنا اور چندہ مہم کو تھوڑا کم کرکے اوورسیز پاکستانیوں کی میتوں کو پاکستان لانے کاعمل تیز کریں ۔

شائد ایسا کرنے سے اوورسیز پاکستانیوں کے دلوں میں موجودہ حکومت کو مزید چندہ دینے کا خیال ایک بار دوبارہ سے امڈ آئے اور وہ وزیروں اور مشیروں کی عیاشیوں کے لئے دل کھول کر چندہ دیں کیونکہ فی الحال اوورسیز پاکستانی کمیونٹی میں میتوں کو واپس پاکستان نہ لانے کی وجہ سے موجودہ حکومت کے خلاف سخت نفرت کا اظہار کر رہی ہے ۔ 

پاکستانی کمیونٹی زلزلہ زدگان ، سیلاب زدگان اور ڈیم فنڈ میں چندہ دے دے کر تھک چکے ہیں ، چندہ دینا بری بات نہیں لیکن چندہ کہاں لگ رہا ہے یہ ثابت نہ ہونا بہت بری بات تصور ہوتی ہے ، لہذا اب اوورسیز پاکستانی چندہ دینے کی بجائے لاک ڈاؤن میں ’’چندہ ماموں‘‘ کی کہانی سننے پر اکتفا کئے ہوئے ہیں ۔ویسے بھی اس چندہ مہم نے کئی بار اوورسیز پاکستانیوں کو ’’ ماموں ‘‘ بنایا ہے ۔

تازہ ترین