ماہرینِ ذیابطیس کا خیال تھا کہ ذیابطیس ٹائپ ٹو کے علاج کے لیے ورزش، غذائی پرہیز کے ساتھ شوگر کی دوا یا انسولین کا استعمال مؤثر ثابت ہوتا ہے،لہٰذا ذیابطیس کے علاج کے لیے سرجری کا عمل درست نہیں، مگر پچھلی دہائی میں ہونے والی تحقیقات نے یہ ثابت کردیا کہ ذیابطیس ٹائپ ٹو کے علاج کے لیے سرجری کا طریقۂ کارخاصا مفید ثابت ہوسکتا ہے، جس سے نہ صرف موٹاپےبلکہ مرض سے بھی مکمل طور پر شفا ممکن ہے۔ ابتدامیں ذیابطیس ٹائپ ٹو کی سرجری کا عمل نہ صرف بہت پیچیدہ تھا،بلکہ آپریشن کے بعد پیچیدگیاں بھی بڑھ جاتی تھیں، لیکن حالیہ چند برسوں میںنہ صرف آپریشن کا عمل سہل ہوا ،بعد ازاں پیچیدگیوں کے امکا نات بھی کم ہوگئے ۔ اس طریقۂ علاج میں پیٹ میں تین چھوٹے سوراخ کر کے آپریشن کیا جاتا ہے اور زخم بھی چند دنوں میں مندمل ہوکر مریض جلد صحت یاب ہو جاتا ہے۔
واضح رہے کہ وہ عمل جو غذائی اجزاء کاربوہائیڈریٹ ،فیٹ اور پروٹین کو باریک اجزاء میں تبدیل کرکے خامروں کی مدد سے جسم کا جزو بناتا ہے، میٹابولزم کہلاتا ہے اور جن بیماریوں کا تعلق میٹابولزم سے ہو، میٹابولک بیماریاں کہلاتی ہیں۔ ذیابطیس بھی میٹابولک بیماری ہے، جس میں کاربوہائیڈریٹس کا میٹابولزم متاثر ہوجاتا ہے۔1920ء میںسرجنز نے اس بات کا مشاہدہ کیا کہ وہ مریض جو ذیابطیس کا شکار تھے، جب ان کے معدے یا آنتوں کا آپریشن کیا گیا، توموٹاپے ہی نہیں، ذیابطیس کا بھی قلع قمع ہوچُکا تھا ۔ طبّی اصطلاح میں اسے بیریاٹرک سرجری (Bariatric Surgery)کا نام دیا گیا۔ 1950ء میںذیابطیس سے متاثرہ مریضوں میں مرض ختم ہونے کے مشاہدات میں مزید اضافہ ہوا۔2000ء تک یہ شواہد بھی سامنے آئے کہ بیریاٹرک سرجری کے گلوکوز کے میٹابولزم پر مثبت اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔
ذیابطیس سرجری سمٹI (DSS-I:Diabetes Surgery Summit-I) نے اسے ذیابطیس کا علاج قرار دیا۔ بعدازاں ذیابطیس سرجری سمٹII (DSS-II:Diabetes Surgery Summit-II) نے کلینکل شواہد کا تجزیہ کیا، جو متعدد تحقیقات پر مشتمل تھا۔ بالآخر2013ء تا 2015ء میں ہونے والی تمام تحقیقات نے بیریاٹرک سرجری کے حق میں فیصلہ دے دیا ،کیوں کہ یہ سرجری میٹابولزم پراثر انداز ہو رہی تھی۔ڈی ایس ایسIIکے مطابق ’’معدے اور آنتوں کی وہ سرجری جو ذیابطیس ٹائپ ٹو اور موٹاپے سے نجات کے لیے کی جائے، اُسے میٹابولک سرجری کہا جائے۔‘‘
ذیابطیس ٹائپ ٹو میں 80فی صد مریض موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں۔موٹاپے کی جانچ کے لیے ایک عالمی معیار مقرر ہے، جو طبّی اصطلاح میں باڈی ماس انڈیکس (بی ایم آئی) کہلاتا ہے۔اس طریقۂ کار میں پہلے اپنا وزن( کلو گرام میں)اور لمبائی ( یعنی قد) میٹر میں معلوم کیا جاتا ہے ۔پھروزن کو لمبائی کے اسکوائر سے تقسیم کردیں، توجو جواب آئے گا وہی بی ایم آئی ہو گا۔ایشیائی مُمالک میں بی ایم آئی 23.4سے کم ہو، تو وہ نارمل وزن میں شمار کیا جاتا ہے۔ اگر بی ایم آئی اس رینج سے زائد ہو، توآپ کا وزن زیادہ ہے،لیکن27.5سے زیادہ ہونے کا مطلب ہے کہ آپ موٹاپے کا شکار ہیں۔میٹابولک سرجری ہمیشہ بی ایم آئی کو مدِّ نظر رکھ کر کی جاتی ہے،جس کے مطابق اگر مریض کا بی ایم آئی27.5یا اس سے کم ہو، تو میٹابولک سرجری کی ضرورت نہیں۔
ایسے مریضوں کا علاج ادویہ یا انسولین یا پھر دونوں ہی طریقوں سے کیا جاسکتا ہے۔ اگر باڈی ماس انڈیکس اس سے زائد ہوتو ایسی صُورت میں ماہرین نے درجہ بندی کی ہے۔پہلے درجے میںذیابطیس کے وہ تمام مریض، جن کا بی ایم آئی 27.5سے32.4کے درمیان ہو،معالج کی ہدایت کے مطابق پرہیز اور باقاعدگی سے ورزش کے ساتھ ادویہ یا انسولین کا استعمال کرتےہوں، مرض پر کنٹرول بھی ہو تو انہیں میٹابولک سرجری کی قطعاً ضرورت نہیں،لیکن مرض پر کنٹرول نہ ہونے کی صُورت میں میٹابولک سرجری تجویز کی جاسکتی ہے۔دوسرے درجے میں جن مریضوں کا بی ایم آئی32.5 سے 37.4کے درمیان اور شوگر کنٹرول بھی اچھا ہو، تو بھی میٹابولک سرجری کا سوچا جاسکتا ہے، لیکن اگر شوگر کنٹرول خراب ہو، تو انہیں میٹابولک سرجری تجویز کی جاتی ہے۔ ویسے اس درجے میں شامل موٹاپےکےشکار مریض غذا،ورزش اور ادویہ کے ذریعے اپنا مرض کنٹرول کررہے ہوتے ہیں۔تیسرے درجے میں وہ تمام مریض شامل ہیں، جن کا بی ایم آئی37.5 ہو۔ انہیں میٹابولک سرجری تجویز کی جاتی ہے۔
میٹابولک سرجری کے ذریعے معدے اور آنتوں کی ساخت میں ایسی تبدیلی لائی جاتی ہے کہ بھوک کم لگتی ہے ، انسولین کی حسّاسیت میں اضافہ اور وزن کم ہوجاتا ہے۔ میٹابولک سرجری کے بے شمار فوائد ہیں۔ مثلاً شوگر کے کنٹرول میں بہت بہتری اور ادویہ کی تعداد میں کمی واقع ہوتی ہے۔دِل کی بیماریاں، ہارٹ ایٹک، فالج اور سرطان کے خطرات کم ہو جاتے ہیں اور معیارِ زندگی میں اضافہ ہوتا ہے۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ 30تا 60فی صد مریضوں میں ذیابطیس کا عارضہ ختم ہوجاتا ہے۔ میٹابولک سرجری برائے ذیابطیس کے چار طریقے مستعمل ہیں۔ پہلاطریقۂ کار "Biliopancreatic Dversion"کہلاتا ہے،جس میں معدے کے کچھ حصّے کو کاٹ کر الگ کر دیا جاتا ہے۔ پھر باقی معدے کے حصّے کو بذریعہ آنت ڈیوڈینم (Duodenum)،جی جونیم(Jejunum) اور ایلم(Ileum)کے کچھ حصّے کو بائی پاس کرکے جوڑ دیا جاتا ہے۔
اس طرح کے بائی پاس میں بائل جوس اور پنکریاٹک جوس بھی آنتوں میں آکر ملتے ہیں۔سرجری کادوسرا طریقۂ کار"Roux-En-Y Gastric Bypass"ہے۔ اس آپریشن میں بھی معدے کے اوپری حصّے کو کاٹ کر علیٰحدہ کرکے ایک مخصوص طریقے سے اس طرح جوڑ دیا جاتا ہے کہ غذا معدے میں جانے کے بجائے براہِ راست آنتوں میں چلی جاتی ہے، جب کہ معدے کی رطوبت، بائل جوس اور پینکریاٹک جوس بھی آنتوں میں آجاتے ہیں۔تیسرا طریقۂ کار"Vertical Sleeve Gastrectomy"کہلاتا ہے، جس میں معدے کے خم والے حصّے کو عمودی طور پر کاٹ کر الگ کردیا جاتا ہے،مگر کسی آنت کو نہیں کاٹا جاتا۔چوتھا laparoscopic Adjustable Gastric Banding ہے۔ اس سرجری میں معدے کے اوپری حصّے میں بینڈ لگادیا جاتا ہے اور اس بینڈ کو نارمل سیلائن ڈال کر ایڈجسٹ کیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ یہ سرجری ہر ایک مریض کے لیے نہیں ہوتی ۔جیسے ذیابطیس ٹائپ وَن کے مریض، لیکن اگر موٹاپے کے لیے ضروری ہو، تو پھر ٹائپ وَن میں بھی یہ سرجری کی جاسکتی ہے۔ نشہ آور ادویہ یا الکوحل استعمال کرنے والے، جن کے نفسیاتی عوارض کنٹرول میں نہ ہوں، جو اس کے فوائد اور خطرات کو نہ سمجھ سکیں،جو سرجری کا متبادل علاج کرواسکتے ہوںاور جو سرجری کے بعد غذائی پرہیز اور معائنے کے لیے نہ جاسکیں، سرجری نہ ہی کروائیں توبہتر ہے۔
میٹابولک سرجری اب پاکستان میں بھی کی جارہی ہے اور اس کے نتائج بھی اچھے مل رہے ہیں۔ مشاہدے میں ہے کہ ایسے کئی مریض جو ذیابطیس اور موٹاپے کے ساتھ ہائی بلڈپریشر اور جوڑوں کے درد کا شکار تھے، انہیںسرجری کے بعد ان تمام طبّی مسائل سے چھٹکارا مل گیا اور اب وہ صحت مند زندگی گزار رہے ہیں۔ پاکستان میں اس سرجری کے اخراجات دِل کی بائی پاس سرجری کے برابر ہیں، تاہم مریض بہت جلد صحت یاب ہوجاتے ہیں۔
(مضمون نگار، کنسلٹنٹ ڈائی بیٹالوجسٹ ہیں اور ماڈرن کنسلٹنٹ کلینک، ڈیفینس، کراچی میں خدمات انجام دے رہے ہیں)