• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب مَیں وہاں پہنچا تو پورا صحن عورتوں سے بَھرا ہوا تھا۔ وہ، جس کی ہنسی، شرارتیں، مسکراہٹیں اُس پورے آنگن میں گونجا کرتی تھیں، آج اُسی آنگن کے بیچوں بیچ رکھی چارپائی پر بے جان، خاموش پڑی تھی۔ مَیں نے اسے پہلی بار تب دیکھا تھا، جب وہ میرے ہاسٹل کے قریب واقع ایک جنرل اسٹورپر کھانے پینے کی چیزیں خریدنے آئی تھی اور مَیں وہاں ضرورت کا کچھ سامان لینے گیا تھا۔ اُس نے اپنی باتوں سے پوری دُکان سر پر اُٹھائی ہوئی تھی۔ چھے، سات برس کی گُڈّی بولتی تھی، تو بس بولتی ہی چلی جاتی تھی۔ معصوم سی باتیں کرنے والی گُڈّی کی باتیں سُن کر ہر کوئی ہنسنے پہ مجبور ہوجاتا ۔ دیکھنے میں بالکل گڑیا لگتی تھی، بھولی بھالی سی۔ 

شاید اسی لیے ماں باپ نے اس کا نام’’ گُڈّی ‘‘رکھا ۔میرے ہاتھ میں کتابیں دیکھیں، تو جھٹ بولی، ’’آپ سڑک کنارے بڑے سےکالج میں پڑھتے ہو…؟؟ مجھے بھی پڑھنے کا شوق ہے، آپ پڑھاو ٔگے مجھے؟‘‘ مَیں نےبھی کہہ دیا کہ ’’ہاں کیوں نہیں، ضرور پڑھاؤں گا، مَیں رہتا بھی کالج ہاسٹل میں ہوں، تو ہر اتوار تمہیں پڑھا دیا کروں گا۔‘‘اور یوں ننھّی گُڈّی سے میری دوستی ہوگئی۔ مَیں اکثر اسے کہا کرتا’’ تم اتنی باتیں کیوں کرتی ہو؟ ‘‘تو وہ ہنس دیتی اور کہتی ’’پتا ہے ماسٹر! میری مائی کہتی ہے، گڈّی تیرے ریکارڈر میں’’اسٹاپ‘‘ کابٹن نہیں ہے، اسی لیے تُو بے تکان بولتی چلی جاتی ہے۔ اب خود دیکھو،جب میرے اندراسٹاپ کا بٹن ہے ہی نہیں، تومَیں باتیں ہی کروں گی ناں۔‘‘

مَیں جب اُس سےآخری بار ملا ، تووہ بہت افسردہ اور بجھی بجھی سی تھی۔ میرے پوچھنے پہ کہنے لگی کہ ’’مَیں اب چُپ ہوجانا چاہتی ہوںماسٹر! مجھے مائی بہت ڈانٹتی ہے۔ میرا اتنا بولنا اُسے پسند نہیں، جب دیکھو گھورتی رہتی ہے۔ اب تو ابّا بھی اُس کا ساتھ دیتا ہے۔مَیں اب اپنے آپ میں ’’اسٹاپ‘‘ کا بٹن لگوانا چاہتی ہوں۔‘‘ پھر تھوڑی دیر بعد اس کے چہرے پر چمک سی آئی اور کہنے لگی، ’’ماسٹر! تم تو پڑھے لکھے ہو ناں، تمہیں پتا ہوگا،کہاں سے ملے گا اسٹاپ کا بٹن، کیسے لگے گا مجھ میں؟‘‘اور مجھے ہنسی آگئی تو وہ مجھ سے ناراض ہو کر چلی گئی۔ کچھ دن بعد مَیں نمازِ عصر پڑھ کر لَوٹا،توہاسٹل کا وارڈن مجھے ڈھونڈتا ہوا آیااور کہنے لگا ’’تمہارے لیے ایک بچّی کا فون آیاتھا، تین ، چار بار فون کر چُکی ہے۔‘‘مَیں سمجھ گیا کہ گُڈّی کی ناراضی ختم ہوگئی ہوگی۔ پہلے بھی جب مَیں اُس کی بات نہ مانتا یا وہ روٹھ جاتی توغصّہ ٹھنڈا ہونے پرفون کر کےبات کرتی تھی۔

گُڈّی نے فون پر بتایا کہ ’’ماسٹر! مَیں بہت خوش ہوں، ایک بندہ مل گیا ہے، جو افغانستان سے گھڑیاں لا کر بیچتا ہے۔ اُس کے پاس اسٹاپ کا بٹن بھی ہے۔ میری اُس سے بات ہو گئی ہے، اب جب وہ آئے گا، تومیرے لیے بٹن لائے گا اور بٹن لگوا بھی دے گا۔ تمہاری ہی طرح کا بھلا انسان ہے۔‘‘اُس کی باتوں سے مجھے خطرے کی بُو آرہی تھی، سو مَیں نے گُڈّی سے کہا کہ ’’میری بات سُنو، تم نے اس بارے میں اپنی مائی، ابّا کو کچھ بتایا؟ اور کہاں مل گیا تمہیں یہ آدمی؟‘‘ اس سے پہلے کہ مَیں اور کچھ کہتا وہ بولی ’’مَیں اب بھی تم سے ناراض ہوں۔‘‘ اور فون بندکردیا۔بے ساختہ میرے منہ سے دُعا نکلی’’ اللہ! اس کلی کی حفاظت فرما۔‘‘

مگر …شاید وہ قبولیت کی گھڑی نہیں تھی اور مصیبتیں صرف دعاؤں سے نہیںٹلتیں، ہمیں عملی اقدامات بھی کرنے چاہئیں۔ گُڈّی کے سر پر آئی مصیبت بھی نہ ٹل سکی، اُس کے والدین بچّی کے روٹین سے بے خبر رہے، مجھے بھی اتنی مہلت نہ ملی کہ اس کے گھر جا پاتااور بس… معصوم کلی ایک شیطان کے ہاتھ لگ گئی، جس نے اس کی معصوم صُورت تک پہ رحم نہیں کھایا۔

ایک روز وہ گھر سے نکلی اورشام ڈھلے گئے واپس نہ لَوٹی، محلّے میں ڈھونڈیا مَچی ، مسجد میں اعلان ہوا،پولیس میں رپورٹ درج کروائی گئی تو چند روز بعد قریبی جھاڑیوں سے اُس کی تشدّد زدہ لاش بر آمد ہوگئی۔ مجھے جنرل اسٹور والے نے بتایا تو میرا دل دھک سے رہ گیا اور مَیں پہلی بار اُس کے گھر گیا، پر کیا بد قسمت دن تھا کہ میری ننھّی دوست، چَیٹر باکس، سفید لٹھا اوڑھے چُپ چاپ لیٹی تھی۔ اُس کے اِرد گرد سسکیاں، آہیں، بین تھے۔ ایک حیوان، گُڈّی میں ’’اسٹاپ‘‘ کا بٹن نصب کرگیا۔

تازہ ترین