• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مغربی معاشروں میں’’ بہترین کتابیں ‘‘ یا ’’عظیم کتابیں ‘‘ کا تصور عام ہے۔ کہتے ہیں کی امریکی صدر تھامس جیفرسن نے ایسی عظیم یا بہترین کتابوں کی فہرست بنائی تھی جو وہ زندگی میں پڑھنا چاہتا تھا۔ مغرب میں کچھ لوگوں نے ایک سو بہترین کتابیں کے عنوان سے اپنی پسندیدہ کتابوں کی فہرستیں بنائیں اور بعض نے ایسی ایک ہزار عظیم کتابوں کی فہرست بنائی جنھیں پڑھنا چاہیے۔کچھ نے اصناف کے اعتبار سے بھی عمدہ کتابوں کی فہرست مرتب کی۔البتہ اردو میں عام طور پر اس طرح کی فہرستیں نہیں ملتیں۔

سچی بات یہ ہے کہ ایسی کوئی بھی فہرست حتمی نہیں کہی جاسکتی کیونکہ ہر شخص اپنی ذاتی پسند و ناپسند اور شخصی رجحانات کے لحاظ سے کتابیں پڑھتا ہے اور پھر پسند و ناپسند تبدیل بھی ہوسکتی ہے۔ممکن ہے کہ ایک کتاب جو ہمیں آج پسند ہے کل دل سے اتر جائے۔ لہٰذایہاں اردو کی دس بہترین خود نوشت سوانح عمریوں کی جو فہرست پیش کی جارہی ہے وہ ہرگز حتمی نہیں ہوسکتی اور ہر قاری اپنے ذوق اور مزاج کے اعتبار سے اس میں تبدیلی کرسکتا ہے۔اس فہرست کے پیش کیے جانے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اردو میں بھی اس طرح کی فہرستیں بنائیں اور ہزار یا سو نہیں تو دس ہی کے عدد سے کام شروع کریں۔ اس طرح کتب بینی کے فروغ میں بھی مدد ملے گی۔

اس ضمن میں خود نوشت سوانح عمری کی صنف کے لحاظ سے ایسی دس کتابوں کی فہرست پیش ہے جو اس کم علم و کم سواد کی نظر میں ’’بہترین ‘‘میں شامل کی جاسکتی ہیں۔ یہ فہرست تاریخی ترتیب سے پیش کی جارہی ہے یعنی اس فہرست کی ترتیب کی بنیاد ترجیح نہیں ہے بلکہ کتابوں کے زمانۂ تصنیف و اشاعت کے لحاظ سے اسے مرتب کیا گیاہے۔بسا اوقات کوئی کتاب زیادہ معروف یا مقبول نہیں ہوتی لیکن اپنی ادبی و تہذیبی اہمیت یا اسلوب کی وجہ سے قابلِ مطالعہ ہوتی ہے اوراس فہرست میں اس امر کوبھی مد نظر رکھا گیا ہے۔

۱۔ کالا پانی(۱۸۸۴ء)

جعفر تھانیسری کی اس کتاب کا اصل نام ’’تواریخ ِ عجیب ‘‘ ہے لیکن یہ ’کالا پانی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہجعفر تھانیسری تقریباً اٹھارہ سال جزائر انڈیمان (Andaman Islands) میں قید رہے جو عرف ِ عام میں کالا پانی کہلاتا تھا ۔ ان کو انگریزوں نے ’’بغاوت ‘‘ کے جرم میں۱۸۶۴ء میں گرفتار کیا اور ۱۸۶۶ء میں جزائر انڈیمان بھیج دیا ۔واپسی پر انھوں نے وہاں کے حالات لکھے ۔ 

بعض محققین اسے اردو کی پہلی خود نوشت بھی مانتے ہیںا گرچہ ایک بحث یہ بھی ہے کہ یہ خود نوشت ہے یا یادداشتیں۔لیکن اس مختصر کتاب میں جزائر انڈیمان کے حالات سادہ اور دل چسپ انداز میں بیان ہوئے ہیں۔اس کو ایوب قادری نے مرتب کرکے شائع کیا جس کا نیا ایڈیشن ادارۂ یادگار غالب کے زیر اہتمام کچھ عرصے قبل منظرِ عام پر آیاہے۔

۲۔اعمال نامہ (۱۹۴۳ء)

سر رضا علی وکیل اور سیاست داں تھے اور قیام ِ پاکستان سے قبل اعلیٰ عہدوں پر رہے۔ ان کے اردو ، فارسی اور انگریزی ادب کے گہرے مطالعے اور اعلیٰ ذوق نے ان کی خود نوشت ’’اعمال نامہ‘‘ کو سیاسی حالات کے علاوہ اس دور کے ادبی اور معاشرتی حالات کی بھی خوب صورت تصویر بنادیا ہے۔اپنے ذاتی حالات کے ساتھ انھوں نے انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل کے اہم ادبی ، سیاسی اور سماجی حالات و واقعات کوادبی اسلوب میں پیش کیا ہے ۔ 

اگرچہ ان کے بعض سیاسی و ادبی نظریات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن کتاب کی تاریخی اور ادبی اہمیت اپنی جگہ ہے۔انھوں نے اپنی زندگی کے بعض نجی گوشے بھی وا کیے ہیں ، مثلاً جنوبی افریقہ میں قیام کے دوران میں دوسری شادی ، وغیرہ۔ (جی ہاں ،’’دوران‘‘ کے بعد ’’میں‘‘ آئے گاورنہ جملہ قواعد کی رو سے غلط ہوگا )۔ اعمال نامہ کا نیا ایڈیشن خدا بخش پبلک لائبریری (پٹنہ) نے ۱۹۹۲ء میں شائع کیا۔

۳۔خوں بہا (۱۹۴۳ء)

حکیم احمد شجاع شاعر و ادیب بھی تھے اورقیام ِ پاکستان سے قبل پنجاب کی قانون ساز اسمبلی کے معتمد بھی رہے ۔ ان کی اس خود نوشت کاابتدائی حصہ ان کی نظم و نثر کے لیے مختص ہے اور ایک سو بانوے صفحات کے بعد ان کی آپ بیتی شروع ہوتی ہے۔ رواںادبی اسلوب میں زندگی کے اہم واقعات بالخصوص اپنے علی گڑھ کے دور طالب علمی کے ایام کا ذکر والہانہ انداز میں کرتے ہیں۔

علی گڑھ کے مشہور کھلنڈرے مسعود ٹامی کا دل چسپ ذکر بھی کتاب میں موجود ہے ۔علی گڑھ کے علاوہ اُس دور کے لاہور، دہلی ،میرٹھ ، حیدرآباد دکن اور پاک پتن کی زندگی جھلکیاں بھی اس کتاب میں ہیںاورتصوف پر عمیق باتیں بھی۔ اردو اور فارسی کے عمدہ اشعار کا برمحل استعمال خوں بہا کے ادبی رنگ کا ایک جزو ہے۔ افسوس کہ اس کا دوسرا حصہ شائع نہ ہوسکا ۔ البتہ پہلے حصے کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔

۴۔مشاہدات (۱۹۵۵ء)

ہوش یار جنگ ہوش بلگرامی کی یہ خود نوشت اردو کی ان کتابوں میں شامل ہے جن پر پابندی لگائی گئی۔ ہوش یار جنگ کا اصل نام ناظر الحسن تھا۔ حیدرآباد دکن کی ریاست میں بڑے عہدوں پر رہے اور نظام دکن کے بہت قریبی مصاحب سمجھے جاتے تھے۔ اپنی دور بینی اور مصلحت آمیزی کی بناپر ریاست سے ہوش یار جنگ کا خطاب بھی پایا اور بعد میں زیر عتاب بھی رہے۔یہ کتاب اشاعت کے بعد ضبط کرلی گئی۔ 

اگرچہ بہت پہلے لکھی جاچکی تھی لیکن اس کی اشاعت ہوش بلگرامی نے مصلحتاً ۱۹۵۵ء تک تعویق میں رکھی۔ یہ نہ صرف ان کی ذاتی زندگی کے عروج و زوال کی داستان ہے بلکہ ریاست دکن کی بھی تاریخ ہے۔ادب اور اہل ادب کا حال بھی اس میں مذکور ہے ۔ کتاب کم یاب تھی اور حال ہی میں راشد اشرف نے اسے مرتب کرکے شائع کردیا ہے۔

۵۔عمرِ رفتہ (۱۹۵۸ء)

نقی محمد خاں خورجوی ادیب بھی تھے اور قیام ِ پاکستان سے قبل پولیس میں اعلیٰ افسر بھی رہے۔ پولیس کے محکمے میں ہونے کے باوجود ان کی دیانت داری اور شرافت مثالی رہی۔ شاہد احمد دہلوی کے اصرار پر انھوں نے اپنی خود نوشت لکھی جو پہلے ’’ساقی ‘‘ میں شائع ہوئی اوربہت مقبول ہونے کے بعد قارئین کے اصرار پر کتابی صورت میں شائع ہوئی۔اس میں انھوں نے اپنی اسّی سالہ زندگی کے سبق آموز واقعات کے علاوہ بعض پُراسرار واقعات بھی لکھے ہیںجن کا تعلق پراسرار علوم اور روحانیات سے ہے۔ اپنے دور کی تہذیب اور سماج کی عمدہ تصویریں پیش کی ہیں۔ کتاب خاصے عرصے سے نایاب تھی اور اس کا ایک نیا ایڈیشن ۲۰۰۳ء میں کراچی سے شائع ہوا تھا جس نے ایک کمی کو پورا کیا۔

۶۔سرگزشت (۱۹۶۲ء)

سید ذوالفقار علی بخاری جو بالعموم زیڈ اے بخاری کے نام سے جانے جاتے ہیں، شاعر اور ادیب بھی تھے لیکن قیام ِ پاکستان سے قبل آل انڈیا ریڈیو اوربعد میں ریڈیو پاکستان سے وابستگی نے انھیں زیادہ شہرت دی۔ روزنامہ حریت میں ۱۹۶۲ء میں اپنی آپ بیتی ’’سرگزشت‘‘ کے نام سے قسط وار لکھنی شروع کی (اس نام سے ایک خود نوشت عبدالمجید سالک نے بھی لکھی ہے )۔ یہ کتابی صورت میں ۱۹۶۶ء میںمنظر ِ عام پر آئی۔ یہ نہ صرف پاکستان اور ہندوستان میں نشریات کی تاریخ ہے بلکہ بخاری صاحب کی حاضر جوابی اور بذلہ سنجی کا بھی نمونہ ہے۔ بخاری صاحب اردو زبان کی صحت کے بارے میں بہت حساس تھے اور اس کتاب کی خوبصورت اردو اس کی شاہد ہے۔

۷۔ کتاب ِ زندگی (۱۹۶۷ء)

اس خود نوشت کی مصنفہ قیصری بیگم کا تعلق مولوی نذیر احمد دہلوی کے خاندان سے تھا۔ ان کی یہ خود نوشت ڈائریوں کی شکل میں تھی اور شان الحق حقی کے اصرار پر انہوں نے اسے قسط وار اردو لغت بورڈ کے جریدے ’’اردو نامہ ‘ـ ‘میں چھپوانا شروع کیا۔اس کی پہلی قسط ۱۹۶۷ء میں شائع ہوئی۔ لیکن کتابی صورت میں چھپنے میں خاصا عرصہ لگ گیا۔ کتاب کی زبان سادگی ،روانی اور دلی کی ٹکسالی اردو کا نمونہ ہے ۔ اس میں دلی کے علاوہ حیدرآباد دکن کی تہذیب و تمدن کی بھی جھلکیاں ہیں اور آج سے کوئی ساٹھ سال پہلے کیے گئے سفرِ حجاز کی روداد بھی اس میںشامل ہے۔

۸۔یادوں کی برات(۱۹۷۰ء)

جوش ملیح آبادی کی خود نوشت ’’یادوں کی برات ‘‘ اردو کی متنازع فیہ کتابوں میں شامل ہے ۔ خیال رہے کہ صحیح لفظ برات ہے ، اسے خواہ مخواہ بارات لکھا جاتا ہے اور بعض لوگ اس کتاب کا نام بھی غلط لکھتے ہیں۔ کم از کم جوش صاحب سے اس بد مذاقی کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ برات کو بارات لکھیں گے ۔ یہ پہلی بار ۱۹۷۰ء میں منظر ِ عام پر آئی اور اس کے بعض مندرجات پر تنقید بھی ہوئی جن میں جوش کے بیان کیے گئے اپنے اٹھارہ اُنیس عشق بھی شامل ہیں ۔

لیکن یہ جو ش صاحب کی خوب صورت نثراور ان کی اردو زبان پر قدرت کاسدا بہار نمونہ ہے۔ خاص طور پر جب وہ منظر کشی کرتے ہیں تو سماں باندھ دیتے ہیں۔ ان کی سحر خیزی کی عادت کا ذکر اور طلوعِ صبح کا منظر پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے گم شدہ اور غیر مطبوعہ اوراق رفیق احمد نقش کو دست یاب ہوئے تھے جو انھوں نے ڈاکٹر ہلال نقوی کو پیش کردیے اور ہلال نقوی نے اس کتاب کو ان گم شدہ صفحات کے ساتھ مرتب کرکے شائع کردیا۔

۹۔زر گزشت (۱۹۷۶ء)

اردو کے ممتاز ترین مزاح نگاروں میں شمار کیے جانے والے مشتاق احمد یوسفی صاحب کا کہنا تھا کہ حسِ مزاح ہی انسان کی چھٹی حس ہے اور یہ حس پاس ہو تو انسان تمام مشکلات سے ہنستا کھیلتا گزر جاتا ہے۔ ان کا یہ فلسفہ ان کی اس خود نوشت میں بھی جھلکتا ہے جس میں انھوں نے پاکستان ہجرت اور اس کے بعد کی مشکلات کا ذکر انتہائی شگفتہ انداز میں کیا ہے۔اگرچہ یہ مکمل سوانحِ عمری نہیں ہے اور خود انھوں نے بھی اسے ’’سوانحِ نو عمری ‘‘قرار دیا ہے لیکن یہ اردو کی ان کتابوں میں شامل ہے جس کا مطالعہ ہر پڑھے لکھے شخص کے لیے لازمی ہے۔

۱۰۔ شہاب نامہ(۱۹۸۶ء)

قدرت اللہ شہاب بنیادی طور پرافسانہ نگار تھے ۔ سرکاری افسر کی حیثیت سے اہم ترین عہدوں پر رہے۔ صدر ایوب خان کے سیکریٹری بھی رہے۔ان کے افسانوی اسلوب کی جھلکیاں ان کی اس خود نوشت میں بھی موجود ہیں ۔ شہاب صاحب کے دوست اور معروف محقق مشفق خواجہ صاحب نے اپنے ایک کالم میں (جو وہ خامہ بگوش کے قلمی نا م سے لکھتے تھے) یہ تک لکھ دیا تھا کہ شہاب نامہ فکشن کی بہترین کتاب ہے۔ 

اگرچہ شہاب نامہ میں چند ناقابلِ یقین اور پراسرار واقعات خاصی تفصیل اور تکرار کے ساتھ شامل ہیں لیکن اس کے باوجود یہ ہماری قومی تاریخ کے اہم واقعات پر ایک ایسے راوی کی گواہی ہے جس نے طویل عرصہ ایوان ِ صدر میں گزارااوربعض بڑے لوگوں کو پاکستان کے ساتھ کھلواڑ کرتے دیکھا ۔ یہ گواہی چشم دید بھی ہے اور چشم کشا بھی۔ادبی انداز،دل چسپی اور روانی اس کی بڑی خوبیاں ہیں۔اس کے پچاس کے قریب ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں اور اس کا شمار اردو کی مقبول ترین کتابوں میں کیا جاتا ہے۔

تازہ ترین