دنیا کی بڑی جمہوریتوں میں جب انتخابی عمل شروع ہوتا ہے تو تمام دنیا کی نگاہیں وہاں مرکوز ہوتی ہیں۔ وہ امریکہ ہو یا برطانیہ، فرانس ہو یا انڈیا۔ کیونکہ ان ممالک کی حکومتوں کی تبدیلی دنیا بھر پر اپنے اثرات مرتب کرتی ہے۔ دنیا کے معاشی توازن میں ہلچل پیدا ہوتی ہے تعلقات اور وابستگیوں کو ریویو کیا جاتا ہے۔ عالمی سیاسی Trendحرکت کرتا ہے یہ سب سیاست اور معیشت میں معتبر اور بااثر ہونے کی بات ہے۔ پاکستان پر بھی دنیا کی نگاہیں ہیں۔ اسکی وجہ پاکستان کا کوئی معاشی وزن نہیں ہے۔ نہ ہی پاکستان کوئی عالمی سیاسی Playerہے بلکہ پاکستان کی عالم سیاست میں اسلئے اہمیت ہے کہ یہ ایک عالمی طاقتوں کا اپنی صلاحیتں دکھانے کا میدان پریکٹس ہے جہاں ہم آپس میں تقسیم ہوکے دوسری طاقتوں کے آلہ کار بن کے میدان جنگ سجاتے ہیں،اور اپنے اوپر ان کے آلات و ہتھیار بھی ٹیسٹ کرواتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں جمہوریت اور انتخابات کا کھیل چل رہا ہے اس میں بھی وہی لوگ منتخب ہوکے آگے آسکیں گے جو بیرونی پلیئرز کے لئے راستہ ہموار رکھیں ۔تاکہ یہ بیرونی پلیئر آئندہ پانچ سال اپنا Proxyکھیل جاری رکھ سکیں، خواہ یہ بیرونی پلیئر امریکہ سے ہوں یا ہندوستان سے، سعودی عرب سے ہوں یا کسی امیر خلیجی ریاست سے، دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام بیرونی کھلاڑیوں کی پریکٹس کے لئے پاکستان میں سے انہیں وہ تمام سہولتیں مل جاتی ہیں جن سے ان کی آزادانہ مداخلت کو کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ملتی۔ ایسا عمدہ میزبان کسی استعماری طاقت کو دنیا بھر میں چراغ ڈھونڈے نہیں مل سکتا۔ جو اپنی تباہی کو پھولوں کے ہار سمجھ کے قبول کرتا ہو۔ یہ جو ہمارے بیرونی پلیئر مہمان بازو تولے ہوئے منڈلاتے ہوئے آتے ہیں ان کی خدمت کے لئے ہم نے اداروں کے علاوہ سیاسی پارٹیاں بنا رکھی ہیں جو ان کے لئے آنکھیں بھی بچھاتی ہیں اور سرخ قالین بھی، اور سب کی توجہ ہماری جانب اسلئے بھی ہے کہ ہم اس بیرونی پلیئرز کی مہمان نوازی کے نتیجے میں جس خطرناک کھیل میں مبتلا ہیں انہیں یہ بھی ڈر ہے کہ یہ سب کچھ کہیں دوسرے ممالک میں برآمد نہ ہونا شروع ہو جائے۔ یہ ٹارگٹ کلنگ، خودکش حملے، اغوا برائے تاوان، بھتہ، قبضہ مافیا وغیرہ ایسے خطرناک مظاہر ہیں جن سے دنیا ڈرتی بھی ہے اور پھر سیاست کے رجحان کو کنٹرول کرکے اپنے مقاصد کا حصول کرتی ہے ایسے لوگ جو بنیادی اور اصل ایشوز پر بات نہ کرتے ہوں بلکہ معاملات کو سطحی انداز میں ایڈریس کرتے ہوں انہیں ہر طرح کی سیاست گری کی چھوٹ ہے جلسے کریں یا جلوس، دھرنے دیں یا ہڑتال کریں، مارچ کریں یا ٹائر جلائیں، کسی بیرونی پلیئر کو کوئی خطرہ نہیں یہ عناصرسیاسی مذہبی جماعتوں میں بھی موجود ہیں اور روائتی جمہوری پارٹیوں میں بھی، یہ سطحی سیاست کیا ہے اس پر غور کرنا چاہئے، آسان لفظوں میں یہ Cosmaticتبدیلی کی سیاست ہے جسے سیاسی اصطلاح میں Status quoکی سیاست کہتے ہیں۔ پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں دراصل کسی بڑی تبدیلی کی حامی نہیں ہیں۔ خواہ وہ جتنا مرضی تبدیلی کا نعرہ لگا رہی ہوں وہ اسلامی انقلاب لانا چاہتی ہوں یا جمہوری انقلاب، وہ روٹی کپڑے کا نعرہ لگانے والی ہوں یا قرآن و سنت کا، یہ قرآن و سنت کا نعرہ لگانے والے تو ویسے ہی سوسائٹی کو پچھلے گیئر Gairمیں رکھنا چاہتے ہیں۔ جس طرح گزشتہ روز میڈیا کے ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمن کہہ رہے تھے کہ ان کی پارٹی میں عورتیں اسلئے نہیں ہیں کیونکہ ان کے مرد اپنی عورتوں کے حقوق کی بہتر نگرانی اورنمائندگی کر سکتے ہیں۔ اور دوسری پارٹیوں کے مرد نا اہل ہیں جو اپنی عورتوں کی نمائندگی نہیں کرسکتے اور ان مردوں کی کمزوری کی وجہ سے عورتوں کو خود اپنے حقوق کے لئے آگے آنا پڑتا ہے آپ ان باتوں سے اپنی دیسی جمہوریت میں ان مذہبی گورووں کی ذہنی پستی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ جو دوسرے سونامی، روٹی کپڑا یا قائد اعظم کی وراثت کے دعویدار ہیں۔ وہ بھی کسی ایسی تبدیلی کا سازوسامان نہیں رکھتے جسکا گلا پھاڑ پھاڑ کے نعرہ لگاتے ہیں۔ مثلاً کرپشن کیسے ختم ہوسکتی ہے۔ جب ہم سوسائٹی موجود معاشی اونچ نیچ کو تسلیم ہی نہیں کرتے نہ ہی اس اونچ نیچ کو مٹانا چاہتے ہیں، معاشی انصاف کیسے لایا جاسکتا ہے جب ہم دولت کی غیر مساوی تقسیم کے خاتمے کیلئے زبان پر ایک لفظ بھی نہیں لاتے اس لئے سب مایا ہے جو جناح کے وارث ہونے کے دعویدار ہیں وہ خود جناح کے فرمودات کو نہیں مانتے جن سے ان کو اپنے من گھڑت نظریات اور ذاتی مفادات مطابقت نہ رکھتے ہوں۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ اگر قوم میں 65برس قبل کہی گئی باتوں پر اتفاق نہیں ہے اور ہم اپنے سامنے رونما ہونے والے ماضی قریب کی حفاظت نہیں۔ اور اسی کو توڑ مروڑ دیا ہے تو پھر اس بات پر تو اتفاق ہو ہی نہیں سکتا کہ پاکستان سیکولر ریاست ہونی چاہئے یا مذہبی۔ مجھے ایک دوست کی بات بڑی دلچسپ لگی کہ ٹھیک ہے جناح نے پاکستان بنایا لیکن یہ کہاں سے ہمارے یا پاکستان کے اوپر فرض ہو گیا ہے کہ اب 18کروڑ عوام اس طرح سے زندگی گزاریں جس طرح جناح چاہتے تھے۔ جب کہ جو جناح چاہتے تھے اس پر تو ہمارا اتفاق نہیں ہو رہا، اگر دنیا کے بے شمار ممالک کی مثالیں لیں جہاں ملکوں اور قوموں کی آزادی کے جو ہیروز تھے انہیں ان کی اس جدوجہد پر ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے لیکن لوگ اپنے سیاسی نظام اور رہن سہن کا تعین اپنی ضروریات اور وقت کے مطابق خود کرتے ہیں ورنہ تو آزادی کا مقصد ہی ختم ہوجاتا ہے۔ اور ہم نظریاتی اسیری میں بندھ جاتے ہیں۔ کیا امریکہ آج کولمس کے خوابوں کے مطابق رہ رہا ہے یا بنگلہ دیش شیخ مجیب کی سوچ کا ترجمان ہے یا انڈونیشیا سوئیکارنو کے بیان کردہ راستے پر گامزن ہے یا پھر کیا چین آج ماوٴزتنگ کا راستہ چھوڑنے کے بعد تنزلی کی طرف چلا گیا ہے، یا پھر روس لینن کے فلسفے پر زندہ ہے۔ عبدالوہاب جس کے نظریات کو سعودی فرمانرواوٴں نے اپنایا، وہ کوئی سعودی ریاست کا بانی نہیں تھا، زندہ قومیں خوابوں اور ان کی تعبیروں میں سے اپنا مستقبل متعین نہیں کرتیں، بلکہ حقیقت کی دنیا میں رہتی ہیں لیکن ہم تو کسی فرد یا کسی امر کو اتنا مقدس بنادیتے ہیں کہ کسی کو اس موضوع پر بات کرنے کی اجازت نہیں دیتے، دوسری طرف اختلاف کرنے پر آتے ہیں تو نفرت کی ایسی دیوار کھڑی کرتے ہیں کہ اختلاف رائے رکھنے والے کی زندگی کا حق بھی چھین لینا چاہتے ہیں۔ ہم ایسی آستین چڑھائے تنگ نظر قوم ہیں جو دوسروں کو ہر وقت آنکھیں پھاڑ کے دیکھ رہے ہوتے ہیں اور اپنے ہی تراشے ہوئے بت کی پوجا کرتے رہتے ہیں ہم تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے۔ تاریخ اپنے راستے اور ڈگر پر چلتی ہے ہماری مرضی اور خواہش پر نہیں۔ اسلئے اگر ہم تاریخ سے سیکھ کر چلیں گے تو تاریخ ہی میں اچھے الفاظ میں اور زیادہ عرصہ زندہ رہیں گے۔ وگر نہ وقت کی بے رحمی ہمیں ایسے ہی مٹا دے گی جیسے کہ ہم کبھی اس سیارے پر آئے ہی نہیں۔