• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال:آج کل یہ ایک معاشرتی مسئلہ بن چکا ہے کہ اولاد خاص طور پر بیٹیاں اپنے لیے رشتوں کا انتخاب کرلیتی ہیں ۔بعض اوقات بیٹیاں کسی کم حیثیت شخص کا انتخاب کرلیتی ہیں ،جس کے آگے بڑھنے اور ترقی کے کوئی امکانات بھی نہیں ہوتے اور والدین ہمیشہ خدشات وخطرات میں گھرے رہتے ہیں ۔اس طرح پسند کی شادی کے بارے میں شریعت کا کیاحکم ہے ؟،(سعد حسین ، کراچی)

جواب:ہمارے موجودہ معاشرتی مسائل میں تیزی سے بڑھتاہوا ایک مسئلہ پسند کی شادی کا بھی ہے ،ہرچند کہ شریعت میں اس کی اجازت موجود ہے ، لیکن فی زمانہ اس اجازت کے مفہوم کا تصور غلط پیش کیاجاتاہے اور اس اجازت کو لوگ اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے اور دوسروں کی عزتوں سے کھیلنے کے لیے استعمال کرتے ہیں ، جس کی شریعتِ مُطہرہ میں سختی سے ممانعت ہے ۔

شریعت اسلامیہ نے جس طرح مرد کو پسند کی شادی کا اختیار دیا، ویسے ہی عاقلہ بالغہ عورت کو بھی دیا ہے کہ وہ شادی کے لئے ایسے مرد کا انتخاب کرسکتی ہے جس سے نکاح شرعاً حرام اور ناجائز نہ ہو۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر نکاح کی نسبت عورت کی طرف کی گئی ہے، ارشاد ربانی ہے: ترجمہ:’’اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو، پس وہ اپنی عدت تمام کر چکیں تو اب انہیں اپنے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو،(سورۃ البقرہ:232)‘‘۔

فقہائے احناف کے موقف کے مطابق عاقلہ و بالغہ عورت اپنا نکاح خود کرسکتی ہے۔ احادیث مبارکہ سے بھی اس مسئلے کی وضاحت ہوتی ہے کہ عورتوں کی پسند کو ملحوظ رکھتے ہوئے اُن کا نکاح کیا جائے اور بالغہ عورت سے بغیر اس کی اجازت کے نکاح کرنے سے منع کیا گیا :حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں: نبی کریم ﷺنے فرمایا:ترجمہ:’’شوہر دیدہ عورت کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے اور نہ کنواری کا بغیر اس کی اجازت کے، صحابہؓ نے پوچھا: یارسول اللہﷺ!کنواری کی اجازت کس طرح معلوم ہوسکتی ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا: اس کا خاموش رہنا ہی اُس کی اجازت ہے،(صحیح بخاری:5136)‘‘۔

ایک عورت کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر ہوا، اس نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی، آپ ﷺنے اس کا نکاح فسخ کر دیا:ترجمہ:’’حضرت خنساء بنت خذام انصاریہؓ بیان کرتی ہیں: میرے والد نے ایک جگہ میرا نکاح کر دیا اور میں ثَیِّبہ (شوہر دیدہ)تھی اور مجھے وہ نکاح منظور نہ تھا، تو میں نے رسول اللہ ﷺسے اس کا ذکرکیا،تو آپ ﷺنے میرا نکاح فسخ کر دیا،(صحیح بخاری:5138)‘‘۔

اسلام نے نکاح میں مرد و عورت کو پسند اور ناپسند کا اختیار دیا ہے، مگر اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ پسند ایسی نہ ہو جس پر شریعت کی طرف سے ممانعت ہے۔اَحناف کے نزدیک عاقلہ و بالغہ عورت کا اپنی پسند سے کیا ہوا وہی نکاح منعقد ہو گا، جو اُس نے اپنے کفو میں کیا ہوکہ ُا س کے اولیاء کے لیے باعث ذلت و عار نہ ہو، اگر اس نے غیر کفو میں نکاح کیا تو وہ منعقد نہیں ہو گا۔

علامہ عثمان بن علی زیلعی ؒلکھتے ہیں :ترجمہ:’’ اور امام ابو حنیفہ اور ابو یوسف رحمہما اللہ تعالیٰ سے روایت ہے: غیر کفو میں نکاح جائز نہیں، اس لیے کہ بہت سے ایسے معاملات جو واقع ہو جانے کے بعد حل کرنا ممکن نہیںرہتے اور بعض متاخرین نے زمانے کے فساد کی وجہ سے اسی روایت پر فتویٰ دیا ہے،(تبیین الحقائق ،جلد2،ص:117)‘‘۔ علامہ زین الدین ابن نجیم لکھتے ہیں: ترجمہ:’’اگر عورت کا شوہر اس کے ہم پلہ ہو تو اس کا نکاح نافذ ہو جائے گا، ورنہ نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہو گا اور ’’معراج ‘‘ میں ’’فتاویٰ قاضی خان‘‘ وغیرہ کی طرف سے نسبت کرتے ہوئے ہے: ہمارے زمانے میں فتوے کے لئے یہی بات پسندیدہ ہے، (البحرالرائق ، جلد3، ص: 118)‘‘۔ البتہ اگر لڑکی کے اولیاء اس غیر کفو میں نکاح سے رضا مند ہوں، تو پھر وہ نکاح صحیح ہے،(فتاویٰ عالمگیری ،جلد1، ص:293)‘‘۔

مال میں کفاء ت کے یہ معنیٰ ہیں کہ مرد کے پاس اتنا مال ہو کہ مہر مُعجّل اور نفقہ دینے پر قادر ہو ۔اگر ملازمت نہ کرتاہو توایک ماہ کا نفقہ دینے پر قادر ہو ، ورنہ روز کی مزدوری اتنی ہو کہ عورت کے روز کے ضروری مصارف روز دے سکے ، اس کی ضرورت نہیں کہ مال میں اس کے برابر ہو ۔علامہ حسن بن منصور الاوزجندی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ ظاہر الروایہ کے مطابق مالداری اور ثروت میں ہم پلہ ہونے کا اعتبار نہیں کیا جائے گا ،لہٰذا جو شخص مہر اور نفقہ اداکرنے پر قادر ہو ،وہ ایسی خاتون کا کُفو ہے ،جو بہت زیادہ اموال کی مالک ہو اور جو مہر اور نفقہ پر قادر نہ ہو ، ظاہرالروایہ کے مطابق وہ فقیرہ کا بھی کفو نہیں ہوگا ، (فتاویٰ قاضی خان ،جلد1، ص:ـ171)‘‘۔

(جاری ہے)

تازہ ترین