اس جدید دور میں سائنس داں لوگوں کو سہولتیں فراہم کرنے کے لیے جدت سے بھر پور چیزیں ایجاد کررہے ہیں ۔اس ضمن میں سنگا پور کے ماہرین نے ایک سولر پینل تیار کیے ہیں ۔یہ دونوں اطراف سے بجلی بنانے اور سورج کی طرف منہ کرنے والے شمسی سیل ہماری توانائی کی طلب کو کافی حد تک پورا کرسکتے ہیں ،کیوں کہ اس طر ح یہ سیل تین گنا بجلی تیار کرسکتے ہیں ۔اگر چہ یہ دونوں طریقے پہلے بھی آزمائے گئے ہیں۔
سنگاپور میں شمسی توانائی کے تحقیقی انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ کارلوس روڈریگز گیلگوس اور ان کے ساتھیوں نے پینل کے دونوں جانب شمسی سیل لگائے ہیں جو ایک جانب تو 35 فی صد زائد بجلی بناتے ہیں تو دوسری جانب بجلی کی قیمت کو 16 فی صد تک کم کرسکتے ہیں۔روڈریگز کے مطابق شمسی سیل بنانے کا اولین مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ سورج سے زیادہ سے زیادہ توانائی حاصل کرسکے۔ اس وقت دنیا بھر میں شمسی سیل کے جو پینل لگائے گئے ہیں وہ بالکل جامد ہوتے ہیں ۔ اس طرح وہ صرف ایک سمت سے ہی توانائی جذب کرتے رہتے ہیں۔
اس طرح ان میں توانائی بنانے کی صلاحیت بہت محدود ہوتی ہے۔روڈریگز کے مطابق یہ نظام اتنا حساس ہے کہ ایک جانب تو سورج کی طرف رخ رکھتا ہے اور توانائی جمع کرتا رہتا ہے تو دوسری جانب زمین یا فرش سے منعکس ہونے والے روشنی سے بھی بجلی بناتا رہتا ہے۔ اس میں سورج کے ساتھ گھومنے والے دو ٹریکنگ سسٹم ہیں۔ ایک سنگل ایکسس ٹریکرز ہے جو تمام سولر سیلز کا رخ سورج کی جانب رکھتا ہے۔ یعنی یہ مشرق سے مغرب کی سمت گھومتا ہے۔ اسی کے ساتھ دوہرے محور کا ٹریکنگ سسٹم ہے جو پورے سال آسمان پر سورج کی موجودگی کے لحاظ سے خود کو بدلتا رہتا ہے۔
یہ ہر موسم میں اپنی سمت سورج کی جانب رکھتا ہے، کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ سردیوں میں سورج آسمان پر بلند اور گرمیوں میں کم بلندی (ایلی ویشن) پر ہوتا ہے۔اس کے بعد ماہرین نے ناسا کے اس ڈیٹا کا مطالعہ کیا ہے، جس میں زمین پر پڑنے والی توانائی اور ان سے بجلی بنانے والے مختلف نظاموں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ماہرین نے اندازہ لگا یا ہے کہ اگردونوں اطراف سے بجلی سمیٹنے والے سنگل ایکسس نظام کو لگایا جائے تو اس سے 35 فی صد سے زائد بجلی بن سکے گی اور اگر پورے سال کا ڈبل ایکسس ٹریکنگ سسٹم بھی لگادیا جائے تو اس سے مزید 40 فی صد بجلی تیار ہوسکے گی۔