• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترقّیاتی منصوبوں کے لیے جہاں ویژن، عزم اور معیاری منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے، وہیں ان کا بجٹ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے کہ اس کے بغیر باقی چیزیں بیش تر اوقات بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ جب کہیں کسی ترقّیاتی منصوبے کا اعلان ہوتا ہے، تو ساتھ ہی یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس منصوبے پر کتنی لاگت آئے گی۔ البتہ، عوام خاص طور پر کراچی کے باسیوں کے لیے یہ خبر باعثِ حیرت ہوگی کہ یہاں ایک ایسا شان دار اور بے مثال پراجیکٹ بھی کام یابی سے مکمل کرلیا گیا ہے، جس کے لیے علیٰحدہ سے کوئی بجٹ مختص کیا گیا اور نہ ہی پی سی وَن کے چکروں میں وقت اور پیسا برباد کیا گیا، بلکہ محض دست یاب وسائل، بہتر انتظامی سمجھ بوجھ کے ساتھ عمدہ سماجی تعلقات کا سہارا لیتے ہوئے اسے پایۂ تکمیل تک پہنچایا گیا۔ یہ تاریخی منصوبہ62 ایکڑ پر پھیلے’’ کِڈنی ہِل پارک‘‘ کا ہے۔ادارہ ترقّیاتِ کراچی نے 1964ء میں یہ جگہ پارک کے لیے مختص کی تھی۔1974 ء میں اس قطعۂ اراضی کو بلدیہ عظمیٰ، کراچی کے حوالے کیا گیا تاکہ یہاں ایک خُوب صُورت پارک کی تعمیر ہوسکے، مگر بدقسمتی سے منصوبے پر کئی وجوہ کے سبب کام شروع نہ ہوسکا۔ 

اُلٹا ہر گزرتے دن کے ساتھ تجاوزات میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ صرف اسی پر بس نہیں،یہ جگہ معاشرتی برائیوں کا بھی گڑھ بن گئی کہ اکثر چور، ڈاکو واردات کے بعد یہاں پناہ حاصل کرتے۔ اس کے علاوہ، اغواء برائے تاوان کے مغوی بھی یہاں چُھپائے جاتے۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ محلّہ بھی اِس جگہ سے خوف کھاتے تھے۔ 

نیز، کچھ قانونی پیچیدگیوں کے سبب عدالتِ عالیہ کی جانب سے یہاں ناظر مقرّر کردیا گیا تھا، جس کی وجہ سے کراچی کے شہریوں کا یہ پارک ایک طویل قانونی جنگ کی نذر ہوگیا۔تاہم، 2019ء میں میٹرو پولیٹن کمشنر، ڈاکٹر سیّد سیف الرحمٰن نے ذاتی دِل چسپی لیتے ہوئے اس معاملے کو عدالتِ عظمیٰ کے سامنے رکھا، جس پر عدالت نے کڈنی ہِل سے ہر طرح کی تجاوزات ختم کرکے وہاں پارک تعمیر کرنے کا حکم جاری کردیا۔ عدالت نے اپنے حکم نامے میں اس جگہ کو اصل حالت میں بحال کرنے اور پارک کی صُورت دینے کی ذمّے داری ڈاکٹر سیّد سیف الرحمٰن کو سونپی، جنہوں نے یہ ذمّے داری کچھ اِس طرح نبھائی کہ اُنہیں کام کرتے دیکھ کر گمان ہوتا کہ کڈنی ہِل صرف ایک پارک ہی نہیں، بلکہ ڈاکٹر صاحب کا عشق بھی ہے۔ اُنہوں نے جس طرح اس منصوبے میں صرف احکامات دینے اور نگرانی کرنے کی بجائے عملی طور پر حصّہ لیا، وہ عشق اور جنون کے بغیر ممکن ہی نہیں۔

کڈنی ہِل میں لوگوں نے کچّے اور پختہ گھروں کے علاوہ دُکانیں وغیرہ بھی تعمیر کر رکھی تھیں۔ وہاں کچھ اس طرح کے ہوٹلز یا مسافر خانے بھی بنائے گئے تھے، جن کی سیکڑوں چارپائیاں کرائے پر چلتی تھیں اور اُن افراد کا کسی کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔نیز، بھینسوں کے کئی باڑے قائم کردئیے گئے تھے۔ علاوہ ازیں، کچرا چُننے والوں نے اس مقام پر اسپتالوں، فیکٹریز کا فضلہ، تعمیراتی، کیمیائی اور دیگر کچرا لا کر جمع کر رکھا تھا، گویا کچرے کے پہاڑ کھڑے کردئیے گئے تھے۔ ڈاکٹر سیّد سیف الرحمٰن نے ایک منظّم پالیسی کے تحت اکتوبر 2019ء میں یہاں کام کا آغاز کروایا۔ سب سے پہلے سائٹ کا جغرافیائی مطالعہ کروایا گیا، جو ایک سائنسی عمل ہے۔ 

اس کے ذریعے یہاں موجود پانی، سیوریج کی لائنز، بجلی کے کھمبوں، ٹیلی فون کے تاروں اور دیگر یوٹیلیٹی سروسز فراہم کرنے والے اداروں کی تنصیبات کے بارے میں معلومات ملیں۔نیز، اس جغرافیائی مطالعے کے ذریعے یہاں موجود درختوں، پارک کے بلند ترین اور گہرے مقامات کے بارے میں بھی معلومات حاصل ہوئیں۔ پھر اسی اسٹڈی کی روشنی میں پارک کی تعمیر کا منصوبہ تیار کیا گیا۔پہلے مرحلے میں صفائی کے کام آغاز ہوا، جس کے دوران سیکڑوں ٹن غلاظت اور کچرا اُٹھوایا گیا۔ 

زمین ہم وار کروائی گئی، جھاڑیوں کا خاتمہ کیا گیا اور اس دوران کئی زہریلے جانوروں کا بھی سامنا رہا۔جگہ کی صفائی کے بعد پودے لگانے کا مرحلہ شروع ہوا، جس کے لیے ڈاکٹر سیّد سیف الرحمٰن نے اپنے سماجی تعلقات استعمال کرتے ہوئے مختلف شخصیات سے پودے اور درخت فراہم کرنے کی درخواست کی، جس پر شہر کی ممتاز شخصیات نے لبّیک کہتے ہوئے کئی ہزار خُوب صورت پودے اور درخت فراہم کیے۔ شجر کاری کا عمل تاحال جاری ہے۔

کڈنی ہِل پارک کی تعمیر بلاشبہ بہترین انتظامی صلاحیتوں کا نمونہ ہے، جہاں تادمِ تحریر مختلف اقسام کے 40 ہزار سے زاید درخت لگائے جاچُکے ہیں۔ پہاڑوں پہ درختوں کو اُگانا اور پھر اُن کی پرورش اور دیکھ بھال کرنا ایک انتہائی کٹھن، محنت طلب اور حیران کُن عمل ہے، مگر جب جذبے صادق ہوں، تو منزلیں خود بخود آسان ہوجاتی ہیں۔ آج پارک آنے والے انتہائی حیرانی کا اظہار کرتے ہیں کہ اس قدر کم وقت میں کڈنی ہل جیسا برائیوں اور غلاظت و تعفّن سے بَھرا مقام کس طرح ایک خُوب صورت، ہَرا بَھرا پارک بن گیا۔ بہت سے لوگوں کو یہ کہتے بھی سُنا گیا کہ’’ کڈنی ہل کی تعمیر تو جیسے کوئی جادوئی عمل، طلسماتی کام ہے۔‘‘ میئر کراچی، وسیم اختر نے بھی کڈنی ہِل پارک کا مختلف مواقع پر دَورہ کیا اور یہاں لگائے گئے پودوں کو دیکھ کر اطمینان کا اظہار کیا۔ اُنھوں نے منصوبے کو مزید بہتر بنانے کے لیے بعض ضروری ہدایات بھی جاری کیں، جن پر فوری عمل درآمد کیا گیا۔

کِڈنی ہل پارک میں جو درخت اور پودے لگائے گئے ہیں، وہ47 سے زاید اقسام کے ہیں۔نیز، اِس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ پودے مقامی اور پھل دار ہوں۔ ان میں کیلا، ناریل، امرود، تربوز، خربوزہ، شہتوت، آم، انجیر، پپیتا، املی، جنگل جلیبی، بیر، لیموں، گریپ فروٹ، چیکو، سورج مُکھی، گُلِ مہر، پیپل، بڑ، توتا پری، الوسٹونیا، رین ٹری، کریزیا، ٹالی، ربر پلانٹ، ارجن، لیجسٹونیا، بوگن ویلا، مورنگا اور دیگر شامل ہیں۔اتنی بڑی تعداد میں درخت لگائے جانے سے بجا طور پر ماحولیات پر بہت ہی اہم اور مثبت اثرات مرتّب ہوں گے۔ اُمید ہے کہ کڈنی ہِل درختوں کی بہتات کے سبب آنے والے دنوں میں کراچی کے لیے ایک’’ آکسیجن ٹینک‘‘ ثابت ہوگا۔ 

کیکر کے درختوں کو کاٹ چھانٹ کے بعد چھتری کی شکل دی گئی ہے۔ پارک میں دو واکنگ ٹریل بھی بنائے گئے ہیں، ایک کا نام علاقے کے حساب سے’’ کوکن ٹریل‘‘ رکھا گیا ہے، جب کہ دوسرے کا نام،’’ دھورا جی ٹریل‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ، یہاں 12 مختلف ٹریلس بنائی گئی ہیں، جن کے درمیان ہر طرح کی رکاوٹیں دور کی گئیں، درختوں کو خُوب صُورت انداز میں تراش کر راستے بنائے گئے اور اُن راستوں کو پاکستان کے پہاڑوں، دریاؤں، جھیلوں، درختوں، پھولوں، جنگلات، نیشنل پارکس اور ریگستانوں کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ یہ12 ٹریلز ایک دوسرے سے منسلک ہیں، جیسے نانگا پربت، سیف الملوک، قراقرم، مینگروز، راکا پوشی، جیسمین، لال سوہارنا، ہنگول، املتاس، سُکھ چین اور چھانگا مانگا ٹریل۔

کڈنی ہِل پارک میں شہر کا سب سے اونچا مقام بھی واقع ہے، جس کی بلندی 219فِٹ ہے۔ یہاں سے شہر کا حَسین نظارہ کیا جا سکتا ہے، بالخصوص شام کے بعد، جب رات اور دن کا ملاپ ہونے کے قریب ہوتا ہے، اُس وقت تو اس مقام سے شہر کو دیکھنا انتہائی خُوب صُورت معلوم ہوتا ہے اور زبان بے اختیار کہہ اُٹھتی ہے کہ’’ واقعی کراچی روشنیوں کا شہر ہے۔‘‘کڈنی ہِل کے اس اونچے مقام پر ڈاکٹر سیّد سیف الرحمٰن کی قیادت میں 25نومبر 2019ء کو 12x18 اسکوائر فِٹ کا قومی پرچم بھی لہرایا گیا، جو شہر کے دُور دراز حصّوں سے بھی لہراتا ہوا نظر آتا ہے۔ 

یہ قومی پرچم، بلدیہ عظمیٰ کراچی کے محکمۂ فائر بریگیڈ کی کوششوں کی بدولت لہرایا گیا۔ کورونا وائرس کے باعث جہاں دنیا بھر میں ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف سے اظہارِ یک جہتی کیا گیا، وہیں کڈنی ہِل پارک میں بھی اسی اونچے مقام پر4مئی 2020ء کو سفید پرچم لہرا کر کورونا وائرس کے خلاف جنگ لڑنے والے مسیحاؤں کو خراجِ تحسین پیش گیا۔ چوں کہ کڈنی ہِل شہر کے سب سے بلند مقام پر واقع ہے، اِس لیے یہاں آنے والوں کو شہر کے مقابلے میں درجۂ حرارت میں بھی کچھ کمی محسوس ہوتی ہے۔ ماحولیاتی نظام (Ecosystem)میں بہتری کے آثار ہر اس شخص کو صاف نظر آتے ہیں، جو ایک بار بھی کڈنی ہل کا رُخ کرلے۔

ماحولیاتی تغیّرات آج کی دنیا کا سب سے بڑا چیلنج ہے اور خاص طور پر پاکستان کو اس سے مقابلہ کرنے کے لیے ماحول کو حد درجہ بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ ماحول بہتر کرنے کا ایک اہم عمل شجر کاری بھی ہے، جس کا ثبوت کڈنی ہِل میں ہزاروں درخت لگا کر دیا گیا۔ کراچی میں بارشوں کی کمی بھی ایک بہت اہم مسئلہ ہے۔ مُلک کے دیگر شہروں کی نسبت کراچی میں بہت کم بارش ہوتی ہے۔ لہٰذا، ان حالات میں کڈنی ہِل کی سنگلاخ چٹانوں کا سینہ چاک کر کے وہاں پودے لگانا کوئی معمولی کام نہیں، اس کام میں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال رہی، جس کے باعث کڈنی ہِل کی چٹانیں اور پتھریلی زمین بھی اب ہری بھری نظر آتی ہے۔ 

کڈنی ہِل کے یہ اشجار ماحولیاتی تبدیلیوں کو مثبت زاوئیے پر لانے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں اور مستقبل قریب میں مزید فعال کردار ادا کریں گے۔ یہاں وہ پرندے بھی آنے لگے ہیں، جنہوں نے پہلے یہاں موجود گندگی اور غلاظت کے سبب کبھی ادھر دیکھنا بھی پسند نہیں کیا تھا۔ مگر اب کبوتر، توتے، الّو، کوئل، مینا، فاختہ اور ہدہد تک نے یہاں ڈیرے ڈال لیے ہیں، جنہیں کڈنی پارک آنے والے باآسانی مختلف مقامات اور درختوں پر جھنڈ کی صُورت بیٹھا دیکھ سکتے ہیں۔ ان پرندوں کی حسین آوازیں اور چہچہاہٹ یہاں آنے والوں پر عجیب سا سحر طاری کردیتی ہے۔

پارک میں دو خُوب صُورت تالاب بھی بنائے گئے ہیں، جن کے گرد مختلف پرندوں کا اُترنا، پرواز کرنا انتہائی دِل فریب منظر پیش کرتا ہے، جب کہ ان تالابوں میں کنول کے پھول بھی ڈالے گئے ہیں، جو تیز ہواؤں کے جھونکوں سے تالاب میں ایک کونے سے دوسرے کونے تک سفر کرتے ہوئے یہاں آنے والوں کو اپنی جانب متوجّہ کرتے ہیں۔ کڈنی ہِل، بلدیہ عظمیٰ کراچی کو ریونیو فراہم کرنے کے لیے بھی انتہائی مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔اس ضمن میں ڈاکٹر سیّد سیف الرحمٰن کا کہنا ہے کہ’’ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ موقع دیا ہے کہ ہم اس جگہ کو آباد کریں۔ اسے شہریوں کے لیے ایک خُوب صورت باغ میں تبدیل کردیں، یہاں پودے اور درخت لگائیں تاکہ شہریوں کو ایک بہترین تفریحی مقام میّسر آ سکے۔

کراچی میں اس سے حسین جگہ اور کوئی نہیں ، کیوں کہ پہاڑ تو اور بھی ہیں، لیکن کسی پہاڑ سے شہر کا اتنا حسین نظارہ نہیں ہوسکتا۔ یہاں سے ایئر پورٹ، نیشنل ریفائنری، کورنگی ایکسپریس وے، شاہ راہِ فیصل، پی اے ایف، بیس مسرور اور ملیر ندی بھی نظر آتی ہے۔ رات میں تو ایسا لگتا ہے، گویا روشنیوں کا دریا بہہ رہا ہے۔ یہ پارک عنقریب کراچی کا زیور کہلائے گا کہ جب پورے پاکستان ہی سے نہیں، دنیا بھر سے سیّاح اس مقام کو دیکھنے آئیں گے۔ اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ کڈنی ہِل کی تعمیر میں بلدیہ عظمیٰ کراچی کا کوئی علیٰحدہ بجٹ خرچ نہ ہو، بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ پارک کی تعمیر میں سماجی تعلقات استعمال کرتے ہوئے مخیّر افراد کے تعاون کو مدِنظر رکھا گیا۔ 

یہاں بلدیہ عظمیٰ کے محکمۂ میونسپل سروسز کے ٹرک، اسکیویٹر اور دیگر مشینیز استعمال کی گئیں۔ بلدیہ عظمیٰ کے مالیوں نے یہاں پودوں کی دیکھ بھال اور درختوں کی کاٹ چھانٹ کی اور یہاں جو درخت لگائے گئے ، وہ بھی بلدیہ کی نرسریز سے لیے گئے۔ پودوں کو دیا جانے والا پانی بھی سیوریج کے پانی کو صاف کرکے استعمال کیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے کڈنی ہل میں70x40 سائز کا ایک بڑا سیوریج ٹینک بنایا گیا ہے، جہاں سے بلدیہ عظمیٰ کے محکمۂ باغات کے ٹرکس پانی لے کر پودوں اور درختوں کو دیں گے۔ روشنی کے لیے بجلی کا انتظام بھی کیا جا رہا ہے، اس حوالے سے متعلقہ ادارے کے ساتھ مستقل رابطہ ہے اور جلد ہی یہاں روشنی کا انتہائی مناسب انتظام کردیا جائے گا۔‘‘

کڈنی ہل میں ایک مسجد بھی موجود ہے،جسے مسجد کمیٹی کے اراکین اور اہلِ محلّہ کی رضا مندی سے پارک کے سامنے اور شروع کے حصّے میں گیٹ نمبر 3 کے ساتھ منتقل کردیا گیا ۔ اس معاملے میں بھی انتہائی دُور اندیشی کے ساتھ اہم کردار ادا کیا اور یوں ایک بہت ہی حسّاس مذہبی معاملہ انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ حل کرلیا گیا، جس پر شیخ الاسلام، مفتی محمّد تقی عثمانی نے بھی ڈاکٹر صاحب کی نہ صرف تعریف کی بلکہ وہ مسجد کا سنگِ بنیاد بھی رکھنے آئے۔ کڈنی ہل میں قدیم زمانے سے ایک مزار بھی موجود ہے، حتیٰ الامکان کوشش کی گئی ہے کہ زائرین کو مزار تک پہنچنے میں کسی قسم کی تکلیف نہ ہونے پائے۔ 

کڈنی ہِل کے سب سے اونچے مقام پر نمایاں الفاظ میں’’ KIDNEY HILL‘‘ کا بورڈ بھی نصب کیا گیا ہے، جس پر خُوب صورت رنگین بلب لگائے گئے ہیں، یہ بورڈ اندھیرا ہونے کے بعد دُور ہی سے دیکھنے والوں کی توجّہ اپنی جانب مبذول کرواتا ہے۔ پارک میں جو دروازے لگائے گئے ہیں، وہ چڑیا گھر کی تزئین وآرائش کے وقت نکالے گئے تھے۔ بلاشبہ، بلدیہ عظمیٰ کراچی کے افسران اور ملازمین نے دن رات محنت کے بعد کراچی کے شہریوں کو کڈنی ہل پارک کی صُورت ایک اَن مول تحفہ دیا ہے۔

جواں ہمّت، پُرعزم افسر

ڈاکٹر سیّد سیف الرحمٰن، پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے افسر ہیں۔ راول پنڈی میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا۔

ہیلتھ پالیسی اینڈ مینجمنٹ (HPM) میں ایم ایس سی اور پھر کولمبیا یونی ورسٹی، امریکا سے ماسٹرز آف پبلک ایڈمنسٹریشن کی سند حاصل کی۔ورلڈ بینک سے بھی وابستہ رہے۔’’ ضلعی انتظامیہ کے کردار اور ضمنی حفاظتی ٹیکوں کی سرگرمیوں (SIA)کے خصوصی حوالے کے ساتھ کراچی ڈویژن میں پولیو مہم 2005-2014‘‘ کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر جامعہ کراچی سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ 

مختلف سرکاری عُہدوں پر تعیّنات رہے۔ ژوب ڈویژن (بلوچستان) کے کمشنر اور صوبائی رابطہ کار برائے ایمرجینسی آپریشن سینٹر (EOC) برائے انسدادِ پولیو مہم اور ای پی آئی پروگرام کی حیثیت سے شان دار خدمات انجام دیں۔ وہ پاکستان میں اِس موضوع پر پہلے اور واحدپی ایچ ڈی ہیں۔ ان دنوں بلدیہ عظمیٰ، کراچی میں میٹرو پولیٹن کمشنر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

پارک کا عجیب سا نام…!!

کڈنی ہِل پارک کراچی کے معروف علاقے، دھوراجی کالونی میں رنگون والا ہال کے عقب میں واقع ہے۔ اسے’’ احمد علی پارک‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ احمد علی کراچی شہر کے معروف ٹاؤن پلانررہ چُکے ہیں۔تاہم، چوں کہ کِڈنی ہِل انسانی کِڈنی (گردے) کی شکل سے مماثلت رکھتا ہے، اس لیے یہ مقام’’ کڈنی ہِل‘‘ کے نام سے مشہور ہوگیا۔

تازہ ترین