اپنے پرائے سبھی ناراض ہونے لگے ہیں، کسی کو اپنے مطالبات پورے نہ ہونے کا گلہ ہے تو کوئی ترقیاتی فنڈز نہ ملنے کے باعث پائوں پیچھے کھسکا رہا ہے اور کوئی اپنی ہی حکومت کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے ٹیم کی اہلیت پہ سوال اٹھا رہا ہے۔
غرض ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی مشق شروع ہو چکی ہے جو عموماً اتحادی حکومتوں کا خاصا ہوتی ہے، اب ہر کوئی سب پہ بھاری آصف زرداری جیسا گھاگ سیاستدان تو ہوتا نہیں جس نے ایک کڑے وقت میں مخلوط حکومت کا بغیر کسی سرپرستی کے انتہائی کامیاب تجربہ کر کے اپنی سیاسی بصیرت کا لوہا منوایا۔
عمران خان یقیناً اس حوالے سے خوش قسمت ترین شخص ہیں کہ طاقت کے تمام مراکز کی انہیں مکمل سپورٹ حاصل ہے بلکہ ہم آہنگی کی ایسی نادر مثال ملکی تاریخ میں شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتی ہے جب جمہوری حکومت پہ بوجھ بننے والے خود حکومت کا بوجھ بھی برضا و رغبت اٹھا رہے ہوں، ایک صفحے کی ایسی دیدہ زیب کتاب حکومت میں بھی اگر کچھ سرسراہٹ ہونے لگے تو یقیناً قصور اس کتاب کے مالک کا ہی ہے جو تحفے میں ملی اس بیش قیمت کتاب کو بھی سنبھال نہیں پا رہا۔
دوسری طرف حکومت شاید ابھی اس خوش فہمی کا شکار ہے کہ جیسے گزشتہ سالانہ بجٹ کے موقع پہ بھی اتحادیوں نے گلے شکوے اور تحفظات ظاہر کیے تھے لیکن کوئی ادھر ادھر نہیں ہوا تھا حالانکہ حکومت کو خود ہاتھ پائوں بھی نہیں مارنا پڑے تھے۔
تب صورتحال یہ تھی کہ بجٹ کی منظوری سے قبل مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے اپنی رہائشگاہ پہ تحریک انصاف کی حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں اور آزاد ارکان کو کھانے پہ بلایا تو حکومتی صفوں میں اس حد تک تشویش پیدا ہوئی کہ ان کے خلاف کوئی کھچڑی نہ پک رہی ہو تاہم حکومت نے کسی اتحادی سے رابطے کی ضرورت تک محسوس نہ کی کہ سنبھالنے والے خود ہی سنبھال لیں گے اور پھر یہی ہوا کہ کھانے میں شریک رہنمائوں کو فون آنے لگے اور وہ وضاحتیں دیتے رہے کہ وہ تو صرف چوہدری برادران کی میزبانی سے لطف اندوز ہونے آئے ہیں۔
اسی دعوت میں شریک بلوچستان سے آزاد رکن اسلام بھوتانی نے تب اس مجلس کے شرکاء کو تاریخی جملہ کہا تھا جب حکومت کے بعض اتحادیوں نے گلہ کیا کہ وزیر اعظم صاحب انہیں کسی اہم معاملے میں بھی اعتماد میں نہیں لیتے اور انہیں ان میں سے کسی کی ناراضی کی بھی کوئی پروا نہیں ہوتی تو تب اسلم بھوتانی نے کہا تھا کہ جناب جب ہم سب کو پتا ہے کہ ہمیں خان صاحب کے ساتھ کس نے لاکھڑا کیا ہے تو خان صاحب بھی یہ حقیقت بخوبی جانتے ہیں اس لیے وہ ہمارے ناز نخرے کیوں اٹھائیں۔
انہیں پتا ہے جنہوں نے ہمیں ان کے ساتھ کھڑا کیا ہے ہمیں سنبھالنے کی ذمہ داری بھی ان کی ہے تو وہ کیوں تردد کریں، اسلم بھوتانی کی بیان کردہ اس تلخ حقیقت کو سب نے قبول کرتے چوہدری برادران کی ضیافت کا لطف اٹھایا اور ہنسی خوشی خان صاحب کی حکومت کے بجٹ کی منظوری میں ووٹ ڈالے تاہم تب بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل نے اس ووٹ کے عوض اپنے حلقے کیلئے جس قدر ممکن تھا ترقیاتی فنڈز ضرور حاصل کر لیے۔
اب ایک سال بعد پھر وہی موقع ہے لیکن اب کی بار سردار اختر مینگل نے محض وفاقی حکومت سے علیحدگی کی دھمکی دینے کے اس پہ عملدرآمد بھی کر دیا ہے، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اب معاملات پہلے جیسے نہیں رہے، اسی لیے وفاقی حکومت نے انہیں منانے کیلئے ملاقاتیں شروع کر دی ہیں۔
جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ شاہ زین بگٹی نے بھی اپنے مطالبات پہ ایک ہفتے میں عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں حکومت سے علیحدگی کا الٹی میٹم دے دیا ہے ، حکومتی اتحادی مسلم لیگ ق صرف مروت اور سیاسی رواداری میں اب حکومت کے ساتھ ہے ورنہ حکومتی معاملات میں اس کی مشاورت کس حد تک شامل ہے اس کا اظہار چوہدری پرویز الٰہی بخوبی کر چکے ہیں۔
ایم کیو ایم پاکستان اپنے ماضی سے جان چھڑانے کے لیے بہ امر مجبوری حکومتی کشتی میں سوار ہے لیکن اس وقت اس کی سربراہی کرنے والے خالد مقبول صدیقی رواں سال کے آغاز میں ہی اپنے مطالبات پورے نہ ہونے پہ وفاقی کابینہ سے الگ ہو چکے ہیں جبکہ ایک عارضی مفاہمت کے طور پہ سید امین الحق کو وفاقی کابینہ میں بٹھایا گیا ہے تاہم مطالبات وہیں کے وہیں ہیں۔
بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے سربراہ جام کمال بھی حالیہ دنوں میں سخت تحفظات ظاہر کر چکے ہیں، حکومتی اتحادی جی ڈی اے بھی سخت تحفظات کے ساتھ حکومت کو سہارا دیے ہوئے ہے، دو آزاد ارکان اسلم بھوتانی اور سید علی نواز شاہ آئے روز اپنے گلے بیان کر رہے ہوتے ہیں۔ اختر مینگل کی علیحدگی کے بعد وفاقی حکومت کی اکثریت صرف 9ووٹوں تک محدود ہو چکی ہے جبکہ موجودہ اتحادی ارکان کی تعداد 24ہے۔
اس صورتحال میں جب وفاقی وزراء ایک دوسرے سے پنجہ آزما ہوں، محض 9ووٹوں کی اکثریت کو زیادہ دیر تک برقرار رکھنا مشکل دکھائی دیتا ہے، پھر اگر جہانگیر ترین کا جہاز بھی دستیاب نہ ہو تو یہ کام مشکل سے بھی بڑھ کر خاصا مشکل ہو جاتا ہے۔