حذیفہ احمد
متحدہ عرب امارات کی جانب سے مریخ پر بھیجا جانے والا عرب خلا ئی مشن اگلے ماہ تک پرواز کی تیاری مکمل کر لے گا اور چند ہفتوں میں خلائی جہاز میں ایندھن بھرنے کا کام شروع ہو جائے گا ۔ماہرین کے مطابق اس خلائی جہاز کو مریخ اور اس کے مدار تک پہنچنے میں 308ملین میل کا سفر طے کرنے میں سات ماہ کا عرصہ لگے گا ۔جہاں سے یہ خلائی جہازمریخ اور اس کی آب وہوا اور ماحول کے بارے میں اہم معلومات بھیجے گا ۔مریخ کی آب و ہوا اور ماحول کے متعلق مناسب ڈیٹا جمع کرنے کے لیے یہ روبوٹک خلائی جہاز پورے687 دن تک مریخ کے گرد چکر لگائے گا۔مریخ کے مدار میں ایک چکر لگانے میں خلائی جہاز کو 55 گھنٹے لگیں گے۔
اس مشن کی رہنمائی سارہ الامیری کررہی ہیں ۔اس بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے نوجوانوں کو خلائی انجینئر نگ کے شعبے میں اپنے کیرئیر کا آغاز کرنے میں مدد ملے گی۔ اس روبوٹک خلائی جہاز کو ماہرین کی جانب سے ’’عمل ‘‘کا نام دیا گیا ہے ۔یہ خلائی جہازرواں ماہ میں ایک دور دراز جاپانی جزیرے ،تانا گشیما سے خلا میں چھوڑا جائے گا۔ ماہرین کے مطابق ایک جاپانی راکٹ سے چلنے والے اس خلائی جہاز میں تین طر ح کے سینسر نصب ہیں جن کا کام مریخ کے پے چیدہ ماحول کا جائزہ لینا ہے ۔اس میں ہائی ریزولیوشن ملٹی بینڈ کیمرہ بھی شامل ہے جو اس سیارے کی دھول اور اوزون کی پیمائش کرے گا ،دوسرا انفراریڈ اسپیکٹو میٹر ہے جو سیارے کی فضا کی پیمائش کرے گا اور تیسرا اسپیکٹو میٹر آکسیجن اور ہائیڈروجن کی سطح کی پیمائش کرے گا۔
الامیری کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کا ایک اہم مرکزیہ جاننا ہے کہ پانی کے لیے ضروری دو عناصر کس طر ح سیارے سے ختم ہورہے ہیں۔
برطانیہ کے سائنس میوزیم گروپ کے ڈائریکٹر، سر ای این بلیچفورڈ نے نشاندہی کی ہے کہ 'اب تک بہت سارے خلائی مشنز نے ارضیات پر توجہ مرکوز کی ہے لیکن یہ خلائی جہاز مریخ کی آب و ہوا کی سب سے جامع تصاویر اور ڈیٹا مہیا کرے گا۔متحدہ عرب امارات میں خلائی سفر کا ٹریک ریکارڈ موجود ہے۔ اس نے اس سے قبل مصنوعی سیارہ کو زمین کے مدار میں اور اپنے ایک خلاباز کو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر بھیجا ہوا ہے۔اس خلائی جہاز کو لوراڈو میں بنایا گیا اور پھر جاپان بھیجا گیا۔
برطانیہ کی اوپن یونیورسٹی میں سیاروں اور خلائی سائنس کی پروفیسر مونیکا گریڈی کا کہنا ہے کہ مریخ کے اس مشن سے خلائی صنعت میں ایک بڑی تبدیلی آئے گی جو دنیا کی بڑی طاقتوں کے زیر اثر ہے۔یہ مریخ کی کھوج کے لیے ایک بہترین پیش قدمی ہے، کیوں کہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یورپی خلائی ایجنسی اور ناسا کے علاوہ دوسری قومیں بھی وہاں جا سکتی ہیں۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ ہم اُمید کرتے ہیں کہ یہ مشن کامیاب ہو گا، کیوں کہ اب تک مریخ کے مشن کے بہت سارے پلانز ناکام ہوچکے ہیں۔