تحریر: نرجس ملک
ماڈلز : آمنہ، وفا
ملبوسات:شیخ عمران کلیکشن
آرایش: دیوا بیوٹی سیلون
عکّاسی: عرفان نجمی
لے آؤٹ: نوید رشید
عنبر شمیم کا ایک قطعہ ہے ؎ ’’گلشنِ انسانیت میں تازگی کا نام ہے.....رشتہ عشق و وفا میں زندگی کا نام ہے.....وہ کہ جس کے دل میں کوئی میل ہوتی ہی نہیں.....عید ایک بچّے کے چہرے پر ہنسی کا نام ہے۔‘‘ بلاشبہ عید کے خیال، تصوّر ہی سے چاروں اوَر مسّرت و انبساط، فرحت و شادمانی اور ہنسی خوشی کی اِک سَت رنگی قوسِ قزح سی بکھرنے لگتی ہے۔ مگر.....اُف یہ سال 2020ء کی عیدیں..... کورونا کورونا کا رونا جس طرح ہر رنگ، روپ، جذبے، احساس، خوشی، مسرت پر غالب آیا ہے، ’’عیدین‘‘ کا بھی سارا رنگ رَس جیسے نچوڑ لے گیا ہے۔ کچھ بھی تو پہلے جیسا نہیں رہ گیا۔
میٹھی عید میں کوئی شیرینی و حلاوت محسوس ہوئی تھی، نہ نمکین عید ہی میں کوئی سلونا پَن و ملاحت ہے۔ بس، جیسے کچھ کام ازل سے ہوتے چلے آرہے ہیں۔ سورج کا طلوع و غروب ہونا، دن کے بعد رات کا آنا، یکم سے چودہویں تک چاند کا، کانچ کی ٹوٹی چُوڑی سے خُوب صُورت کنگن بن جانے تک کا عمل، تاروں کا چمکنا، چاندنی کا چٹکنا، پھول، کلیوں کا مہکنا، رنگوں، خوشبوؤں کا بکھرنا۔ جیسے روز مرّہ کے کچھ ضروری کام ہوتے ہیں۔ نہانا دھونا، کپڑے بدلنا، کھانا پینا، کہیں آنا جانا، اسکول، کالج، دفتر میں حاضری لگانا، کسی خودکار مشین کا آن، آف ہونا، گھڑی کی سوئیوں کا ٹِک ٹِک کرتے اپنا چکّر مکمل کرنا۔ عیدوں کا آنا جانا بھی بس اب ایسی ہی کسی روٹین کی ایکٹیوٹی کی طرح ہو کے رہ گیا ہے۔
حالاں کہ کون سی پُرانی بات ہے، پچھلے برس تک بھی آمدِ عید کا انتظار اور اہتمام و انصرام کے انداز یک سر جداگانہ تھے، مگر چند ماہ میں کیا سے کیا ہوگیا۔ ایک نادیدہ، مہین سے وائرس نے زندگی کی ہر آس، مٹھاس میں کیسے زہر سا گھول دیا ہے۔ شہزاد قیس کی وہ نظم ہے ناں ؎ ’’دل، روح تک اُداس ہے اور چاند رات ہے.....اِک بدترین یاس ہے اور چاند رات ہے.....وہ آخری ٹرین میں بیٹھا ہوا ہوگا.....پر یہ تو بس قیاس ہے، اور چاند رات ہے.....دل کا سُکوں، جگر کا سُکوں، ذہن کا سُکوں.....سب کچھ تو اُس کے پاس ہے اور چاند رات ہے.....بادل نے تشنگی کو کئی چند کردیا.....اوپر سے مَن کی پیاس ہے اور چاند رات ہے.....ٹھنڈی ہوا کا پہرا ہے، یادوں کے شہر میں .....ہر زخم بے لباس ہے اور چاند رات ہے.....اشکوں نے صف بنائی ہے، وہ بھی بہت طویل.....اِک سال کی بھڑاس ہے اور چاند رات ہے۔‘‘ امِسال چاند راتیں کیا، تو ایّامِ عید کیا، خانہ محصوری، خود اختیار کردہ نظر بندی، قیدِ تنہائی اور سماجی روابط میں فاصلوں نے جیسے ہر ایک رُوپ رنگ، الفت و مسّرت کو گہنا کے رکھ دیا ہے۔
حالاں کہ عیدِ قرباں تو وہ واحد تہوار ہے کہ جس میں مالکِ کون و مکاں، اللہ ربّ العزت کی ایک نہیں، دو دو مخلوقات باہم شِیر و شکر، جذبہ ایثآر و قربانی سے سرشار و لب ریز ہوکے یوں شریک ہوتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ’’عید الاضحی کے دن، اللہ کے نزدیک اولادِ آدم کا کوئی عمل خون بہانے (یعنی قربانی کرنے)سے زیادہ پسندیدہ نہیں۔اور قیامت کے دن وہ ذبح کیا ہوا جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کُھروں کے ساتھ خود آئے گا۔ اور قربانی کا خون اس سے پہلے کہ زمین پر گرے، اللہ کے یہاں قبول ہوجاتا ہے۔ پس، تم قربانی کرکے اپنے دِلوں کو خوش کرو‘‘(ترمذی، ابن ماجہ)۔
اسی طرح عیدِ قرباں سے متعلق کچھ اور بھی فرامین مصطفیٰ ﷺ ہیں کہ ’’قربانی کرنے والے کو قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملتی ہے‘‘(ترمذی)۔ ’’جس نے خوش دلی سے طلبِ ثواب ہوکر قربانی کی، وہ آتشِ جہنم سے حجاب (روک) پالے گا‘‘(المعجم الکبیر)۔ ’’جس شخص میں قربانی کی وسعت ہو اور وہ پھر بھی نہ کرے، تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے‘‘ (ابنِ ماجہ)۔ قربانی کے جانور کو چند روز پہلے سے پالنا افضل قرار دیا گیا تاکہ اُس سے محبت ہو اور محبوب جانور کو قربان کرنے سے زیادہ ثواب ملے۔
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ہدایت فرمائی کہ ’’اے فاطمہ!اپنی قربانی کے پاس موجود رہو، کیوں کہ اُس کے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی تمہارے سارے گناہ معاف کردیئے جائیں گے‘‘ (السنن الکبر للبہیقی) ۔ تو ذرا سوچیں اُمتِ مسلمہ کی کیسی بدقسمتی ہے کہ امِسال ایّام حج و عید الاضحیٰ ایسے وبائی دَور میں آئے ہیں کہ نہ پاکستانیوں کو سعادتِ حج نصیب ہوسکی اور نہ ہی کُھل کر فریضۂ قربانی کی ادائی ممکن ہے۔ غربت، بے روزگاری، منہگائی، بھوک و افلاس نے نہ جانے کتنوں کو عیدین کی حقیقی خوشی سے محروم کردیا ہے، تو پھر ماضی کی تیوہاروں کی طرح نہ وہ میل ملاپ ہے، نہ وہ رونق میلہ۔
مسلم امّہ میں اجتماعیت کے فقدان کا صدمہ تو پہلے ہی سہا نہیں جاتا، اُس پر اس عالم گیر آفت نے تو اور بھی الگ الگ، جدا جدا کردیا ہے۔ وہ ہے ناں ؎ ’’میل دِلوں سے نفرتوں کی دھوئیے، تو عید ہے.....ہر کسی کے دُکھ میں شامل ہوئیے، تو عید ہے.....زیست میں رشتے کا ہونا تو ضروری ہے مگر.....زندگی رشتوں کے اندر بویئے، تو عید ہے‘‘۔ اب پتا نہیں، یہ کیسی عید، کیسا تہوار ہے کہ زیست میں جو رشتے موجود ہیں، اُن ہی سے ڈھنگ سے میل ملاقات ممکن نہیں۔ مگر یہ تو طے ہے کہ ’’یہ دن بھی بالآخر گزر جائیں گے‘‘۔
عیدالاضحی چند قدم کی مسافت پر ہے۔ بحیثیت مسلمان، صاحبِ استطاعت ہونے کی صُورت میں فریضۂ قربانی ادا کرکے اپنے باپ حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور اُن کے پیارے فرزندِ ارجمند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کو خراجِ تحسین و عقیدت پیش کرنا اور تہوارِ مسلم کی بھرپور خوشیاں منانا ہم سب پر لازم ہے، تو پھر خواہ حالات کیسے بھی ہوں، جس قدر بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرنی پڑیں، عید تو منائی ہی جائے گی۔ سو، ہماری جانب سے ’’عید اہتمام‘‘ بھی ضروری ٹھہرا۔
لہٰذا اس ’’عیدالاضحی اسپیشل بزم‘‘ اور اس خصوصی دُعا کے ساتھ عید کی مبارک باد پیشگی قبول فرمائیں ؎ آئو مل کرمانگیں دعائیں، ہم عید کے دن..... باقی رہے نہ کوئی بھی غم، عید کے دن.....ہر آنگن میں خوشیوں بھرا سورج اُترے.....اور چمکتا رہے ہر آنگن، عید کے دن۔