• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مطربہ شیخ

شبن میاں اور ان کا خاندان شکر گڑھ میں رہتے تھے، شبن میاں کا قد چھوٹا رہ گیا تھا، اسکول کے ساتھی اور محلے کے لڑکے ان کا مذاق اڑاتے، لیکن شبن میاں نے کبھی برا نہ مانا، بہت ذہین، ہنس مکھ اور ملنسار تھے، خوشحال گھرانہ تھا، اچھا کھاتے پیتے تھے، کباب اور گولہ گنڈا کھانے کے بہت شوقین تھے، پڑھائی میں اچھے تھے، ممبئی چلے گئے،وہاں سے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بن کر آئے، ان دنوں انڈیا میں چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی بہت مانگ تھی۔ حیدر آباد دکن میں بہت اچھی نوکری ملی۔

اماں ابا کو لے کر حیدرآباد دکن پہنچ گئے، ایک بڑے پر سکون گھر میں والدین کے ساتھ رہنے لگے۔اب اماں کو شبن میاں کے لئے دلہن کی تلاش ہوئی، چھوٹی سی پڑھی لکھی دلہن ملنی مشکل ہو گئی لیکن اماں ابا نے ہمت نہ ہاری اور اپنے فرمانبردار، کماؤ بیٹے کے لئے ایک چھوٹی سے دلہن ڈھونڈ کر ہی دم لیا۔خاندان کے علاوہ شکر گڑھ کا ہر جاننے والا ریل گاڑی میں سوار ہو کر حیدرآباد پہنچ گیا، سب نے شاندار ولیمہ کھایا، انواع اقسام کے کباب بنوائے گئے، برف لگی قلفیاں، قورمہ اور زردے پلاؤ۔ 

سب نے خوب تعریفیں کیں۔شبن میاں بہت خوش تھے، دلہن کے آنے سے زندگی مزید خوشگوار ہو گئی، دلہن نہ صرف خوبصورت بلکہ خوب سیرت بھی تھی۔ شبن میاں کی اماں تو واری صدقے جاتیں کہ اتنی سعادت مندبہو نصیب ہوئی ہے، عبادت گزار اور کھانے پکانے کی ماہر۔ شبن میاں کی آمدنی میں اضافہ ہو چکا تھا، ساتھ ان کے کھانے پینے کے شوق میں بھی، سو وہ ہر مہینے گھر کے باورچی خانے کے لئے کوئی نہ کوئی مشین لے آتے، کبھی خشک مسالہ جات پیسنے کی۔،کبھی قیمہ باریک کرنے کی،کبھی جوس والی ،کبھی سبزیاں کترنے والی۔ بقر عید کامہینہ آیا تو ایک بڑا ڈیپ فریزر اٹھا لائے۔اوئی نوج یہ کیا ہے، ان کی اماں چیخیں۔ 

محلہ بھر ان کے گھر جمع ہو گیا، محلے کے صرف دو گھروں میں فریج تھا، اتنا بڑا ڈیپ فریزر سب نے پہلی بار دیکھا تھا، کئی دنوں محلے میں شور رہا، شبن میاں کے اماں ابا کو سمجھ نہ آیا کہ اس کا کیا کرنا ہے۔ شبن میاں نے قہقہہ لگایا، ارے اماں اس میں کافی دنوں کے لئے گوشت فریز کریں گے، اور تمھاری بہو ہمارے لئے کباب بنائے گی، ایک قسم کا فریج ہے یہ دیکھو کتنی برف جمع ہووے ہے، خوب گولے گنڈے بھی بنائیں گے، بازار کی برف والا گولہ گنڈا تو جلدی پگھل جاتا ہے۔

ارے میاں !تم یہ بچپنا چھوڑو، ان کے ابا بولے، لیکن شبن کی اماں اور بیگم خوب ہنسیں اور اسی دن شام کو برف کوٹ کر گولہ گنڈا بناکر شبن میاں کو کھلایا، وہ بچوں کی طرح کھاتے اور خوش ہوتے رہے۔بقر عید آئی توشبن میاں نے حیدرآباد دکن کے مشہور باورچی بلوا کر کباب بنوائے۔ دوستوں کی دعوت کی، ڈیپ فریزر دکھایا، رات گئے محفل اختتام پذیر ہوئی، سونے کے لئے کمرے میں آئے، تو دلہن جاگ رہی تھیں، شبن میاں کو پیاس محسوس ہوئی، جگ اٹھا کر منہ سے لگا لیا، لیکن پانی گرم تھا، بیگم سے بولے، تھوڑی برف لے آو ، حکم کی تابع بیگم فورا جگ لے کر فریزر کےبھاری ڈھکن کو اٹھا کر برف نکالنے لگیں۔ 

آج برف کم تھی وہ تھوڑا اور جھک کر برف نکالنے لگیں، تو توازن قائم نہ رکھ سکیں اور ڈیپ فریزر میں گر گئیں، ڈھکن بند ہو گیا، اندر سے کھولنے کی کوشش کی، لیکن نہیں کھلا ۔کمرے میں شبن میاں انتظار کرتے رہے جب وہ نہ آئیں تو کمرے سے نکل کر آوازیں دیں، کوئی جواب نہ آیا تو پورے گھر میں دیکھتے پھرے، لیکن بیگم نظر نہ آئیں، گھبرا کر اماں ابا کو اٹھایا، وہ بھی پریشان ہو گئے، ارے کہیں باہر تو نہیں نکل گئی کسی وجہ سے لیکن دروازے میں تالا جھول رہا تھا جو ان کے ابا نے خود لگایا تھا، صبح ہو گئی، بیگم ندارد تھیں، شبن میاں بہت حیران پریشان تھے، میں نے تو ٹھنڈا پانی منگوایا تھا، وہ ڈیپ فریزر کی طرف بڑھے لیکن ڈھکن نہ کھلا، انہوں نے کوشش کی لیکن ڈھکن کھل کر نہ دیا، شاید دلہن سے بھی نہیں کھلا ہو گا، ان کی اماں نے ڈھکن کھولنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ابا نے بھی کوشش شروع کر دی، ڈھکن نہیں کھلا تھا تو آکر مجھے بتاتی، غائب کہاں ہو گئی، شبن میاں روہانسے ہوگئے تھے، ابا نے تسلی دی، صبر کرو ،کوئی فون تو نہیں آیا تھا، کہیں اپنے گھر تو نہیں چلی گئی۔ 

ابا رات کے ساڑھے تین بجے اپنے گھر کیسے جائے گی ،مجھے بتائے بنا، لیکن ابا نے سمدھیانے ٹیلی فون کر کے بہانے سے پوچھ لیا، فون رکھ کر کہا، وہاں نہیں ہے، شبن میاں چیخے، وہاں کیسے ہو گی، یہیں ہے یہیں، تو میاں سامنے کیوں نہیں آ رہی۔ابا بولے، ارے بیٹی تم شرارت تو نہیں کر رہیں سامنے آ جاؤ، ہم بہت پریشان ہوچکے، اماں نے دہائی دی، شبن میاں نے گھر کا کونا کونا جھانکا، چھت پر بھی چڑھے لیکن دلہن کا نام و نشان نہیں، شبن میاں کا حلق سوکھ گیا، انہوں نے نلکے کا گرم پانی پیا، اور گھر سے نکل گئے، والدین پکارتے رہ گئے، لیکن وہ گلیوں میں دیوانہ وار گھومنے لگے، عید کا دوسرا دن تھا، کئی جگہ جانور ذبح ہو رہے تھے، خون دیکھ کر ان کا دل عجیب سا ہو گیا، کوئی بھی جاننے والا نظر نہ آیا ،جس سے اپنی بپتا کہتے، سورج نکلنے پر گھر واپس آئے، اُس امید پر کہ شاید وہ موجود ہو، لیکن گھر پر والدین غم زدہ بیٹھے تھے، شبن میاں کو دیکھا تو کچھ جان میں جان آئی، کہاں ہے وہ، شبن نے سوال داغا، اللہ جانے زمین کھا گئی یا آسمان نکل گیا، ابا بولے، شبن رونے لگے، اماں کی بھی ہچکیاں بندھ گیئں۔

دروازہ بجا تو شبن نے دوڑ کر دروازہ کھولا لیکن پڑوس کا کوئی بچہ گوشت تھما گیا، شبن نے گوشت زمین پر پٹخ دیا، ابا نے شبن کو گلے سے لگا لیا، شبن چیخ چیخ کر رونے لگے، بچے نے جا کر گھر بتایا، پڑوس کی ایک عورت شبن کے گھر پہنچی پھر دوسری عورت شام تک محلے بھر میں خبر پھیل گئی، دلہن کے مائیکے تک کس نےخبر پہنچادی، والدین نے سمدھیانے پر شک کیا، کہا، ہماری لڑکی غائب کر دی، لیکن شبن اور ان کے والدین قسمیں کھانے لگے کہ ہم کو خود نہیں معلوم، سب کو وضاحتیں دیتے، وہ شریف لڑکی تھی۔

گھر سے بھاگنے والی تو نہ تھی، شکر گڑھ سے دوسرے بہن بھائی اور رشتے دار بھی آ گئے، ایک ”عامل“ صاحب نے کوئی عمل کرنا شروع کیا ، دو دن کے عمل کے بعد کہنے لگے، کسی اندھیری جگہ موجود ہے، کیا گھر میں کوئی تہہ خانہ ہے، گھر کو ٹھونک بجا کر دیکھا گیا، کوئی تہہ خانہ نہ ملا ۔دوچھتی چھان ماری، سب حیران پریشان تھے۔ بات شبن کے دفتر بھی پہنچ گئی، شبن میاں کی حالت غم و غصے سے خراب تھی، دفتر کے لوگ آکر تعزیت کرتے یا پھر الٹے سیدھے سوالات، شبن عاجز آ گئے، کسی سے ملنے سے منع کر دیا مہینہ گزر گیا، شبن کی صحت برباد ہو گئی، نہ کھانا نہ پینا۔

والدین اور بھائی بھاوج ضد کر کے کھلاتے، ایک دن بھائی نے ڈیپ فریزر کھولنے کی کوشش کی نہ کھلا تو ڈھونڈ کر کاریگر لے آیا، کاریگر نے پہلے تو ٹھونک بجا کر دیکھا، پھر سارے دن کی محنت سے ڈھکن الگ کر دیا، ڈیپ فریزر برف سے اٹا ہوا تھا، برف ہٹائی گئی تو اندر سے دلہن بیگم کی نعش بر آمد ہوئی، کاریگر ڈر کر چیخنے لگا، گھر بھر جمع ہو گیا، شبن میاں غش کھا کر گرے، شبن کی اماں بھی بے ہوش ہو گیئں، نعش کو بڑی مشکل سے نکالا گیا۔شبن کے ابا کی سمجھ میں ساری بات آ گئی، غم زدہ ہو کر سمدھیانے فون کیا، شبن دو دن اسپتال میں رہے ، بہ مشکل ہوش آیا،تو وہ ٹکر ٹکر سب کی صورتیں دیکھتےرہے، دلہن کو دفنا دیا گیا، شہر بھر میں اس انوکھے واقعے کا چرچا ہوا، شبن میاں اور ان کے گھر والے واپس شکر گڑھ آگئے۔ 

شبن میاں آہستہ آہستہ حواسوں میں آگئے، لیکن جب تک زندہ رہے، نہ شادی کی اور نہ ہی کباب و گولہ گنڈا کھایا، کہتے نہ میں اس دن کباب کھاتا، نہ ہی گوشت کی گرمی سے پیاس لگتی، نہ ہی دلہن کو برف لینے جانا پڑتا۔ وہ آہ بھرتے اور چپ ہو جاتے۔ہر عید پرانہیں اپنی دلہن یاد آتی ہے۔

تازہ ترین