• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1960کا دور فلمی صنعت کے لیےمزید کامیابیاں لے کر آیا۔ اس سال ریلیز شدہ فلموں کی تعداد مجموعی طور پر 28رہی ، جن میں انصاف، بھابی، گلبدن، ہم سفر، ایاز، سلمیٰ، ڈاکو کی لڑکی کو کام یابی ملی۔ بھارت سے آنے والے ہدایت کار ایس ایم یوسف نے فلم سہیلی بنائی، جس میں نیر سلطانہ اور شمیم آرا نے اپنے فنی کیریئر کے یادگار کردار ادا کیے، ادار درپن اس فلم کے ہیرو تھے، جب کہ اداکار اسلم پرویز کو اس فلم میں وِلن کا کردار میں اس قدر پسند کیا گیا کہ وہ پھر اس روپ سے باہر نہ نکل سکے اور جب تک زندہ رہے بہ طور وِلن بے حد کام یاب رہے۔ 

اداکارہ بہار نے بھی اس فلم میں ایک بہت ہی اہم کردار ادا کیا تھا، ایورریڈی پکچرز کے توسط سے ریلیز ہونے والی اس بلاک بسٹر فلم نے کراچی کے جوبلی سنیما میں مسلمل 35ہفتے چلنے کا ریکارڈ بنایا، جب کہ مجموعی طور پر اس فلم کو 52ہفتوں کا بزنس ملا اور اس کا شمار پاکستان کی دوسری گولڈن جوبلی فلم کے طور پر ہوا۔ 1961میں مجموعی طور پر34 فلمیں ریلیز ہوئیں، جن میں کام یابی حاصل کرنے والی فلموں میں ثریا، عجب خان، انسان بدلتا ہے، زمانہ کیا کہے گا، سپیرن، اور گلفام کے نام شامل ہیں۔ 

بہ طور ہدایت کار ایس سلمان کی پہلی فلم گلفام جس کے فلم ساز ان کے بڑے بھائی عشرت عباس تھے۔ اس فلم نے اپنے مرکزی سنیما ریگل کراچی میں 27ہفتے کرکے سولو سلور جوبلی منائی، جب کہ سرکٹ کے مجموعی ہفتے ملا کر اس فلم نے 60ہفتے کرکے شان دار گولڈن جوبلی کا اعزاز حاصل کیا، اس کاسٹیوم ایکشن فلم کو وحید مراد کے ادارے پاکستان فلمز نے ریلیز کیا تھا، بطور فلم ساز وحید مراد کی پہلی فلم انسان بدلتا ہے، اسی سال ریلیز ہوئی۔

1962میں ریلیز شدہ فلموں کی تعداد 34رہی، کام یابی حاصل کرنے والی فلموں میں شہید، چراغ جلتا رہا، عذرا، قیدی، میرا کیا قصور، چودھری، موسیقار، چندا، اولاد، مہتاب، بنجارن، گھونگھٹ اور آنچل کے نام شامل ہیں، فلمی دنیا کے دو خوب صورت نام علی زیب نے اپنے فلمی کیرئر کا آغاز اس سال فلم چراغ جلتا رہا سے کیا، بیوٹی کوئن اداکارہ رانی کی پہلی فلم ’’محبوب‘‘ اسی سال ریلیز ہوئی، سابقہ مشرقی پاکستان جو اب بنگلہ دیش ہے، وہاں پر بننے والی پہلی اردو فلم ’’چندا‘‘ نے کراچی کے نشاط سنیما میں شاندار گولڈن جوبلی منائی، اس فلم میں سلطانہ زمان نے چندا کا کردار ادا کیا، جب کہ اداکارہ شبنم کی یہ پہلی اردو فلم تھی، ہدایت کار ایس ایم یوسف کی اصلاحی معاشرتی فلم ’’اولاد‘‘ میں اداکار وحید مراد کو پہلی بار ایک اہم کردار میں کاسٹ کیا گیا ، جو نیر سلطانہ اور حبیب کے بیٹے کا کردار تھا، اس فلم نے ریوالی سنیما کراچی میں 16ہفتے مکمل کیے پھر یہ فلم پلازہ میں شفٹ ہوگئی، وہاں 16ہفتے کرنے کے بعد مجموعی طور پر 57ہفتے چلی، ایورریڈی پکچرز نے گولڈن جوبلی منانے پر اس فلم کی ایک شاندار تقریب کراچی کے پلازہ سنیما میں رکھی تھی، گولڈن جوبلی منانے والی فلموں کے سفر میں فلم ساز اے حمید اور ہدایت کار شباب کرانوی کی یادگار سپر ہٹ فلم مہتاب کا شمار بھی ہوتا ہے۔ 

یہ فلم اوڈین کراچی میں مسلسل 26ہفتے چلی ، جب کہ مجموعی طور پر 54 ہفتے کرنے میں کام یاب رہی۔ اداکار علائوالدین کو عوامی اداکار کا خطاب اسی فلم سے ملا تھا، اس فلم میں انہوں نے سڑکوں پر گول گپے بیچنے والے ایک غریب شخص کا کردار نہایت عمدگی سے ادا کیا تھا۔ اس موقع پر ان پر فلمایا ہوا گلوکار احمد رشدی کی آواز میں ریکارڈ کروایا ہوا یہ مشہور عوامی گیت ’’گول گپے والا آیا گول گپے لایا‘‘ آج بھی بیشمار گول گپے بیچنے والوں کے لیے روزی کمانے کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ 1963میں ریلیز شدہ فلموں کی تعداد 46 تھی، عشق پر زور نہیں ،بغاوت، موج میلہ، ماں کے آنسو، شکوہ، تلاش، چوڑیاں، تیس مار خان، کالا پانی، دامن، چاچا خواہمخواہ، اس سال کی کام یاب فلمیں تھیں۔ 

اداکار سنتوش کمار کی ذاتی فلم دامن کا شمار بھی گولڈن جوبلی فلموں میں ہوتا تھا، یہ فلم ناز سنیما کراچی میں 29ہفتے چلتی رہی، جب کہ مجموعی طور پر اس فلم کو 69ہفتے ملے، اداکارہ صبیحہ پر فلمایا ہوا یہ گیت ’’نہ چھڑا سکو گے دامن‘‘ جسے ملکہ ترنم نور جہاں نے گایا اور حمایت علی شاعر نے لکھا، بہت مقبول ہوا، اسی سال اداکار محمد علی کی بہ طور ہیرو پہلی فلم ’’شرارت‘‘ ریلیز ہوئی، جس میں ان کے مدِ مقابل بہار اور لیلیٰ نے ہیروئنز کے کردار کیے تھے، شباب پروڈکشن کی سپر ہٹ کلاسیک کامیڈی فلم تیس مار خان میں ایک نئی ہیروئن شیریں کو متعارف کروایا گیا۔ اس پنجابی فلم نے لاہور میں شان دار گولڈن جوبلی منائی، معروف ہدایت کار حیدر چوہدری کا نام بہ طور ہدایت کار پہلی بار اس فلم کے ٹائٹل پر آیا، گریس فل اداکارہ زیبا کی پہلی اور آخری پنجابی فلم مہندی والے ہاتھ اس سال ریلیز ہوئی۔ 

1964میں ریلیز ہونے والی فلموں کی تعداد 66رہی، جن فلموں نے فلم بینوں سے کام یابی کی سند حاصل کی۔ ان میں خاندان، ڈاچی، باپ کا باپ، توبہ، گہرا داغ، خاموش رہو، بیٹی، میرا ماہی، ولائت پاس، پیغام، آشیانہ، ایک دل دو دیوانے، غدار، ملن، ہیرا اور پتھر، ہتھ جوڑی، فرنگی کے نام شامل ہیں۔ ہدایت کار ایس اے حافظ کی گھریلو نعماتی فلم توبہ کا شمار اس سال کی شان دار گولڈن جوبلی فلم کے طور پر ہوتا ہے۔ 

اس فلم نے اپنے مرکزی سنیما ایروز کراچی پر 25ہفتے چل کر شان دار سولو سلور جوبلی منائی، جب کہ مجموعی طور پر اس فلم کے ہفتے 60تھے۔ نگار پکچرز کے توسط سے ریلیز ہونے والی اس فلم میں زیبا اور کمال کی جوڑی کو بے حد پذیرائی ملی، فلم میں ایک قوالی بھی شامل کی گئی جس کے بول یہ تھے ’’نہ ملتا گریہ توبہ کا سہارا تو ہم کہاں جاتے‘‘ یہ قوالی اس فلم کی ہائی لائٹ بن گئی۔ کیریکٹر اداکار کمار نے اس فلم میں ڈبل رول کیا تھا۔ شرابی کا کردار ان کا کے حد پسند کیا گیا، اس سال وحید مراد نے اپنی ذاتی فلم ہیرا اور پتھر کے لیے ہدایت کار پرویز ملک کا انتخاب کیا اور پہلی بار خود اس فلم میں وہ اداکارہ زیبا کے مقابل ہیرو آئے۔ 

پاکستانی فلموں کے لیجنڈ سپر اسٹار ندیم کی یہ بہ طور ایکسٹرا اداکار پہلی فلم تھی، وہ اس فلم کے ایک منظر میں صرف خاموش بیٹھے ہوئے نظر آئے ، بہ طور ہیرو وحید مراد کی پہلی فلم نے کراچی کے ناز سنیما پر شان دار گولڈن جوبلی منائی، پاکستان میں بننے والی پہلی مکمل کلر فلم ’’سنگم‘‘ اسی سال ریلیز ہوئی ،یہ سابقہ مشرقی پاکستان میں فلمائی گئی، جب کہ پاکستان میں فلمائی گئی، پہلی کلر فلم ایک دل دو دیوانے بھی اسی سال ریلیز ہوئی تھی، جس میں کمال اور رانی نے مرکزی کردار کیے تھے، لولی پکچرز کی سپر ہٹ گولڈن جوبلی پنجابی فلم ہتھ جوڑی بھی اسی سال ریلیز ہوئی ، جس کے ہدایت کار اسلم ایرانی تھے، اکمل، نغمہ، مظہرشاہ، اجمل اور سلمیٰ ممتاز نے اس فلم میں اہم کردار ادا کیے، پنجاب کے شہر فیصل آباد میں اس فلم نے شان دار بزنس کے نئے ریکارڈ قائم کیے تھے۔ 

1965میں ریلیز شدہ فلموں کی تعداد50رہی، جس میں کاجل، ایسا بھی ہوتا ہے، ڈولی، عشق حبیب، رواج، پھنے خان، دل کے ٹکڑے، شبنم، صنم، ہزار داستان، نائیلہ، من موجی، کنیز، آخری اسٹیشن اور زمین کو کام یابی حاصل ہوئی، ایورنیو پکچرز کی پہلی کلر فلم نائیلہ نے پورے ملک میں شان دار کام یابی حاصل کی، اس نغماتی رومانی فلم کراچی اور لاہور دونوں شہروں میں اپنے مرکزی سنیمائوں پر سولو سلور جوبلی منانے کے اعزازات حاصل کیے، ہدایت کار ایم جے رانا کی پنجابی فلم جی دار نے لاہور کے رٹز سنیما پر مسلسل 41ہفتے چل کر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا، مجموعی طور پر اس فلم کے 65ہفتے بنے، اس فلم کی آمدنی سے لاہور کے مبارک سنیما کی بنیاد رکھی گئی، سدھیر، نیلو، شیریں، حبیب، اے شاہ شکارپوری اس فلم کے اہم اداکار تھے۔

 1966میں پاکستان میں گولڈن جوبلی سے آگے پلاٹینم جوبلی فلموں کا آغاز فلم ساز و اداکار وحید مراد کی فلم ارمان سے ہوا، جس کے ہدایت کار پرویز ملک تھے۔ زیبا اور وحید مراد کی جوڑی میں اس فلم نے ناز سنیما کراچی میں مسلسل 34 ہفتے مکمل کیے اور مجموعی طور پر 76ہفتے کرکے پاکستان کی پہلی پلاٹینم جوبلی فلم کا اعزاز حاصل کیا، اس سال ریلیز ہونے والے فلم ساز میاں شفیق، ہدایت کار راجہ حفیظ کی فلم ’’ہمراہی‘‘ نے کراچی کے رینو سنیما میں شان دار گولڈن جوبلی منائی، جب کہ آزادی یا موت، قبیلہ، الہلال، منگی، جاگ اٹھا انسان، آگ کا دریا، کون کسی کا، سوال، مجبور، عادل، بھریا میلہ، گونگا، باغی سردار، لاڈو، بد نام ، نغمہ صحرا، لوری، ابا جی، پائل کی جھنکار، بھیا، آئینہ اس سال کی کام یاب فلمیں تھیں، جس نے پنجاب سرکٹ لاہور میں شان دار گولڈن جوبلی منائی۔ اکمل کے کیریئر کی ایک ناقابل فراموش فلم جو لوگ کبھی بھی فراموش نہیں کر پائیں گے، محمد علی اور شمیم آرا کے کیریئر کی ایک لازوال فلم ’’آگ کا دریا‘‘ جس میں ڈاکو اور طوائف کے کرداروں میں ان دونوں فن کاروں نے ایسی فطری اداکاری کا اظہار کیا کہ وہ کردار آج بھی ان کی پہچان بنے ہوئے ہیں۔ 

1967میں پاکستانی باکس آفس پر دیور بھابی، چکوری، درشن، چھوٹے صاحب اور آگ نے مختلف جوبلیاں منا کر ایک ریکارڈ قائم کیا، لیجنڈ اداکار ندیم نے ’’چکوری‘‘ میں پہلی بار ہیرو کا کردار کیا، ان کے مد مقابل نئی اداکارہ شبانہ نے ہیروئن کا رول نبھایا، فلم کے ہدایت کار احتشام تھے، صرف سابقہ مشرقی پاکستان میں بننے والی اس فلم نے پیراڈائز سنیما کراچی، جب کہ دیور بھابی ، آگ اور درشن نے شاندار گولڈن جوبلیاں منائیں، اس سال کی دیگر کام یاب فلموں میں جگری یار، انسانیت، تقدیر، بار بار، چٹان، سجدہ، نواب سراج الدولہ، دل دا جانی، چاچا جی، لاکھوں میں ایک، حاتم طائی، لٹ دا مال، احسان، اکبرا، پر صبح ہوگی، میرا ویر، جانی دشمن اور مرزا جٹ کے نام شامل تھے۔ پہلی بار پاکستان میں بننے والی سنیما اسکوپ فلم جان پہچان میں ایرانی اداکارہ شہ پارہ کو اس سال کاسٹ کیا گیا، اس جاسوسی فلم میں محمد علی نے جیمز بانڈ اسٹائل کی اداکاری میں فلم بینوں سے خوب داد پائی۔ 

ایرانی اداکارہ سے ان کا اسکینڈل بھی منظر عام پر آیا، بیرون ملک بننے والی پہلی پاکستانی فلم رشتہ ہے پیار کا، اس سال ریلیز ہوئی جس میں زیبا اور وحید مراد نے مرکزی کردار ادا کیے،ہدایت کار خواجہ سرفراز اور اداکار حبیب کی مشترکہ فلم زندہ لاش کو پہلی ہارر فلم کا اعزاز اسی سال حاصل ہوا۔ اس فلم میں اداکار ریحان نے ڈریکولا کا یادگار کردار کیا، جو21مارچ 2020 کو وہ لاہور میں طویل عمر میں انتقال فرما گئے، 1968اس سال نمائش ہونے والی فلموں کی تعداد 92تھی، جن میں 7فلموں نے گولڈن جوبلی کے اعزاز حاصل کیے، اس سال ریلیز ہونے والی پہلی گولڈن جوبلی فلم سنگدل تھی ، جس کے ہدایت کار ظفر شباب تھے۔ 

ندیم اور زیبا، اس فلم کے مرکزی کردار تھے۔ ہدایت کار نعمان کی کاسٹیوم ایکشن فلم محل کا شمار بھی گولڈن جوبلی فلموں میں ہوتا ہے۔ محمد علی نے اس فلم میں ڈبل رول کیا تھا، ان کے مد مقابل زیبا اور غزالہ نے ہیروئنز کے کردار کیے تھے۔ شمیم آرا اور وحید مراد کی رومانی نغماتی فلم ’’دل میرا دھڑکن تیری‘‘ نے بھی اس سال شان دار گولڈن جوبلی کا اعزاز حاصل کیا، ایم اے رشید اس فلم کے ہدایت کار تھے۔ ماسٹر عنایت حسین کی موسیقی میں تمام گانے سپر ہٹ ہوئے، مزاحیہ اداکار لہری نے اس فلم میں ڈبل روڈ کیا، جب کہ اداکارہ رانی نے ویمپ کے منفی کردار میں شان دار اداکاری کا مظاہرہ کیا تھا۔ اداکارہ شمیم آرا کی ذاتی فلم ’’صاعقہ‘‘ نے اس سال گولڈن جوبلی منائی، محمد علی اس فلم کے ہیرو تھے، عتیق اختر کی ہدایایت میں بننے والے اس گھریلو نغماتی فلم کا کراچی میں مرکزی سنیما اوڈین تھا، کراچی کے خوبصورت اور جدید سنیما گھر کیپری کا افتتاح اس فلم سے ہوا تھا، جو آج بھی قائم ہے اور ایک اہم ترین جدید اسکرین سنیما کی صورت میں چل رہا ہے۔ ہدایت کار حسن طارق کی ملٹی اسٹار فلم مین بھائی نے اس سال ملک گیر کام یابی حاصل کی، کراچی کے کوہ نور سنیما میں اس فلم نے شان دار گولڈن جوبلی منائی۔ کمال، حسنہ، رانی،ندیم، دیبا، اعجاز، اسلم پرویز، طلعت صدیقی، الیاس کاشمیری، تانی بیگم، ،عالیہ اور فریدہ کے نام اس فلم کی کاسٹ میں شامل تھے، ہدایت کار کیفی کی پنجابی فلم چن لکھناں نے پنجاب سرکٹ میں گولڈن جوبلی منائی۔ 

رانی، عنایت حسین بھٹی، سلونی، سدھیر اس فلم کے اہم اداکار تھے۔ ہدایت کار ایم جے رانا کی اصلاحی سبق آموز پنجابی فلم بائو جی نے لاہور میں شاندار گولڈن جوبلی منانے کا اعزاز حاصل کیا۔ اداکار یوسف خان نے بائوجی کا کردار کیا، جب کہ اعجاز، فردوس، سلونی،مظہر شاہ، اسد بخاری، ایم اسماعیل، شیخ اقبال، ظہور شاہ، رنگیلا، منور ظریف اور صاعقہ کے نام اس فلم کی کاسٹ کا حصہ بنے، اس سال ریلیز ہونے والی دیگر کام یاب فلموں میں دوسری ماں، روٹی، میدان، بابل دا ریہڑہ، سمندر، پگڑی سنبھال جٹا، شریک حیات، بدلہ، دل دیا درد لیا، دارا، میرا گھر میری جنت، سسی پنوں کے نام شامل تھے، بطور ہدایت کار اسلم ڈار نے پاکستانی سنیما کے لیے پہلی ٹارزن ایڈونچر فلم دارا بنائی، جس میں ایک نئے ہیرو نصر اللہ بٹ کو ٹارزن کا کردار کروایا، اس پہلی کلر پنجابی فلم پنج دریا ریلیز ہوئی، جو اداکار اکمل کی آخری فلم تھی، 1969میں باکس آفس پر فلم ساز، مصنف، ہدایت کار ریاض شاہد کی بین الاقوامی بلاک بسٹر فلم ’’زرقا‘‘ نے کراچی کے اوڈین سنیما پر 102ہفتے کا مجموعی بزنس کرکے پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم کا اعزاز حاصل کیا، یہ اداکارہ نیلو کے کیریئر کی ایک لازوال کردار نگاری سے آراستہ فلم تھی، جو فلسطین کی جدو جہد آزادی کے موضوع پر بنائی گئی، اس فلم کو دنیا کی مختلف زبانوں میں ڈب کرکے ریلیز ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا، سلور جوبلی، گولڈن جوبلی، پلاٹینم جوبلی کے بعد اس سال باکس آفس پر ڈائمنڈ جوبلی فلموں کا آغاز بھی ہوا۔ 

کنگ آف کامیڈی کا خطاب پانے والے اداکار رنگیلا نے اس سال بہ طور فلم ساز ، ہدایتکار، کہانی نویس اور گلوکار اپنی ذاتی فلم ’’دیا اور طوفان‘‘ بنائی، جس نے شان دار گولڈن جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔ ہدایت کار اس اے بخاری کی پنجابی فلم ’’دلاں دے سودے‘‘ نے کراچ، لاہور اور ڈھاکا میں شان دار گولڈن جوبلی کے اعزاز حاصل کیے۔ یہ پہلی پنجابی فلم تھی، جس نے کراچی اور ڈھاکا میں گولڈن جوبلیاں بنائیں۔ اداکارہ فردوس پر فلمائی کی گئی دھمال نے مقبولیت حاصل کی۔ 

وحید مراد اور شبنم کی رومانی فلم ’’عندلیب‘‘ کا شمار بھی گولڈن جوبلی فلموں میں ہوتا ہے۔ ہدایت کار منیر رشید آل ٹائم سپرہٹ نغماتی ہلا گلا فلم نئی لیلیٰ نئی مجنوں نے اس سال ریلیز ہوکر شاندار بزنس کے ریکارڈ قائم کرتے ہوئے کراچی میں اپنے مرکزی سنیما جوبلی پر شان دار پلاٹینم جوبلی منانے میں کام یاب رہی۔

تازہ ترین
تازہ ترین