پروین فنا سید
اندھے وقت کے ،گہرے کنویں میں
ماضی کی ہر یاد چھپی ہے ،کچھ لمحوں کی کرنیں
زرد سنہری آنچل میں لپٹی ہیں
کچھ پل ایسے بھی ہیں ،جن کے آئینے میں
دکھ کے انمٹ عکس ابھر کر
آنکھوں کے گرداب میں رقصاں
لوح دل پر،نقش ہوئے ہیں
دھوپ اور چھاؤں کے اس کھیل کو
حال کا ہر پل دیکھ رہا ہے
دکھ کے بھاری بوجھل پتھر ،سکھ کی نرم سنہری کرنوں کو
میزان میں رکھ کر ،تول رہا ہےمستقبل
اک دھند کی چادر میں لپٹے ،درویش کی صورت
وقت کے اس تاریک کنویں سے جھانکتے ماضی
حال کے اک اک نقش کا پرتو
دیکھ رہا ہے، سوچ رہا ہے