قیامِ پاکستان کے بعد ہمارے شعراء نے یاد گار ملی اور قومی گیت تخلیق کیے، جنہیں پاک وطن کے موسیقاروں نے دل چُھولینے والی موسیقی کی بدولت ناقابلِ فراموش کردیا۔ پاکستان فلم انڈسٹری کے نام ور ہدایت کار رفیق رضوی نے جب فلم ’’ بیداری‘‘ بنائی تو اس میں ملی اور قومی نغمات کو خُوب صورتی سے پیش کیا گیا۔ اس فلم شامل قومی نغمات نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ ’’یُوں دی ہمیں آزادی کہ دُنیا ہوئی حیران اے قائدِ اعظم تیرا احسان ہے احسان‘‘ جسےگلوکارہ منور سلطانہ نے گایا تھا، اس نغمے کو بے حد پسند کیا گیا،جب کہ دوسرا ملی گیت ’’آئو بچوں سیر کرائیں تم کو پاکستان کی، جس کی خاطر ہم نے دی قربانی لاکھوں جان کی، پاکستان زندہ باد پاکستان زندہ باد‘‘ اس گیت کو سلیم رضا اور ساتھیوں نے گایا تھا اور فلم کے غیر روایتی ہیرو سنتوش کمار اور ساتھی بچوں پر پکچرائز ہوا تھا، جب کہ تیسرا ملی گیت ’’ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے، اس ملک کو رکھنا میرے بچوں سنبھال کے‘‘ سنتوش کمار ہی پر پکچرائز ہواتھا اور اسے بھی سلیم رضا نے گایا تھا۔
ان نغمات کے شاعر فیاص ہاشمی تھے اور اس کی دل چُھو لینے والی موسیقی فتح علی خان نے مرتب کی تھی۔ یہ تینوں ملی گیت زبان زد خاص و عام ہوئے اور ماہ اگست میں اکثر ان گیتوں کی بازشت اب بھی سنائی دیتی ہے۔ فلم’’بیداری 6؍دسمبر1957کو نمائش کے لیے پیش کی گئی، باوجود اس کے کہ یہ ایک غیر روایتی انداز کی حاصل عام فارمولا فلموں سے قطعاً ہٹ کر تھی، لیکن پھر بھی اس فلم کو باکس آفیس پر بھی بھرپور پذیرائی ملی۔
1966ء میں اقبال رضوی نے فلم ’’آزادی یا موت ‘‘کے عنوان سے 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے تناظر میں ایک بامقصد فلم ریکارڈ ٹائم میں تیارکی، جس کی کاسٹ میں حنیف ،صوفیہ بانو ، روزینہ، کمال میرتھی، ریکھا، شیخ اقبال وغیرہ شامل تھے۔ اردو دنیا کے ممتاز شاعر صہبا اختر کا لکھا ہوا خُوب صورت ملی گیت ’’دنیا جانے میرے وطن کی شان‘‘ جسے عالم لوہار نے گایا تھا اور فلم میں ہیرو حنیف پر پکچرائزز ہوا۔
یہ ملی نغمہ بھی سدابہار حیثیت کا حامل ثابت ہوا ، خُوب صورت اور اونچے آہنگ میں گانے والے فوک سنگر عالم لوھار نے اس ملی گیت کو اس رچائو سے گایا کہ سننے والوں کے دلوں میں اور سماعتوں میں نقش ہو گیا۔ ’’آزادی یا موت‘‘ ہر چند کہ لوئر کاسٹ مووی تھی اور اقبال رضوی کی بہ طور ڈائریکٹر یہ ڈیبیو فلم تھی، پھربھی عوامی سطح پر اسے مناسب پذیرائی ملی۔24جنوری 1966ء کو یہ فلم منظر عام پر آئی تھی۔
ہمایوں مرزا کی شاہ کار تخلیق فلم ’’آگ کا دریا‘‘ کا جب کیمرہ اپنی آنکھ کھولتا ہے تو ، جوش ملیح آبادی کے دلوں کو گرما دینے والے وطن کی محبت سے سرشار اشعار ایک ملی گیت کا پیرھن لیے ہماری سماعتوں کا استقبال یُوں کرتے ہیں کہ ’’اے وطن ہم ہیں تیری شمع کے پروانوں میں، زندگی ہوش میں ہے، جوش ہے ایمانوں میں‘‘۔ نام ور پلے بیک سنگر مسعود رانا کا سُریلا آہنگ اور غلام نبی عبداللطیف کی ولولہ انگیز سازوں میں گندھی ہوئی کمپوزیشن، سامع کے سماعت کو ایک عجیب کیفیت اور سرشاری سے دو چار کر دیتے ہیں۔
اگست کے ایام پر ہی کیا موقوف پچھلے برسوں کے ہر 12مہینوں کایہ مقبول ملی نغمہ ہے، جس کی چمک دمک تاثیر و گونج کبھی مدھم و ماند نہیں پڑتی، جب بھی یہ نغمہ سماعتوں سے ٹکراتا ہے، سامع کے وجود میں جذبوں اور عزم کی لہر تازہ پیدا کر دیتا ہے۔ 6؍مئی 1967 کوریلیز ہونے والی یہ سدا بہار فلم باکس آفس پر شاندار کام یابی سے ہم کنار ہوئی، لیکن گولڈن جوبلی کا اعزاز حاصل نہ کر سکی۔
ہدایت کار شباب کیرانوی نے روہتکی کرداروں اور ثقافت کے تناظر میں بہت ہی خُوب صورت، دل چسپ اور معیاری فلم ’’آئینہ اور صورت‘‘ بنائی، جس کے بیش تر نغمات کی شاعری بھی روہتکی کرداروں پر مشتمل تھی۔ کہانی کے مطابق جب فصل پک کر تیار ہو جاتی ہے، تو گائوں کے کسان فصل کی تیاری کا جشن مناتے ہوئے ملی نغمہ گاتے ہیں، جس کے بول تھے’’پاک وطن کی دھرتی نیاری ہم کو اپنی جان سے پیاری… پیاری دھرتی ہماری۔ یہ گیت احمد رشدی، روبینہ بدر کی خوب صورت آوازوں سے آراستہ ہوا، جیسے موسیقی سے سنوارا ایم اشرف نے، اس ملی گیت کو بھی خاصی پسندیدگی حاصل ہوئی۔
آئینہ اور صورت 28جون 1974 کو ریلز ہوئی اور سپرہٹ گولڈن جوبلی سے ہمکنار ہوئی۔اسی سال پرویز ملک کی خوب صورت اور معیاری فلم ’’دشمن‘‘ 8 نومبر کو ریلیز ہوئی۔ یہ بھی ایک گولڈن جوبلی ہٹ فلم تھی، جس میں بالکل آئینہ اور صورت جیسی سچویشن میں ایک ملی گیت کو کہانی کا حصہ بنایا گیا۔ جس کے بول تھے’’ہر دھڑکن میں جاگ اٹھا ہے ایک نیا پیغام‘‘ یہ گیت فلم کے روایتی ہیرو وحید مراد ،ہیروئن ممتاز اور ساتھیوں پر فلم بند ہوا تھا۔ مسرور انور کی خُوب صورت شاعری کو موسیقی سے نثار بزمی نے آراستہ کیا تھا، جب کہ احمد رشدی اور شازیہ کی خوب صورت آوازوں نے اس گیت کو آہنگ دیا۔
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں، ہم ایک ہیں، سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں، ہم ایک ہیں۔ یہ مکھڑا ہے، اس قومی گیت کا جسے کلیم عثمانی نےفلم ’’فرض اور مامتا‘‘ 1975 کے لیے تخلیق کیا۔ میٹھی اور سُریلی آواز سے اسے سجایا تھا گلوکارہ نیرہ نور نے، جب کہ اس کی موسیقی مرتب کی ایم اشرف نے۔ فلم میں یہ گیت پاکستانی سینما کی نامور ہیروئن شبنم پر پکچرائز ہوا تھا۔ اس گیت کی تخلیق کو کئی برس گزر چکے ہیں، لیکن اس کی مقبولیت اور پسندیدگی کا یہ عالم ہے کہ ملی نغموں کی بھیڑ میں اس گیت کی بازگشت اور گونج سب سے زیادہ سنائی دیتی ہے۔ فلم کے لیے اب تک متعدد ملی اور قومی نغمات تخلیق کیے گئے، بلاشبہ اس گیت کی مقبولیت ، شناخت اور پسندیدگی سب سے نمایاں تر ہے۔
اس فلم کے ہیرو ندیم تھے، جنہیں باکس آفس کا سب سے کام یاب ہیرو گردانا جاتا ہے، لیکن یہ اتفاق بھی خُوب ہے کہ ہدایت کار کے خورشید کے ساتھ ان کے ستارے کبھی نہیں ملے۔ نصف درجن سے زیادہ فلموں میں ان کا اشتراک ہوا،لیکن کوئی فلم گولڈن جوبلی کا اعزاز حاصل نہ کر سکی، یا تو فلاپ رہی یا ایوریج۔ تاہم ’’فرض اور مامتا‘‘ اس اشتراک کی نسبتاً زیادہ چلنے والی فلم رہی، جو 40سے زائد ہفتے چلی۔ ’’فرض اور مامتا‘‘ 1975 کی ریلیزتھی۔اسی سال ہدایت کار پرویز ملک کی سپرڈوپر ہٹ اعلیٰ معیار سے میزین فلم ’’پہچان‘‘ بھی منظر عام پر آئی، جس میں ایک ڈوئیٹ ملی سونگ احمد رشدی اور مہناز کی آوازوں میں شامل کیا گیا تھا۔
اس کے بول تھے ’’میرے دیس کی ہے بات ہی نرالی جھومے پیار سے گلشن کی ڈالی ڈالی‘‘ پرویز ملک کی ڈائریکشن سے آراستہ 1984ء میں ریلیز ہونے والی بامقصد اور معیاری فلم ’’کام یابی‘‘ جو کہ پرویز ملک کے کریڈٹ پر واحد سینما اسکوپ فلم تھی۔ منظر عام پر آئی تھی، یہ فلم دیار غیر میں بسنے والنے پاکستانیوں کے مسائل کا احاطہ کرنے کے ساتھ ساتھ یہ پیغام بھی دیتی ہے کہ غیروں کی سرزمین پر خوشیاں اور آسودگی تلاش کرنے کے بجائے اپنے وطن کی مٹی میں خوشیوں کی فصلیں لگائی جائیں تو یہاں بھی ہر قدم پر آسودگی اور خوشیوں کے پھول کھل سکتے ہیں۔
فلم کی ایک سچویشن میں دیار غیر میں رہنے والے پاکستانی 14؍اگست کو ایک جگہ جمع ہو کر آزادی کا جشن مناتے ہیں، ایسے میں فلم کی ہیروئن ’’شبنم‘‘ ناہید اختر کے گائے ملی گیت ’’ہے اپنے وطن سے پیار ہیں ہمیں،ہم گیت اسی کے گاتےہیں،ہم اسی کے نام سے دنیا میں،جانے پہچانے جاتے ہیں‘‘ کی وساطت سے ہر محب وطن پاکستانی کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہیں۔
فلم ’’کام یابی‘‘ اپنی بہترین کہانی اورمعیاری ٹریٹمنٹ کے سبب باکس آفس پر بھی شان دار کام یابی سے ہمکنار ہوئی اور گولڈن جوبلی کا اعزاز پایا۔ ایم اشرف کی موسیقی اور فن کاروں کی متاثرکن پرفارمنس نے بھی فلم کے معیار اور دل چسپیوں کو دوچند کیا، لیکن ’’کام یابی‘‘ کے تعلق سے ہم نے جس ملی نغمے کاتذکرہ کیا… غالباً… یہ آخری فلمی ملی گیت تھا جو ہر خاص و عام میں مقبول ہوا، اس کے بعد فلموں میں ملی گیت اگر شامل بھی ہوئے تو انہیں اس درجے کی مقبولیت ،پسندیدگی اور شناخت نہ مل سکی، جو انہیں زبان زد خاص عام بناتی۔