اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد 3,52,000 افغانی فوجی اور پولیس ملک کا نظم و نسق سنبھال سکے گی اور کیا امن قائم ہوگا یا اس خطے کو نیٹو افواج آتش فشاں بناکر چھوڑ جائیں گی؟ جس کی سب سے زیادہ حدت پاکستان میں مزید بربادی کی صورت میں محسوس کی جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی فوجی افغانستان کی جنگ سے اکتا چکے ہیں اس لئے امریکہ اور اس کے اتحادی کسی نہ کسی طرح افغانستان میں اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کرکے بھاگنا چاہتے ہیں۔ لیکن ایسا کرنا آسان نہیں اس بارے میں ڈیوڈ ایم راڈ ریگس جو 2009 سے 2011 تک امریکی فوج کا کمانڈر رہا ہے۔ وہ اپنے ایک مضمون بہ عنوان ”افغانستانیوں کو دے دیا جائے“ میں لکھتا ہے ہم 2011 کی بہار میں جنرل شیر محمد کریمی کے ساتھ سفر کررہے تھے۔ اس نے کہا کہ افغانی سپاہی پوچھتے ہیں کہ ہم کب تک جی پی ایس آلات حاصل کرسکیں گے۔ میں نے کہا تم یہ سوال مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہو۔ اس نے جواب دیا کہ ہمارا ملک غریب ہے اس میں برطانیہ یا جرمنی جیسا سیکورٹی سسٹم نہیں بنایا جاسکتا اس لئے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو اپنے مقاصد تشکیل دیتے وقت یہ سب عوامل مدنظر رکھنے ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ قندھار اور ہلمند دوسرے دو بڑے شہر میں آئے دن طالبان کی وجہ سے دھماکوں سے لرزتے رہتے ہیں۔ اس لئے افغانستان کے عوام افغان فوج اور پولیس سے توقع نہیں رکھتے کہ وہ مستقبل میں ان کا تحفظ کرسکے گی۔ گزشتہ کئی عشروں سے افغانی بھاری ہوائی حملوں اور دیگر کارروائیوں کے نتیجے میں موت کا بھیانک منظر دیکھ دیکھ کر خوفزدہ ہیں۔ لاکھوں اموات دیکھ کر ہزاروں اپاہج لوگ یہ سوچتے ہیں آخر کب تک یہ بربادی جاری رکھی جائے گی اور کیوں؟ امریکہ اوراس کے اتحادی فوجی محدود علاقے میں رہتے ہوئے اپنے آپ کو بچانے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ یہ وہ جنگ ہے کہ جس میں نام نہاد فاتح کو مفتوح سے کہیں زیادہ نقصان ہوگا۔افغان فوج اور پولیس کو قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش میں جنرل ڈیوڈ مضمون میں مزید لکھتے ہیں کہ ”افغانوں میں ان کی اپنی فوج اور پولیس بہت مقبول ہے“ حالانکہ خدشہ یہ ہے کہ امریکی انخلاء کے بعد باقی اتحادیوں کو 2014 کے بعد جب بھاگنا پڑے گا یہ عین ممکن ہے کہ افغان پولیس اور فوج بھی طالبان کے ساتھ جاملے۔ ان امکانات اور ان کے اثرات کا جائزہ نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے دیگراہم کھلاڑیوں کو لینا ہوگا تاکہ افغانستان میں امن کے لئے کوئی حکمت عملی وضع کی جاسکے۔ ایک اور خبر انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹریبون کے رپورٹر ولیم بیلز نے چینی حکومت کے تیل اور گیس کے مشیر ”جن رگ وانگ“ کے حوالے سے دی کہ ”مستقبل میں انہیں توانائی کے مسئلے پر چین اور امریکہ کے درمیان تصادم ناگزیر محسوس ہوتا ہے۔ مشرق وسطی میں اسرائیل کی عرصہ دراز کی غنڈہ گردی سے امریکہ کے خلاف جذبات بھڑ رہے ہیں۔ حماس، حزب اللہ اور دیگر اسرائیل سے نجات پانے والی تنظیموں کے ہاتھ ایٹمی ہتھیار آگئے تو یہ خطہ شعلہ فشاں بن سکتا ہے کہ خیال یہ کیا جاتا تھا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد خونریزی اور جنگوں میں کمی آئے گی اس بارے میں ایلون اور ہائیڈی ٹوفلر ”مستقبل کی جنگیں اور ان کا تدارک“ میں لکھتے ہیں ”1945 یعنی جنگ کے خاتمے کے بعد کے زمانے میں کچھ زیادہ خونریزی کی ہے جب اس تعداد میں شہری ہلاکتیں بھی شامل کی جاتی ہیں تو مرنے والوں کی تعداد کا اندازہ تین کروڑ بیس لاکھ سے زیادہ کا ہے اس تعداد میں زخمی شامل نہیں، نہ ہی عورتوں کی عصمت دری، عضو بریدگی، بیماریوں کا شکار اور کنگال ہونے والے اس میں شامل ہیں۔ دنیا تو مسلسل حالت جنگ میں ہے اور اسلحہ کے بیوپاری خوب نفع کما رہے ہیں ایک اور بات بہت اہم اور قابل غور بھی کہ معاشی طور پر امریکہ 14ٹریلین ڈالر کا مقروض ہونے کے علاوہ چین کی وجہ سے دیوالیہ ہونے سے بچا ہوا ہے لیکن چین امریکی جعلی کرنسی چھاپ کر یا سائبر حملوں کے ذریعے امریکہ کے مالیاتی نظام کو درہم برہم کرنا اپنا بنیادی مقصد بناچکا ہے۔
اندرون خانہ امریکہ ایشیا، میں تیسری جنگ چاہتا ہے اور وہ روس اور چین کی بڑھتی معاشی و سیاسی مداخلت کے پیش نظر نیوکلیئر آپشن پرسوچ سکتا ہے تاہم برطانوی ٹیلی گراف میں ایمرازایوانس ایک مضمون میں لکھتے ہیں ”چین ڈالر فروخت کرنے کے نیو کلیئر آپشن دے چکا ہے کیونکہ چین گرتے ہوئے ڈالر کے ذخائر کو اپنے لئے نقصان سمجھتا ہے“۔ یہ خبر خطرناک ہونے کے باوجود میڈیا میں مباحثے کا باعث نہیں بنی اور ایک خبر کے ساتھ بھی یہی حشر ہوا جی ایٹ کے وزرائے محنت نے روم میں منعقدہ کانفرنس میں یہ کھل کر موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ”جب تک معاشروں میں استحکام نہیں ہوتا، عالمی معیشت میں بہتری لانا ممکن نہیں اسی کانفرنس میں بین الاقوامی ادارہ محنت کے ڈائریکٹر جنلر جان سو ماویا نے موجودہ استحصال زدہ نظام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہم آزاد معیشت کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں جبکہ ریاست، محنت کی عظمت اور معاشرتی یکجہتی کی اہمیت کم کردی۔ اس سے افزوں غیر معمولی اور معروضی تبصرہ کیا ہوسکتا ہے۔ ایک طرف بیل آؤٹ پیکیج دیا جارہا ہے دوسری جانب دہشت گردی میں تیزی آرہی ہے جس کے نتیجے میں دنیا کی معیشتوں میں بھونچال آیا ہوا ہے۔ ادھر امریکہ کی عراق اور افغانستان میں مشکلات بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہیں گزشتہ دنوں کابل میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک وفد کے سامنے حامد کرزئی بڑے زوردار الفاظ میں کہہ رہے تھے افغانستان میں جنگ ختم کرانے کے لئے اقوام متحدہ کوئی نظام اوقات اور حکمت عملی طے کرے کیونکہ جس نہج پر ہر جنگ جاری ہے یہ کبھی ختم نہیں ہوگی بلکہ ہم سب ختم ہوجائیں گے۔ ایک سوال حامد کرزئی کا بہت اہم تھا انہوں نے پوچھا کہ دنیا بھر کی بہترین 48ممالک کی افواج افغانستان میں اکٹھی ہیں۔ کثیر رقم اس جنگ میں صرف کی جارہی ہے تو پھر طالبان مضبوط تر کیوں ہورہے ہیں؟ اس کا جواب امریکہ نہیں دے گا بلکہ قطر میں ہونے والی طالبان اور امریکہ کی مسلسل بات چیت بین السطور اس کا جواب بھی ہے اور کئی سوال بھی ہمارے سامنے رکھتی ہے۔ بڑی طاقتوں کے لئے نپولین کی مثال تاریخ پیش کرتی ہے کہ واٹرلُو پر کس طرح ایک لحظے میں فرانس کا سپر پاور ہونے کا محل منہدم ہوگیا۔ اس لئے بڑی طاقتوں کو سنجیدگی سے افغانستان میں قیام امن کے لئے سوچنا ہوگا، بھاگنا نہیں ہوگا اور نہ ہی کوئی بھاگنے دے گا ایشیاء کا امن افغانستان، عراق، کشمیر اور اسرائیل سے نتھی ہے۔ اسرائیل کو اگر لگام نہ دی گئی تو تیسری عالمی جنگ سے بچنا محال ہوگا، توانائی میں مسابقت، آبادی کا بڑھنا، ماحول کی خرابی، پانی کی قلت اور فوڈ سیکورٹی جیسے مسائل دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ اب کہ اگر جنگ ہوئی تو بقول ساحر کے انسان تو کیا انسان کی پرچھائیاں تک نہیں رہیں گی۔