• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے نزدیک پاکستان اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ خاص تحفہ ہے۔ اگر ہم پاکستان کے تاریخی اور روحانی پہلوئوں پر نگاہ ڈالیں تو صاف دکھائی دے گا کہ پاکستان کو روحانیت کی دنیا کے بادشاہوں نے اپنی خاص محبت سے بنایا۔ اس وطن کے حصول کے لئے عاشقانِ رسولؐ اور عاشقانِ اہل بیتؓ نے بڑی جدوجہد کی۔ اس وقت بھی کچھ لوگ پاکستان کے مخالف تھے وہ آج بھی کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی سازش میں مبتلا ہیں۔

فطرت کی ترجمانی سے دور انسان اس وقت بھی پاکستان کے مخالف تھے اور آج بھی الٹی سیدھی باتیں کرتے ہیں۔ دولت کے پجاری قیام پاکستان کے خلاف تھے وہ آج بھی پیسے کے لالچ میں پاکستان دشمنی سے باز نہیں آتے۔

بے شمار تاریخی واقعات ہیں مگر آج میں کوئی واقعہ نہیں لکھوں گا بلکہ میں ایک پاکستانی سے کچھ باتیں پوچھوں گا، اس کے سامنے آئینہ رکھوں گا تاکہ وہ اپنا چہرہ اس میں دیکھ لے۔ کبھی آپ نے سوچا کہ آپ ایک پاکستانی ہیں اور بطور پاکستانی آپ نے اپنے وطن کے لئے کیا کیا ہے؟

ایک ایسا وطن جس نے آپ کو آزاد فضائوں میں سانس لینے دیا، آپ نے سماجی ، مذہبی اور سیاسی آزادیوں کے ضامن پاکستان کا نام روشن کرنے کے لئے کیا کیا؟ آپ کو پتہ ہونا چاہئے کہ آج بھی ہندوستان میں محض گائے کے گوشت کے نام پر آپ جیسے انسانوں کو زندہ جلا دیا جاتا ہے، کبھی مار مار کر لہو لہان کردیا جاتا ہے، آپ اکیسویں صدی میں بھی ہندوستان میں فریج میں گوشت نہیں رکھ سکتے۔

آپ جب تعلیمی میدان میں بوٹی لگاتے ہیں یا جعلی سند لیتے ہیں تو کیا آپ شرم محسوس نہیں کرتے کہ آپ کی اس جعل سازی سے پاکستان کی کونسی خدمت ہوئی؟ آپ جب جعلی اسناد کے تحت کسی بھی محکمے میں بھرتی ہوتے ہیں تو کیا آپ آئینہ دیکھنا بند کر دیتے ہیں؟ کیونکہ ضمیر نام کی کوئی چیز بھی ہوتی ہے، آپ نے کبھی سوچا کہ آپ کےاس فعل سے کتنے لوگ نوکری سے محروم ہوگئے، میرٹ کی کس قدر خلاف ورزی ہوئی، آپ نے اپنے پاک وطن میں ناانصافی اور ظلم کو رواج دیا۔

ایک پاکستانی کے طور پر جب آپ آئینہ دیکھتے ہیں تو کیا آپ کو محسوس نہیں ہوتا کہ آپ نے غلط کیا ہے؟ اسی طرح آپ لاہور، کراچی یا پھر بیرون ملک پڑھنے کے بعد محض سی ایس ایس کرنے کے لئے بلوچستان یا سندھ دیہی کا ڈومیسائل استعمال کرتے ہیں تو آپ کو شرم نہیں آتی؟

پھر جب آپ فیڈرل سروس بورڈ کے چیئرمین یا ممبر کی حیثیت سے محض صوبے، زبان، فرقے، تعلیمی ادارے یا ذات برادری کے نام پر ڈنڈی مارتے ہیں تو آپ کا ضمیر آپ کو کچھ نہیں کہتا کہ آپ نے موت کے دروازے پر آ کر بھی ناانصافی سے کام لیا، آپ کی اس ناانصافی سے پیارے پاک وطن کو کتنا نقصان ہوا؟

آپ کھیلوں کے میدان میں اترتے ہیں تو پھر جوئے کا شکار ہوتے ہیں، پیسے لے کر ہارتے ہیں تو کبھی آپ سوچتے ہیں کہ آپ نے اپنے ملک کے ساتھ کتنا بڑا ظلم کیا، آپ کے لالچ نے ملک کو بدنام کیا، کبھی جب آپ جہاز اڑا رہے ہوتے ہیں تو کیا سوچتے ہیں کہ یہ جہاز وطن کی امانت ہے اور امانت میں خیانت نہیں کرنی چاہیے، جب آپ جعلی ڈگری لے کر جہاز اڑا رہے ہوتے ہیں تو کبھی آپ نے سوچا کہ آپ نے حق داروں کا حق مارا؟

جب آپ فرقہ واریت کی آگ لگاتے ہیں، صوبائی تعصب یا لسانی تعصب کی آگ سھڑکاتے ہیں تو کبھی ایک لمحے کے لئے رک کر سوچتے ہیں کہ آپ نے اپنے عظیم وطن کے ساتھ کتنا بڑا ظلم کیا، جب آپ کسی بھی شعبے سے منسلک ہو کر کسی دوسرے ملک کا ایجنٹ بنتے ہیں تو آپ کو شرم نہیں آتی کہ آپ نے محض چند ٹکوں کی خاطر خود کو بیچا، آپ نے اپنے پاک وطن کے خلاف کام کیا، ذرا آئینے کے سامنے جائیے اور اپنا سیاہ چہرہ دیکھئے کہ دولت کی ہوس میں مبتلا لوگوں کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے۔

کبھی آپ نے سوچا کہ جب آپ کسی انتظامی عہدے یا ایسی کرسی پر ہوتے ہیں جہاں سے لوگوں کو انصاف کی توقع ہو اور آپ محض رشوت لے کر یا کسی سیاسی وابستگی کی پیروی کرتے ہوئے انصاف کے تقاضے پورے نہ کریں یا جو انتظامی ذمہ داریاں آپ کے پاس امانت ہوں، آپ ان کی انجام دہی میں خیانت کریں تو آپ دراصل اپنے پیارے پاکستان کے خلاف کام کر رہے ہوتے ہیں۔

آپ جب کسی بڑے سیاسی عہدے پر ہوں یا کسی ذمہ دار حیثیت میں ہوں اور آپ مال بنائیں پھر اس مال کو بیرون ملک بھجوائیں تو یقیناً آپ نے ظلم کیا، ناانصافی کی، آپ نے ایک ناقابل معافی جرم کیا، آپ کے اس سیاہ کرتوت سے کیا وطن کی خدمت ہوئی؟ ہرگز نہیں۔

آپ کے پاس گفتگو کا آرٹ ہو یا آپ کے ہاتھ میں قلم ہو اگر آپ کےلفظ وطن کے خلاف استعمال ہوں تو پھر آپ کا کردار قابل لعنت ہے۔ آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ اس عظیم پاکستان کی بنیادوں میں شہیدوں کا لہو ہے۔ اس عظیم وطن کی حفاظت کے لئے اب بھی اس کے سپوت جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں، جان جذبے سے دی جاتی ہے۔

جان دینا آسان کام نہیں اگر کوئی آپ کو مہینے کی پچاس لاکھ تنخواہ بھی دے تو جان دینے کا عمل آپ پھر بھی اختیار نہیں کریں گے کیونکہ اس عمل کے لئے سچے اور مخلص جذبے کا ہونا ضروری ہے۔

آج چودہ اگست کو آپ سب لوگ خود کو آئینے میں دیکھیں،آپ کا چہرہ بتا دے گا کہ آپ نے اس پاک وطن کے لئے کردار درست ادا کیا ہے یا نہیں؟ اگر آپ کاسیاسی و سماجی نظام ظلم پر مشتمل ہوگا تو پھر نوید بخاری جیسا کوئی شاعر یہی کہے گا کہ :

ہاں اپنے مسیحا کو بھی اب یاد نہیں ہم

ہم صدیوں سے ہیں برباد، آباد نہیں ہم

تازہ ترین