مریم نوازشریف سے آپ کا سیاسی یا نظریاتی اختلاف ہے تو ضرور کریں لیکن جب آپ تنقید کرتے ہوئے اسے مریم نواز کے بجائے مریم صفدر کہہ کر پکارتے ہیں تودراصل ان تمام بیٹیوں کی دل آزاری اور اہانت کے مرتکب ہوتے ہیں جو اپنے باپ سے والہانہ محبت کے باعث ان کے نام نامی سے منسوب رہنا چاہتی ہیں۔
ہمارے ہاں ایک روایت نہایت مستحکم ہے کہ بچیاں شادی سے قبل اپنے باپ کے حوالے سے پہچانی جاتی ہیں اور بعد از نکاح اپنے شوہر کے نام پر زندگی گزارتی ہیں ، گویا ان کی اپنی کوئی پہچان نہیں، ان کی اپنی الگ سے کوئی شناخت نہیں، ان کی کوئی انفرادی حیثیت نہیں، وہ جیتی جاگتی انسان نہیں بلکہ کوئی گاڑی ، پلاٹ یا بینک اکائونٹ ہیں جو ایک شخص سے دوسرے کے نام منتقل کر دیا جاتا ہے ، بعض افراد تو مزاحمت کرنے والی خواتین کو ہراساں کرنے سے بھی باز نہیں آتے اورشادی کے بعدنام تبدیل کرنے کے لئے ہر ممکن دبائو ڈالا جاتا ہے ۔
اگر اس مردانہ چلن کو محض معاشرتی رسم کی حیثیت حاصل رہتی تو میں اسے مغربی معاشرے کی نقالی کا ایک اور منہ بولتاثبوت سمجھ کر نظر انداز کر دیتا ۔ لیکن ستم بالائے ستم تو یہ ہے کہ اسے اسلام کیساتھ جوڑنے کی حتی الوسع کوشش بھی کی جاتی ہے اور بعض عاقبت نااندیش مغرب نواز دانشور اس جاہلانہ رواج کو بھی مشرقی قدروںاور اسلامی تعلیمات کا حصہ قرار دیتے ہوئے شریعت پر افترا کو اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں .
چند برس قبل مجھ ایک خاتون نے خط لکھا اور بتایا کہ والد کی مناسبت سے اس کا نام سدرہ یونس رکھا گیا تھا اب چونکہ اس کی شادی اقبال نامی شخص سے ہو گئی ہے لہٰذا شوہر نامداراسے سدرہ اقبال کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ خاتون کااپنے باپ سے والہانہ محبت و عقیدت کی بنیاد پر یہ اصرار ہے کہ وہ سدرہ یونس ہی رہےگی، سدرہ اقبال کسی صورت نہیں ہوگی۔
یہ محض ایک شادی شدہ جوڑے کا مسئلہ نہیں بلکہ کم و بیش ہر دوسرے گھر میں اس بات پر جھگڑا ہوتا ہے، بعض ناقدین اسے عورتوں کے استحصال سے جوڑتے وقت اسلام کو درمیان میں لانا اپنا فرض منصبی گردانتے ہیں حالانکہ اس رجحان کا دور دور تک اسلام سے کوئی تعلق نہیں.
اگر ایسا کرنا اسلامی ہوتا تو سب سے پہلے امہات المومنین مناکحت کے بعد حضرت محمدﷺ کا نام نامی اپنے نام کیساتھ جوڑتیں لیکن پورے عرب یا اسلامی معاشرے میں اس کی کوئی ایک مثال بھی نہیں ملتی بلکہ دین اسلام کے احکامات تو بہت واضح ہیں اس سلسلے میں سورہ احزاب کی آیت میں بھی یہ تصریح موجود ہے کہ کسی کو اس کے باپ کے علاوہ کسی اور نام سے نہ پکارو، اگرچہ یہ آیت لے پالک بچوں کی ولدیت تبدیل کرنے کے معاملے پر اتری تھی لیکن جب ایک لے پالک بچے سے اس کی شناخت چھیننے پر اس قدر واضح احکامات موجود ہیں تو خواتین سے ان کی پہچان ترک کرنے کا مطالبہ کیسے اسلامی ہو سکتا ہے۔
گویا ہم یہ نتیجہ اخذ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ روایت غیر اسلامی ہے۔ بعض علما تو شادی کے بعد لڑکی کا نام تبدیل کرنے کو حرام قرار دیتے ہیں۔
میرے خیال میں اس حوالے سے تو دو آرا ہو سکتی ہیں کہ کوئی عورت اپنے شوہر کا نام اپنی مرضی سے لگانا چاہے تو کوئی قباحت ہے یا نہیں لیکن اس پر مکمل اتفاق ہے کہ ایسا کرنا اسلام کی رو سے ہرگز لازم نہیں ۔
غالباًیہ مسیحی مذہب سے مستعار لی گئی روایت ہے چونکہ مسیحیت میں شادی کے بعد عورت اپنی علیحدہ حیثیت سے محروم ہو جاتی ہے جو مال و دولت اس کے پاس ہوتا ہے وہ اس کے شوہر کا ہو جاتا ہے لہٰذا مغربی معاشرے میں شوہر کا نام ہی اس کی پہچان بن جاتا ہے جبکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق شادی کے بعدنہ صرف عورت کا مال و متاع بدستور اس کی ملکیت رہتا ہے بلکہ شوہر کی جائیداد میں سے بھی وہ آٹھویں حصے کی حقدار ہوتی ہے۔
میں تو ان دونوں انتہائوں کیخلاف ہوں، جو لوگ نام بدلنے پر اصرار کرتے ہیں وہ بھی غلط کرتے ہیں اور جو لوگ ایسا کرنے کو حرام اور گناہ قرار دیتے ہیں وہ بھی شدت پسندی سے کام لیتے ہیں ، اگر کوئی خاتون اپنی خوشی سے نام تبدیل کرکے شوہرکے نام کا اضافہ کرلے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے کیونکہ شوہر کے نام کا اضافہ کر لینے کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ اس خاتون نے اپنا باپ تبدیل کرلیا ہے.
لیکن اس کلچر یا رجحان کو اسلام کیساتھ نتھی کرنا سراسر غلط ہے۔ اور اس بحث سے قطع نظر، شادی کے بعد نام تبدیل کرنے میں ویسے ہی بہت پیچیدگیاں ہیں کیونکہ باپ تو کسی صورت تبدیل نہیں ہوتا لیکن شوہر تو بدل بھی سکتا ہے، خدا نخواستہ طلاق بھی ہو سکتی ہے تو عورت ہر مرتبہ اپنا نام تبدیل کرتی پھرے۔
عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ جو نام ایک مرتبہ منسوب ہو جاتا ہے وہ پھر تبدیل نہیں ہوتا، مثلاً عمران خان اور جمائما کی علیحدگی کو کئی سال گزر چکے ہیں ،عمران خان کی بشریٰ بی بی سے شادی کے بعد جمائما نے باقاعدہ اعلان کیا کہ اب انہوں نے اپنے نام سے ’’خان ‘‘کا لاحقہ ہٹا دیاہے لیکن میڈیا آج بھی انہیں جمائما خان ہی کہتا ہے۔
ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں شوہر کے نام کا پہلا حرف بیوی کے نام کیساتھ جوڑا جاتا ہے مگر مغربی معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا وہاں آخری نام کا اضافہ کیا جاتا ہے.
مثلاً جمائما کے باپ کا نام جیمز گولڈ اسمتھ ہے اسلئے اسے جمائما گولڈ اسمتھ کہا جاتا تھا، جب عمران خان سے شادی ہوئی تو اسے پاکستانی معاشرے کی ترتیب کے لحاظ سے جمائما عمران کہا جانا چاہئے تھا لیکن اسے وہاں کی معاشرتی اقدار کے حساب سے جمائما خان کہا گیا۔
مریم نواز شریف کی طرح جب آپ بلاول بھٹو زرداری کو محض بلاول زرداری کہنے پر اصرار کرتے ہیں تو دراصل آپ اپنی ذہنی مفلسی اور اخلاقی دیوالیہ پن ظاہر کرتے ہیں۔