• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا ہم سب روبوٹ بن جائیں گے؟… روبوٹ اٹلس ATLASکی طرح یا پھر روبوٹ SOPHIAکی طرح سارے کام انجام دیں گے۔ مشینی دماغ کے تابعدار کی حیثیت سے چلنا، پھرنا، کام کاج، سوالات کے جوابات دینا۔ آفس، فیکٹریز اور اسپتالوں میں ڈیوٹی دینا۔ اس کے ساتھ ساتھ روبوٹ صوفیہ کی طرح آنکھیں جھپکنا اور ہلکے سے مسکرانا اور …اور بس… یہ خیال اب ہر وقت ہی دماغ میں رہتا ہے،وجہ دراصل کورونا کی وبا کی وجہ سے کسی سے ملنا جلنا، آنا جانا سب بند تھا۔ جب حکومت نے لاک ڈائون میں نرمی کردی تو ڈیڑھ دو ماہ کے بعد میری بیٹی اپنے چھ سالہ بیٹے کےساتھ ملنے چلی آئی۔ 

نواسے کو دیکھتے ہی میں بڑی گرم جوشی سے میں اپنی بانہیں پھیلا کر اس کی طرف بڑھی تو وہ یکدم پیچھے ہٹتے ہوئے بولا، نو بڑی ماما… Distance پلیز…اور میں وہیں ٹھہر گئی…بس رک ہی گئی۔ عجیب سے احساسات کے ساتھ ۔پچھلے دنوں ہمارے پرانے ملازم کا انتقال ہوگیا۔ میں SOPپر عمل کرتے ہوئے ماسک اور دستانے پہن کر تعزیت کے لیے ان کے گھر چلی گئی۔ ان کی بیٹی مجھے دیکھتے ہی تیزی سے میری طرف آئی۔ باجی، بابا چلے گئے، کہہ کر کندھے سے لگ کر زاروقطار رونے لگی۔ 

دل پریشان ہوگیا ۔میرا بھی گلا رندھ گیا آنکھیں نم ہوگئیں اور میں اسے گلے لگا کر تسلی دینے لگی۔ ایک دم دماغ نے خبردار کیا کہ سماجی فاصلہ رکھو… کہیں یہ لڑکی کورونا زدہ نہ ہو… اور میں نے آہستگی سے اسے اپنے کندھے سے الگ کردیا اور تسلی دینے لگی۔ پر کہیں دل میں ایک خیال تھا کہ یہ درست نہیں ہے۔ دل نے شکوہ کیا دماغ نے روک دیا اور توجیہہ پیش کردی۔ یہ ہی درست ہے۔ خیال تو مرجاتا ہے مگر اذیت دیتا رہتا ہے بلکہ دماغ کی حکمرانی آپ کو نفع نقصان سے آگاہی دیتی ہے، جس سے بس یہی سوچتی ہوں کہ ہم سب روبوٹ بن جائیں گے ۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے بھی کہہ دیا ہے کہ ہمیں کورونا کے ساتھ زندہ رہنا سیکھنا ہوگا اور فی الحال اس سال کے آخر تک کورونا کی ویکسین تیار ہوجانے کا بھی کوئی امکان نہیں ہے بس کورونا کے ساتھ رہنا ہوگا ۔احتیاطی تدابیر اختیار کرکے یعنی ماسک، دستانے، سینی ٹائزر، سماجی فاصلہ، ہاتھ نہ ملائیں، گلے نہ لگائیں، 6فٹ کا فاصلہ رکھیں، ماسک کا مسلسل استعمال ہونے لگا ہے اور ہوتا رہے گا

ناز کی انکے لب کی کیا کہئیے

پنکھڑی اک گلاب کی سی

یا صرف اس کے ہونٹ کاغذ پر مار دیتا ہوں

خود بنالیتی ہے ہونٹوں پر ہنسی اپنی جگہ

جیسے اشعار کہاں ہونگے موتیوں جیسے دانتوں کا ذکر کیسے ہوگا۔ چہرے کے تاثرات کی زبان، لہجے کا کمال اور مسکراہٹ کا جمال قصہ ٔ پارینہ ہوجائیں گے۔نادانیاں، شیطانیاں، خاموشیاں، تنہائیاں اور اداسیاں جیسے احساسات ناپید ہوجائیں گے۔ جگنو، ستارے، دھوپ چھائوں، دھنک رنگ کم، غم کے شرارے، کچھ خوشی کے اشارے سب اپنی اہمیت کھو دیں گے، کیوں کہ ہم سب تو روبوٹ بن جائیں گے اور تو اور چھ فٹ کے فاصلے سے تو دھیمہ لہجہ اور سرگوشی بھی سنائی نہ دے گی۔ پھر ایسے اشعار کہاں سننے کو ملیں گے۔

یہ کیسی سرگوشی ازل ساز دل کے پردے ہلارہی ہے

میری سماعت کھنک رہی ہے کہ تیری آواز آرہی ہے

مگر کیا کریں ہاتھ ملانا، گلے لگانا منع ہے ،کیوں کہ کورونا کے ساتھ رہنا سیکھنا ہے۔ ہاتھ پکڑ کر محبت سے سمجھانا منع ہے، روتے ہوئے کو گلے لگا کر دلاسہ دینا منع ہے، سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دینا بھی منع ہے اور پھر رفتہ رفتہ ہم روبوٹ بن جائیں گے۔ روبوٹ جذباتی نہیں ہوتا۔ وہ غصہ نہیں کرتا، کسی بات کو دل پر نہیں لیتا، وہ آنسوئوں سے روتا بھی نہیں ، کیوں کہ یہ نشانیاں ایک نارمل جیتےجاگتے انسان کی ہیں اور ان جذبات کا تعلق دماغ سے نہیں بلکہ دل سے جڑا ہے۔

نہ سوال وصل نہ عرص غم نہ حکایتیں نہ شکایتیں

تیرے عہد میں دل زار کے ،سبھی اختیار چلےگئے

مگر مجھے سمجھ نہیں آتا کہ حرص، لالچ، غاصبانہ خواہشات اور بداعمالیاں جنکی وجہ سے یہ خوبصورت دنیا انتہائی بدصورت ہوگئی ہے ان کاتعلق دل سے ہے یا دماغ ہے…؟

اقبال نے کیا خوب کہا تھا:

لازم ہے دل کے پاس رہے پاسبان عقل

لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دو

مگر جب دل کی سننا ہی منع ہو اور دماغ کی ماننا ضروری ہو تو پھر کیا چھوڑنا اور کیا پاسبانی۔ پر یاد رکھیں سوچ بچار، غم، خوشی، دکھ سکھ، خوف اور اُمید کا تعلق دل اور دماغ دنوں سے ہے۔

ویسے بھی پرسکون زندگی گزارنے کے لیے کسی لمبے چوڑے فلسفے، تپسیا یا ریاضت کی ضرورت نہیں ہوتی، بس محبت سے دوسروں کے حقوق کا خیال کرتے ہوئے ان کے لئے آسانیاں پیدا کرنا ہی کافی ہوتا ہے، مگر شاید یہ دل کے معاملے ہیں پھر خیال کو مہمیز ملتی ہے۔ دوسرا رخ نظر آنے لگتا ہے کہ روبوٹ بن جانے کے فوائد بہت زیادہ ہیں کہ جب سب روبوٹ بن جائیں گے تو ظلم اور زیادتی نہیں ہوگی، محبت نہیں ہوگی تو نفرت بھی نہیں ہوگی، رشتوں میں دراڑ نہیں پڑے گی، دل نہیں ٹوٹیں گے ، لوگ خودکشی نہیں کریں گے، ذہنی بیماریوں میں مبتلا نہیں ہوں گے، لڑکے اور لڑکی میں تفریق نہیں ہوگی، غیرت کے نام پر قتل نہیں ہوں گے، روبوٹ کے جسم میں دل نہیں ہوتا، اس کی رگوں میں گرم خون نہیں دوڑتا، بے حس معاشرے میں زندہ رہنے کے لیے شاید روبوٹ بن جانا ہی بہتر ہے، مگر پھر بھی دل دعا کرتا ہے ۔خدائے لم یزل…کوئی ایسا منظر نہ دکھانا،جس میں ہم ہنسنے رونے کو ترستے ہوں ہمیں دن کے وقت روشنی کو نہ ترسانا، ہمیں بے مہر انسان نہ بنانا۔

تازہ ترین