سنِ ہجری کے آغاز ’’محرم الحرام‘‘کی آمد پر ہرسال نواسۂ رسولؐ،شہیدِ کرب و بلاامامِ حسین ؓ اور ان کے جاں نثاروں،رفقاء،معصوم بچوں اور خاندان کی مستورات کی غم و اندوہ سے بھری داستان کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔حضرت امام حسینؓ صغرسنی میں اپنی مادر گرامی ،خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ کی شفقتوں سے محروم ہوگئے تو آپؓ کے والد شیر خدا حضرت علی المرتضیٰؓ نے آپؓ کو تعلیمات الٰہیہ اور صفاتِ حسنہ سے بہرہ ور کیا۔21رمضان المبارک 40 ہجری کو حضرت علیؓ شہادت سے سرفراز ہوئے جس کے بعد حضرت امام حسین ؓکی نگہداشت کی ذمہ داری امام حسن ؓ پر عائد ہوئی، 28صفر50ہجری کو امام حسن ؓ بھی داغ مفارقت دے گئے تو اس وقت امام حسین ؓ صفات حسنہ کے مرکز بن گئے۔ یہی وجہ ہے کہ آپؓ میں تمام جملہ صفات حسنہ موجود تھیں۔ آپ ؓ کے طرزِ حیات میں رسول اکرم حضرت محمد ﷺ، شیرخدا حضرت علیؓ، سیدہ فاطمہ ؓ اورحضرت حسن ؓ کا کردار نمایاں تھا۔ آپ ؓ کا ہر قول و فعل قرآن و حدیث کی روشنی میں ہوتا۔
61 ہجری کو امام حسین ؓ اپنی مختصر سی جماعت اور خاندان کو لے کر کوفے روانہ ہوئے، راستے میں حُر سے ملاقات ہوئی، اس کے بعد امام عالی مقامؓ نے اپنا راستہ بدل دیا اور ایک ایسے راستے پر چل پڑے جو نہ کوفہ جاتا اور نہ مدینہ۔ واقعات پر غور کیجیے پہلے تو امامؓ مدینے سے مکّہ گئے اور پھر کربلا کا رخ کیا۔اس ساری داستان کا مقصد صاف اور واضح ہے دین حق اور قانون الٰہی کا دفاع اور رضائے الٰہی کا حصول۔ امام عالی مقامؓ جانتے تھے کہ اس راستے پر چلنا چاہیے جس سے دین کی سربلندی ہو۔ جہاں سے پھر واپسی کا سوال ہی پیدا نہ ہو۔ امام عالی مقام ؓنے عاشوراء کے دن ابن زیاد کے عہدیداروں سے فرمایا کہ اگر اہل کوفہ نہیں چاہتے کہ میں ان کے شہر جائوں تو مجھے چھوڑ دو، میں جہاں سے آیا ہوں، وہیں واپس چلا جائوںگا۔ آپ قصر بنی مقاتل کی منزل سے روانہ ہورہے تھے ،ابھی حرنے ابن زیاد کو جو خط لکھا تھا، اس کا جواب نہیں آیا تھا، اس لئے یہ بات صاف نہیں ہوئی تھی کہ آخری فیصلہ کیا ہوگا؟
امام حسین ؓ یہ جانتے تھے کہ یہ لوگ میرے خون کے پیاسے ہیں، مسلم بن عقیل کے خط پر امام حسین ؓ مکے سے کربلا روانہ ہوئے، راستے میں بہت سے لوگ حسینی قافلے میں شامل ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ عراق کے نزدیک پہنچ کر امام عالی مقامؓ کو یہ اطلاع ملی، حالات وہ نہیں رہے، جن کی مسلم بن عقیل نے اطلاع دی تھی۔ حالات بالکل بدل چکے ہیں، مسلم بن عقیل شہیدہوچکے تھے۔ عبداللہ بن بقطر جو کہ مسلم بن عقیل اور اہل کوفہ کے نام خط لے کر گئے تھے ،وہ راستے ہی میں گرفتار ہوکر قتل ہوچکے تھے۔
حضرت امام عالی مقامؓ نے اپنے ہمراہیوں کو ایک جگہ جمع ہونے کا حکم دیا۔ اس کے بعد وہاں آکر ایک تحریر پڑھی۔ حمد و ثنا کے بعد فرمایا: ’’اے لوگو، کوفے سے جو اندوہناک خبریں آرہی ہیں، وہ تم لوگوں نےسن لی ہوں گی، لوگوں نے ہمارے ساتھ بے وفائی کی ہے، میں اپنا سفر جاری رکھنا چاہتا ہوں۔ تم میں سے جو شخص مال و منال ، مقام، منصب اور خوش حال زندگی کی امیدیں لئے میرے ساتھ آیا ہے، وہ چلا جائے۔جو لوگ اثنائے راہ میں سے ان کے ساتھ ہوگئےتھے ،وہ چلے گئے، اب امام عالی مقامؓ رہ گئے تھے اور وہ لوگ جو مدینے سے ان کے ساتھ آئے تھے ،ان کے علاوہ چند ایک افراد جو راستے میں ساتھ ملے، وہ ثابت قدم رہے۔
کربلا میں ضرورت ہی ایسے لوگوں کی تھی جو با ہمت اور بلند حوصلہ ہوں۔ کربلا پہنچنے سے پہلے امام حسینؓ نے ایک مرتبہ فرمایا: ہم موت کے استقبال کے لیے جارہے ہیں۔ یہ ضروری بھی تھا کہ لوگوں کے ذہن نشین کردیا جائے کہ وہ کوفہ کی حکومت لینے نہیں آئے، بلکہ انہیں ان کے ہاتھ پر بیعت کےلیے کوفہ بلایا گیا ہے۔ اسی لئے امام عالی مقامؓ نے بار بار فرمایا کہ اگر تمہیں میرا آنا پسند نہیں تو میں واپس چلا جاتا ہوں۔ یہ خیال نہ کرو کہ میرا ہاشمی خون جوش میں آگیا ہے ،اب مجھ میں زندہ رہنے کی تاب نہیں، اب میں خود کو موت کے حوالے کرنے جارہا ہوں۔ امام عالی مقامؓ کے گھرانے نے صبرو استقامت کی منزلیں طے کرکے دنیا والوں کو ایک پیغام دیا کہ گھروں میں بیٹھ کر اسلام کا تذکرہ کرنا اور بات ہے اور ریگزار کربلا میں اپنے چھ مہینے کے علی اصغرؓ اور18سال کے کڑھیل جوان بیٹے کی لاش کو اپنے ہاتھ سے اٹھانا اور بات ہے۔
ہمیں حضرت قاسم کا وہ جملہ یاد رکھنا چاہئے کہ جب کڑھیل جوان نے چچا حسینؓ کی جانب دیکھ کر کہا، چچا موت میرے لیے شہد سے زیادہ میٹھی ہے۔ مسلم بن عقیل کے فرزندان کی اسلام کےلیے بے مثال قربانی بھی یاد رکھنی چاہیے۔ ہمیں وہ وقت کبھی نہیں بھولنا چاہیے، جب اما م عالی مقامؓ نے اپنے شیر خواربچےاور پردے دار خواتین کو خیمے میں آکر رخصتی کے لیے کہا تھا۔ جب امام حسین ؓ کربلا گئے تو اہل کوفہ کو مخاطب کرکے کہا کہ اے لوگو، تم یہاں مجھ سے مقابلہ کرنے آئے ہو ،کیا تم نے اپنی زندگی میں رسول ﷺ کی زبان مبارک سے نہیں سنا تھا کہ حسین ؓمجھ سے ہے اور میں حسین ؓسے ہوں، کیا تم نے رسول ﷺ سے نہیں سنا تھا کہ جس نے حسین ؓ کو غم دیا، اس نے مجھے مغموم کیا۔
اے لوگو، تم نے نہیں سنا تھا کہ جب رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ حسنؓ اور حسینؓ نوجوانانِ جنت کے سردار ہیں۔ اللہ اسے دوست رکھے جو حسین ؓ کو دوست رکھے۔معرکہ کربلا میں حضرت امام حسین ؓنے اپنی اور اپنے خاندان کی جانوں کی قربانی دی اور ایسی مثال قائم کرگئے جس کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔ امام حسین ؓ 10محرم کو کربلا کے تپتے ہوئے ریگستان میں شہید کردیئے گئے۔
آپؓ کے ساتھ سب سے کمسن اور ننھے مجاہد حضرت علی اصغر ؓ نے میدان کربلا میں جہاد کیا، وہ تاریخ اسلام کے ایک ننھے مجاہد تھے، ان کےبہنے والے خون نے اسلام کو باقی رکھا، ورنہ یزید نے تو اسلام کو ختم کرنے کا محکم ارادہ کرلیا تھا۔’’واقعۂ کربلا‘‘ہمیں صبر و استقامت،جرأت و شجاعت ،باطل کے آگے سینہ سپر ہونے اور حق و صداقت کا علم بلند کرنے کا درس دیتا ہے۔ شہدائے کربلاؓ کا فلسفہ شہادت ہمیں یہ پیغام دیتا نظر آتا ہے کہ اسلام کی سربلندی اور دین مبین کی عظمت و بقا کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔