• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سبحان اللہ کتنا جامع اور روح افزا قول ہے کہ حضرت امام حسینؓ کا جسے ہماری فوج اپنا ’’ماٹو‘‘ بھی بنا سکتی ہے ۔آپ نے فرمایا ’’جب جسم موت کے لئے ہی بنا ہے تو پھر اللہ کی راہ میں شہید ہونا سب سے بہتر موت ہے ۔یہ مقامات ادب ہیں اور احتیاط لازم ، زندگی کا مقصد رضائے الٰہی کا حصول ہے۔اور رضائے الٰہی مضبوط ایمان کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ایمان اہل بیت کی محبت کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔اہل بیت کی اہمیت کا اندازہ کرنا ہو تو ہزاروں مثالوں میں سے ایک مثال یوم ’’مباہلہ‘‘ کی ہے ۔ عشق رسول ﷺ کا راستہ اہل بیت کی محبت سے گزرتا ہے اور عشق الٰہی کی منزل نبی آخر الزمان ﷺ کی وساطت سے حاصل ہوتی ہے ۔لیکن آج میرے ذہن میں ایک اور سوال گردش کر رہا ہے۔حضرت امام حسینؓ کی عمر کتابوں کے مطابق سات برس تھی جب ان کے پیارے نانا جان اور نبی آخر الزماں ﷺ کا وصال ہوا ،شہادت کے وقت حضرت امام کی عمر57سال تھی گویا درمیان میں پچاس برس کا عرصہ حائل ہے ۔حضور نبی کریمﷺ کے روحانی انقلاب نے دو دہائیوں کے اندر عربوں کو دنیا کی مہذب ترین قوم بنا دیا ۔ خلفائے راشدین کے دور میں نہ صرف اسلامی سلطنت کا رقبہ لاکھوں میلوں تک بلکہ اسلامی تعلیمات کی روشنی نے لاتعداد غیر مسلموں کو دائرہ اسلام میں داخل کیا۔

مجھے کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے وصال کے صرف پچاس برس بعد جب ابھی اسلام کے روحانی انقلاب کی روح نہ صرف تازہ تھی بلکہ طاقتور بھی تھی ایسا کیوں ہوا کہ پہلے اہل کوفہ نے بے شمار خطوط لکھ کر حضرت امام حسینؓ کو بلایا اور جب انہوں نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت مسلم بن عقیل کو بھیجا تو ان کے ہاتھ پر جوق درجوق بیعت کرنے کے بعد انہیں شہید کر دیا ۔ جب حضرت امام حسین اہل خاندان اور عقیدت مندوں کے ساتھ کوفہ پہنچے تو ان پر وہ مظالم ڈھائے جن کے ذکر سے تاریخ کی روح لرزتی اور زمین کانپتی ہے۔

ہمارا ایمان ہے کہ رضائے الٰہی ہر شے پر غالب ہے۔ ہر جاندار و بے جان اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی مرضی کے تابع ہے۔حضرت زینبؓ کا گورنرکوفہ ابن زیاد کے دربار میں یہ فرمان ہمارے لئے روشنی کا مینار ہے کہ میرے رب کے ہاں یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ وہ انہیں مقتول دیکھے ۔احادیث کی روشنی میں بہت سی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم ﷺکو علم تھا کہ ان کا یہ نواسہ کربلا میں شہید ہو گا اور ایک روایت کے مطابق حضرت جبریل نے اس مقام سے ریت بھی لاکر نبی کریم ﷺ کو دی تھی اور بتایا تھا کہ جب حضرت امام حسین ؓشہید کئے جائیں گے تو اس ریت سے لہو ٹپکے گا۔کوفہ کے سنگدل قاتلوں، یزیدی سپاہیوں اور کارندوں کا رویہ دیکھتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے ان پر دولت، انعام، عہدوں اور اقتدار کی ہوس غالب آ چکی تھی جس نے ان کے دلوں کو اندھا کر دیا تھا ۔

قرآن حکیم کا فرمان ہے آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہو جاتے ہیں۔دل ہی تو جسم کا حاکم ہوتا ہے اس اندھی ہوس کا اندازہ کوفہ کے حارث اور یزیدی کارندوں کے رویے اور اعمال سے بھی ہوتا ہے جو حضرت امام حسین جیسی عظیم ہستی کے خون کے درپے تھے ۔کوفہ کے گورنر نے گورنری کےلئے اپنا ضمیر ذہن اور ایمان گروی رکھ دیا تھا اور پانی کا راستہ بند کرنے والے سپاہی بھی ہوس سے اندھے ہو چکے تھے ۔قرآن حکیم نے اولاد اور مال کو فتنہ قرار دیا ہے اور اس فتنے نے یزیدی ملوکیت سے لیکر کربلا کے میدان تک جو گل کھلائے ان کی مثال نہیں ملتی۔ جب حضرت امام حسین نے اپنے جگر کے ٹکڑے سیدنا علی اکبرؓ کو مقابلے کی اجازت دی تو یزیدی فوج پر رعب طاری ہو گیا کیونکہ وہ ظاہری اور باطنی اوصاف و کمالات میں نبی کریم ﷺ سے مشابہت رکھتے تھے ۔دشمنوں پر لرزے کی کیفیت طاری تھی جب ابن سعد نے نامی گرامی پہلوان طارق سے کہا کہ اگر تم اس نوجوان کا سر کاٹ کر لائو تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں ابن زیاد سے موصل کی گورنری لے کر دوں گا یہ سن کر طارق مقابلے میں آیا اور قتل ہوا ۔جب ننھا علی اصغرامام عالی کی گود میں شہید ہوا تو بارگاہ الٰہی میں امام عالی مقام نے عرض کی ’’مولا کریم تو میری اس معصوم قربانی کو بھی قبول فرما‘‘ اللہ اللہ امام عالی مقام نے صبر، حوصلے اور رضائے الٰہی کی ایسی مثالیں قائم کیں جن کا نور قیامت تک جگمگاتا رہےگا ، صبرو رضا کی راہ دکھلاتا رہےگا اور جہاد کی روح کو زندہ رکھے گا۔

جو رضا میرے رب کی اللہ پاک کے محبوب ﷺ کے خانوادے پر اتنے مظالم توڑے گئے جن کے تصور سے روح کانپ اٹھتی ہے اور جن کی دوسری مثال بنی نوع انسان کی تاریخ میں نایاب ہے پھر غور کیجئے کہ حبیب الٰہی کے جگر کے ٹکڑے کہاں کہاں بکھیرے گئے ۔حضرت امام حسنؓ مدینہ میں مدفون ہیں ،حضرت امام حسین شہزاد گان علی اکبر اور علی اصغر کے ساتھ کربلا میں آرام فرما رہے ہیں ۔ حضرت علی ؓنجف شریف میں روحانیت کا سمندر بہا رہے ہیں۔ حضرت زینبؓاور امام عالی مقام کی پیاری بیٹی حضرت سکینہ شام میں مدفون ہیں۔ حضرت مسلم بن عقیل ؓ کی زوجہ جو کربلا اور دمشق کے زندان میں حضرت زینب اور حضرت سکینہ کےساتھ موجود تھیں اور حضرت علی ؓ کی سگی بیٹی ہیں حضرت زینب کی سوتیلی بہن ہیں وہ لاہور میں دفن ہیں ۔ان کا نام ہے بی بی رقیہ کبریٰ المعروف بی بی پاک دامن۔

ایک طرف مال وزر اور اقتدار کی اندھی سنگدلانہ ہوس اور دوسری طرف بھوک و پیاس، سر پہ منڈلاتی موت، صبرو رضا کی آزمائش اور سب سے بڑھ کر اللہ پاک اور نانا جان کے سامنے سر خروئی کا عزم، سوچتا ہوں ان تمام معاملات کے پس پردہ نہ جانے کیا حکمت الٰہی تھی کیونکہ اللہ کا کوئی کام حکمت کے بغیر نہیں ہوتا۔یہ راز میرا رب ہی جانتا ہے۔

تازہ ترین