سقوط مشرقی پاکستان کو بیتے دو نسلیں گزر گئیں لیکن قوم نے آج تک اس اندوہناک سانحہ کا اعتراف کیا اور نہ ہی وہ سبق حاصل کئے جو کرنے چاہئے تھے۔ ابھی ہم دسمبر 1971ء میں پاکستان کے دولخت ہونے کی ذمہ داری کا تعین نہ کر پائے تھے کہ اگست 2019ء میں سقوط کشمیر ہو گیا۔ اور جس طرح مرحوم بریگیڈیئر صدیق سالک نے ’’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘ لکھی، اب زیادہ دیر نہیں کہ مورخ ’’میں نے کشمیر ڈوبتے دیکھا‘‘ لکھے گا۔
مورخین کے مطابق 1971ء میں عسکری حکومت والا پاکستان مقابلے میں ’’کمزور‘‘ ریاست جبکہ جمہوری ہندوستان ’’سخت‘‘ ریاست ثابت ہوا۔ سقوط ڈھاکہ کے بارے میں یہ مشاہدہ بعینہٖ سقوط کشمیر پر لاگو ہوتا ہے۔ نصف صدی بعد بھی پاکستان کی کسی حکومت کو یہ جرأت نہیں ہوئی کہ وہ سانحہ مشرقی پاکستان پر حمود الرحمٰن کمیشن کی تفتیشی رپورٹ سرکاری طور پر شائع کرسکے۔ جب جمہوریت، عدلیہ اور میڈیا کا محاصرہ مستقل ہو تو کڑوے اور سنگلاخ سچ بولے نہیں جا سکتے۔
کڑوا اور سنگلاخ سچ یہ ہے کہ پانچ اگست 2019ء کو نریندر مودی کی ہندوتوا حکومت نے مقبوضہ کشمیر کو ہندوستان کا باقاعدہ حصہ بنا کر اور اس کے حصے بخرے کر کے پاکستان کی 72سالہ خارجہ پالیسی کا سب سے مضبوط ستون ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ کڑوا اور سنگلاخ سچ یہ ہے کہ ہندوستان نے بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے پرُزے کر دیے لیکن عمران حکومت تیرہ مہینوں میں کسی بین الاقوامی فورم سے ہندوستان کی مذمت میں ایک لفظ بھی حاصل نہ کر پائی۔
کڑوا اور سنگلاخ سچ یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے ہمارے بھائیوں اور بہنوں کے اُوپر بھارتی افواج نے جو قتل، تشدد، بے حرمتی اور انسانی حقوق کی پامالی کی ہے اُس پر بیرونی دنیا نے متذبذب ہمدردی کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ 25جولائی 2019ء کو ٹرمپ کی یاترا کے بعد عمران خان جب اسلام آباد پہنچے تو فرمایا کہ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں دوسرا ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں۔
اِس اعلان پر غور کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے ٹھیک دس دن بعد 5اگست 2019ء کو ہندوستان وہ کر گزرا جس کی اسے کبھی جرأت نہ ہوئی تھی۔ سفارتکاری قومی قوت کے تمام عناصر کو فہم کے ساتھ بیک وقت استعمال کرنے کا نام ہے۔ جس میں عمران حکومت مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتی ہے۔ عمران خان اور ان کے وزراء سوال کرنے پر پاکستان کی معاشی کمزوری کا رونا روتے ہیں اور اپنی سفارتی ناکامی، اپنی معاشی ناکامی کی طرح پچھلی حکومتوں پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عمران خان ایک ایسی حکومت کے سربراہ ہیں جسے اپنے ناتواں ہونے کا مکمل یقین ہو چکا ہے۔
اسی لئے پچھلے تیرہ مہینوں میں وزیر خارجہ دنیا کے دارالحکومتوں کے دوروں کے بجائے بار بار ملتان کا دورہ کرتے پائے گئے۔ مودی اور اس کی انتہا پسند حکومت کو بُرا بھلا کہنا اور اس کی فسطائیت کو بے نقاب کرنا بجا، لیکن اس سے حکومت پاکستان کی کشمیریوں کی طرف ذمہ داری پوری نہیں ہوتی۔ اس آہ و زاری سے مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے ہمارے بھائیوں اور بہنوں کی تکلیف میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں ہوئی۔ قوم سے بار بار جھوٹ بولا گیا کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں دوبارہ ایجنڈا پر آگیا ہے۔ اگست 2019سے اب تک سکیورٹی کونسل نے کشمیر کے بجائے ’’انڈیا پاکستان تنازعہ‘‘ پر صرف غیر رسمی گفتگو کی ہے اور ابھی تک اُس گفتگو کے ایک لفظ کا اعلامیہ بھی جاری نہیں کیا گیا۔
ہمارے دوست چین کی سفارتی مدد قابل تحسین ہے لیکن جب پاکستانی مدعی ہی سست ہو تو چینی گواہ کی چُستی کس کام کی؟عمران خان کی حکومت جو پاکستان میں آزادی اظہار، اپوزیشن اور صحافیوں کے جمہوری حقوق اور صوبوں کے آئینی استحقاق کو کچلنے کے درپے ہے، وہ دنیا میں کشمیریوں کے انسانی حقوق کی جنگ لڑنے کے قابل نہیں۔ ہندوستان کے زیرِتسلط کشمیری اُسی طرح زخم زخم ہیں۔
نوجوانوں کی لاشیں اُٹھ رہی ہیں، لاتعداد کشمیری آج بھی بد ترین تشدد کا شکار ہو رہے ہیں اور کسی کشمیری کی عزت، جان، مال اور گھر ہندوستان کی ریاستی دراندازی سے محفوظ نہیں ہے۔ ہندوستان کے غاصبانہ قدم کے ایک سال بعد پاکستان کا ردعمل ایک نقشہ، ایک گیت اور مقبوضہ کشمیر کیلئے ایک نئی اصطلاح پر محیط تھا۔ بجائے یہ کہ کشمیر کیلئے دنیا میں منظم اور مؤثر سفارتکاری کے ذریعے بھرپور آواز اٹھائی جاتی،حکومت نےدہشت گرد جاسوس کلبھوشن یادیو کی سہولت کاری کیلئے خفیہ قانون سازی کر ڈالی بجائے یہ کہ حکومت یکجان ہوکر کشمیریوں کا مقدمہ لڑتی، حکومتی وزراء ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں۔
عمران حکومت کا مفلوج پن اور سفارتی کمزوری ہی وہ ورلڈ کپ ہے جو وزیر اعظم دورہ امریکہ میں ٹرمپ سے لیکر آئے تھے۔ صدر ٹرمپ کی ایک سے زائد دفعہ مصالحت کی پیش کش ردی کا ٹکڑا ثابت ہوئی ہیں۔ کیا واشنگٹن میں کوئی ایسا سودا ہوا جس کے ذریعے لائن آف کنٹرول کو ہی بین الاقوامی سرحد بنانے کا ہندوستانی خواب حقیقت بننے کے قریب آگیا ہے؟
کچھ مہینے مزید سطحی احتجاج کے بعد عمران حکومت پاکستانی قوم کو زمینی حقائق قبول کرنے کی تبلیغ کرے گی اور سقوط کشمیر پاکستان کی تاریخ کا ویسا ہی سیاہ باب بن جائے گا جس طرح سقوط مشرقی پاکستان بن گیا تھا۔ اقبال کا لازوال مصرعہ نصف صدی بعد پھر کڑوا اور سنگلاخ سچ بن کر ہمارے سامنے کھڑا ہے؎
’’ہے جُرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات‘‘