• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے پتا ہے، جلد قوتِ گویائی سے محروم ہوجاؤں گی

کچھ ماہ قبل لندن میں قیام تھا۔ کھانے کی میز پرمشہور سائنس دان، اسٹیفن ہاکنگ کا ذکر چِھڑ گیا، جو بیسویں اوراکیسویں صدی عیسوی کے معروف ماہرِ طبیعات تھے اورجنہیں آئن اسٹائن کے بعد گزشتہ صدی کا دوسرابڑاسائنس دان قرار دیا جاتا ہے۔ ویسے تواُن کی متحیّر کردینے والی خدمات کا سلسلہ خاصا طویل ہے، لیکن ان کا تذکرہ معذوری کو اپنی طاقت بنا لینے کے حوالے سے زیادہ سامنے آیا۔ہمیں ہماری بھانجی ،فصیحہ رضا نے،جوبرطانوی وزارتِ خارجہ سے منسلک ہیں ،اسٹیفن ہاکنگ کے بارے میں تفصیلاً بتایا،بالخصوص ان کی زندگی کے آخری ایّام پر،جو وہیل چیئرپہ گزرے، تفصیلی بات کی۔ یاد رہے، اسٹیفن ہاکنگ60ءکی دہائی میں ’’موٹر نیوران ڈیزیز‘‘نامی بیماری کا شکار ہوگئے تھے، جسے معالجین نے لاعلاج مرض قرار دیتے ہوئےموت سے پہلے کی لرزہ خیز علامات کا بھی ذکر کیا تھا۔ ایم این ڈی نے پہلے ان کےہاتھ، پیر اور پھر زبان بھی مفلوج کردی ۔ 

یہاں تک کہ دنیا سے ان کا رابطہ صرف کمپیوٹر کے ذریعے رہ گیا،جسے وہ اپنی آنکھوں کی جنبش سے آپریٹ کرتے تھے۔ لیکن اس دوران بھی انہوں نے تحقیق و تخلیق کا عمل جاری رکھا۔ باتوں باتوں میں پتا چلا کہ لندن میں ایک پاکستانی خاتون، شازیہ بخاری بھی اسی مرض میں مبتلا ہیں ۔پاکستانی خاتون کے اس مرض میں مبتلا ہونے کی خبر نے اُن سے ملاقات کا تجسّس پیداکیا۔بھانجی نے بتایا کہ شازیہ کی بیٹی اُن کی کلا س فیلو تھیں، تو ملاقات کے لیے بآسانی وقت مل سکتا ہے۔ یوں، اگلے ہی روز ہم بہن اور بھانجی کے ساتھ شازیہ بخاری سے ملنے اُن کے فلیٹ پہنچ گئے۔ جہاں انہوں نے انتہائی گرم جوشی سے ہمیں خوش آمدید کہا۔ وہ اپنی اسپیشل ڈیزائنڈوہیل چیئر پر بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھیں۔ان سے مل کر ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ کشمیری چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں، دلیری، ہمّت اور بہادری اُن کے خون میں شامل ہے۔آئیے ،آپ بھی ان با ہمّت خاتون،شازیہ بخاری سے ہونے والی گفتگو میں شامل ہوجائیے۔

مجھے پتا ہے، جلد قوتِ گویائی سے محروم ہوجاؤں گی
انٹرنیٹ سرفنگ کرتے ہوئے

’’ہمارا تعلق آزاد کشمیر سے ہے ۔یہ 1951ء کی بات ہے،میرےوالدین بتاتے ہیں کہ یہ وہ زمانہ تھا ،جب علاقے کے لوگوں میں روزگار حاصل کرنے اور آسودہ زندگی گزارنے کے لیے ولایت جانے کا بڑا رجحان تھا۔اُس وقت ویزے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ بس پاسپورٹ بنوائیں، ٹکٹ خریدیںاور رخت سفر باندھ لیں پھر پاکستان سے جانے والوں کا ولایت میں پُرجوش خیر مقدم بھی کیا جاتا اور با عزّت روزگار بھی دیا جاتا ۔ یہی وجہ تھی کہ میرے والدین آزاد کشمیر سےلندن منتقل ہوگئے ۔ میری پیدائش لندن میں ہوئی ۔تعلیمی مدارج بھی وہیں طے کیےاور پھر لندن کے ایک مقامی اسکول میں درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوگئی۔بعد ازاں،شادی،بچّے بھی اسی شہر میں ہوئےاور ریٹائر ہونے پر اسکول انتظامیہ نے مجھے یہیں ملازمت دے دی۔ ‘‘بات چیت کا آغاز شازیہ بخاری نے اپنے تفصیلی تعارف سے کیا۔پھراپنے مرض سے متعلق بتاتے ہوئے کہا کہ ’’میری عُمر اُس وقت 47سال تھی، جب ایک روز مَیں نے اپنے ایک ہاتھ میں کچھ کم زوری محسوس کی۔

کتابیں اُٹھاتی تو وہ گر جاتیں، چیزیں پکڑتی تو گرفت کم زورور ہونے لگتی۔ اور پھر آہستہ آہستہ جب گرفت تقریباً ختم ہونے لگی تو کچھ تشویش ہوئی۔ ڈاکٹر کے پاس گئی تو انہوں نے تشخیص کیا کہ ’’رگیں دَب گئی ہیں،آپریشن سے ٹھیک ہو جائیں گی اور رفتہ رفتہ گرفت بھی بحال ہوجائے گی۔ ‘‘لیکن نہ جانے کیوں آپریشن کے لیے دل نہیں مانا ،کسی نے مشورہ دیا کہ’’ برمنگھم میں ایک مستند حکیم ہیں، انہیں دِکھائیں، یقیناً شفا ہوگی۔‘‘ حکیم صاحب نے کہا کہ’’ مسلز جواب دے رہے ہیں ۔‘‘ پھرہومیوپیتھک علاج شروع کیا ،مساج کرو ایا۔ دوبارہ ڈاکٹرز سے رجوع کیا تو اس مرتبہ تشخیص روح فرسا تھی۔ 

ان کا کہنا تھا کہ ’’اعضا کی جنبش کے لیے،جو سگنل دماغ سے جاتے ہیں ، وہ درمیان ہی میں بریک ہو رہے ہیں۔ جو خرابی ہو چُکی ہے، اس کے ٹھیک ہونے کی قطعی کوئی امید نہیں ۔یہ مرض ٹھیک نہیں ہوسکتا اور یہ خدشہ بھی ہے کہ آپ کی جسمانی نقل و حرکت بالکل ختم ہو جائے ۔‘‘(یہ تفصیل بتاتے ہوئے شازیہ بخاری کے چہرے کی رنگت تبدیل اور آواز میں لرزش واضح طور پر محسوس ہو رہی تھی ۔ آنسو بھی بہہ نکلے، جن کا شاید انہیں علم ہی نہیں تھا، کیوں کہ وہ محسوس کرنے کی حِس سے محروم ہیں)۔ 

مجھے پتا ہے، جلد قوتِ گویائی سے محروم ہوجاؤں گی
بیٹی، عمّارہ جوس پلاتے ہوئے

بہر حال، انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’’ڈاکٹرز نے مجھے کسی قسم کی کوئی امید دلائی، نہ حوصلہ افزائی کی۔ یہاں ڈاکٹرز مریض سے کچھ نہیں چُھپاتے ۔ہر سنگین مرض کی تفصیل، جس کا مریض کو گمان بھی نہ ہو، اس کے سامنے کھول کررکھ دیتے ہیں۔ حالاں کہ کچھ مریض ، مرض سے لاعلمی اور معالج کے اُمید دلانے پر کچھ عرصے کے لیےہی سہی، لیکن بچی کھچی زندگی قدرے سُکون سے گزار سکتے ہیں۔بہرکیف، مغرب کا یہی طریقۂ کار ہے کہ یہاں مریض کو اندھیرے میں نہیں رکھا جاتا، اُسے ہر حقیقت سے آگاہ کر کے اس میں مقابلے کی ہمّت پیدا کی جاتی ہے۔‘‘

یہ کہہ کر وہ چند لمحوں کے لیےخاموش ہو گئیں، پھر جیسے تمام تر جذبات یک جا کرکے گویا ہوئیں ’’مَیں نے ہمّت باندھی ،ڈاکٹرسے اجازت لی۔ ایک سِسٹر مجھے باہر تک چھوڑنے آئی اور گلے لگا کررخصت کیا۔ یہ وہ وقت تھا، جب مجھ پر یہ حقیقت آشکار ہو چُکی تھی کہ جلد یا بدیر میری ایک نئی زندگی شروع ہونے والی ہے، معذوری اور بے بسی کی زندگی۔ مَیں نے لمحوں میں یہ فیصلہ کرلیا تھاکہ اپنی معذوری اور ڈاکٹرز کی تشخیص کے بارے میں ناگزیر صورتِ حال پیدا ہونے تک کسی کو کچھ نہیں بتاؤ ں گی(اور ایک سال تک اپنے فیصلے پر کاربند بھی رہی)۔ خیر ،ہوش و حواس بر قرار رکھتے ہوئےاسپتال سے گھر آئی اور آتے ہی سجدے میں گر گئی۔ ہمارےگھر کا ماحول خاصا مذہبی ہے۔بخاری خانوادے سے تعلق رکھنے کے باعث شروع ہی سے نمازِ پنج گانہ تربیت میں شامل ہے ۔ اللہ تعالی سے کوئی شکوہ شکایت نہیں کی ،اس کا شُکر ادا کیا اور دُعا کی کہ’’ مجھ میں حوصلہ اور استقامت پیدا کر اور اتنی ہمّت دے کہ مَیں آنے والی مشکلات کا سامنا کر سکوں۔‘‘میرے سامنے زارا،عمّارہ اوررا فیل میرے تینوں بچّوں کے چہرے تھے ۔

مجھے پتا ہے، جلد قوتِ گویائی سے محروم ہوجاؤں گی
بیماری سے قبل شازیہ بخاری کی شوہر کے ساتھ ایک یاد گار تصویر

اُن کی تعلیم ،شادی اورمستقبل کے بہت سے معاملات تھے۔ مَیں نے شکیل (شوہر) سے بھی اس حوالے سے کوئی بات نہیں کی اور اگلے ہی دن معمول کے مطابق اسکول چلی گئی۔ ڈرائیو بھی خودکرتی تھی ،لیکن آہستہ آہستہ کم زوری غالب آگئی اور دوسرے اعضاء بھی ساکت ہونے لگے، تو مجبوراً ا سکول چھوڑنا پڑا۔ اس مرحلے پر اسکول کی انتظامیہ نے میری مدد کی اور میری سابقہ خدمات کے پیشِ نظر ذمّے داریوں کا دورانیہ انتہائی کم کردیا۔ لیکن مشاہرے میں کٹوتی نہیں کی ۔بیماری کی نوعیت کے پیشِ نظر، کاؤنسل (امدادی ادارے) نے مجھے فلیٹ دے دیا اورجب معذوری غالب آگئی،تو پھر گلوبل چیریٹی کے ادارے نے مجھےفوری طور پر خصوصی طور پر ڈیزائنڈ ایک وہیل چیئر بھی فراہم کی ،جو مجھے لفٹ کے ذریعے گاڑی میں منتقل کرنے،آنے جانےمیں مدد دیتی تھی۔ 

اسی طرح کی ایک انتہائی آرام دہ اورمخصوص طرز کی گاڑی بھی دی، مَیں لفٹ سے وہیل چیئر کے ذریعے میں اس گاڑی با آسانی منتقل ہو جاتی ۔صرف یہی نہیں ،اپارٹمنٹ میں ایک چھوٹی لفٹ بھی دست یاب تھی ، جومجھے لفٹ کرکے واش روم لے جاتی۔ تمام کاموں میں معاونت کے لیے پہلے ایک بچّی دی گئ تھی۔تاہم ،جب تکلیف میں اضافہ ہوا، تودو مددگار خواتین دے دی گئیں، جن کا تعلق گھانا اور جمیکا سے ہے ۔دونوں غیر مسلم ہیں ،لیکن گھر میں داخل ہوتے ہی بآوازِ بلندسلام کرتی ہیں۔ 

واش روم جانے میں میری مدد کرتی ، وضو کرواتی،میرا اسکارف باندھتی ہیں۔ میرےاسکارف پر آبِ زم زم چھڑکتی ہیں اور مجھےشوز پہناتی ہیں ۔انہیں اس سروس کا معاوضہ ادارہ دیتا ہے، لیکن ان کے طرز ِعمل اور خدمت کے انداز سے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ یہ کام معاوضےکے لیےکر رہی ہیں۔ مجھے تمام سہولتیں ایم این ڈی’’Motor Neurone Disease‘‘ نامی ایسوسی ایشن فراہم کر رہی ہے ۔

مجھے پتا ہے، جلد قوتِ گویائی سے محروم ہوجاؤں گی
نمایندہ جنگ کے ساتھ

اصل میں تو یہ بیماری کا نام ہے،لیکن چوں کہ اس بیماری میں شاذونادر ہی کوئی مبتلا ہوتا ہے، اس لیے ایسوسی ایشن کو بیماری کے نام ہی سے موسوم کردیا گیا ہے۔ یہ ایسوسی ایشن دنیا بھر میں اس بیماری میں مبتلا افراد کے علاج میں مددفراہم کرتی ہے۔‘‘

برطانیہ کا شعبۂ صحت بھی ان کی مدد کرتا ہے؟ہم نے پوچھا تو شازیہ بخاری نے بتایا کہ ’’برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس بھی اس ضمن میں مددگار ہے، لیکن اُس کے پاس اتنے فنڈز نہیں کہ کسی ایک مریض پر اتنا خرچہ کر سکے۔ اس لیے وہ ’’ایم این ڈی‘‘سے رابطہ کرتی ہے اور وہ بھی رقم چیریٹی سے اکٹھی کرتی ہے۔ انسانیت سے ان کی خدمت، خیال اور محبّت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ہمارے بچّوں کے لیے بھی فنڈز دیتے ہیں ۔کچھ عرصہ پہلے انہوں نے ہماری فیملی کے لیے ’’سینٹرل پارک ‘‘کا وِزٹ ا رینج کیا اور پانچ سوپائونڈ ز نقد بھی دئیے تاکہ گھر کے تمام افرادمل کر انجوائے کر سکیں ۔‘‘ ازدواجی اور ذاتی زندگی کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں شازیہ بخاری کا کہنا تھا کہ’’ جب یہ بیماری مجھ پر غالب آگئی تو مَیں نے شکیل سے کہا کہ اب مَیں معذور ہو چُکی ہوں ۔

زندگی کے سفر اور فرائض دونوں میں آپ کا ساتھ نہیں دے سکتی ۔اس لیے اگر آپ چاہیں تو دوسری شادی کر لیں ،مَیں صدقِ دل سے اس کی اجازت دیتی ہوں۔ لیکن انہوں نے ہر مرتبہ میری بات مذاق میں ٹال دی۔ ایک مرتبہ مَیں نے یوں ہی ہنستے ہوئے کہا’’ شکیل !تم سوچتے ہو گے کہ ایک شادی کرکے پچھتا رہا ہوں تو دوسری سے پتا نہیں کیا حال ہوگا؟‘‘ تو انہوں نےنہایت سنجیدگی سے جواب دیا کہ ’’ جب سے تم بیمار ہوئی ہو ، کوئی ایک لمحہ ایسا نہیں آیا کہ میں کسی پچھتاوے کا شکار ہوا ہوں۔

تم جس عزم وہمّت اورصبر و شکر کے ساتھ ساری صورتِ حال کا سامنا کر رہی ہو، وہ میرے لیے مثالی ہے۔ ‘‘میری دونوں بچیاں ملازمت کر رہی ہیں۔بڑی بیٹی، زارا کی عُمر 25 سال ہے ۔چھوٹی بیٹی ،عمارہ نے میری صحت کے پیشِ نظر اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔ اب نہ صرف میری خدمت اور دیکھ بھال کرتی ہے بلکہ اسے اتنا تجربہ ہو چُکا ہے کہ اُسے اِ ن خدمات کے لیے فُل ٹائم رجسٹر کر لیا گیا ہے اور اب وہ بڑی عُمر کی خواتین کو بھی اپنی خدمات فراہم کرتی ہے، جس کا اُسے معاوضہ بھی ملتا ہے۔‘‘شازیہ بخاری نے مزید بتایا کہ’’ ایک مرحلے پر یہ تجویز بھی زیرِ بحث آئی کہ میں پاکستان واپس چلی جاؤں اور وہاں علاج کرواؤں ، لیکن مجھے پتا ہے کہ پاکستان میں مریضوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے، اس لیے مَیں نے پاکستان جا کر علاج کروانے کی سختی سے مخالفت کی۔ 

بلاشبہ پاکستان ہمارا مُلک، ہماری پہچان ہے ،لیکن برطانیہ میں جس طرح معذوروں پر توجّہ دی جاتی ہے، ان کی جسمانی دیکھ بھال اور ضرورتوں کا خیال رکھا جاتا ہے ،انہیں جو آسانیاں فراہم کی جاتی ہیں ، اُن کا کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ یہاں اضافی سہولتیں فراہم کرنے کا کسی بھی شکل میں کوئی معاوضہ وصول کیا جاتا ہے، نہ ہی معالجین ،مالی معاونت کرنے والے اداروں کا سلوک بُرا ہوتا ہے۔ جس کا پاکستان میں توکیا، کسی بھی اسلامی مُلک میں تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ 

اس وقت مَیں جس وہیل چیئر پر بیٹھی ہوں ،یہ میرے جیسے مریضوں کے لیے خصوصی طور پر تیار کی گئی ہے اور مریض کی کیفیات اور ضروریات کے پیشِ نظراس میں تبدیلیاں بھی کی جاتی ہیں۔ مَیں تقریباً پانچ سال سے اسی پر زندگی گزار رہی ہوں۔ اس پر جو کمپیوٹر نصب ہے، اس میں ایسی ڈیوائسز لگی ہیں ،جو میں اپنی پلکوں سے آپریٹ کرتی ہوں ۔مثلا ًاگر مَیں نے ٹی وی دیکھنا ہے یا چینل تبدیل کرنا ہے، تو مَیں ریموٹ کنٹرول استعمال نہیں کر تی،اپنی آنکھوں کی جنبش سے یہ کام کرتی ہوں۔مجھے ابھی سےبتا دیا گیا ہے کہ آنے والے دِنوں میں مَیں قوّت ِگویائی سے بھی محروم ہو جاؤں گی۔ 

اس لیے ابھی سےایک خصوصی ڈیوائس کمپیوٹر میں نصب کردی گئی ہے، جس میں، مَیں نے 1600جملے ریکارڈ کرلیے ہیں ،جو روز مرّہ زندگی میں عموما ًبولنے ہوتے ہیں ۔ اس طرح میں گویائی سے محروم ہو جانے کے بعد بھی اپنی آواز کے ذریعے سب سے رابطے میں رہوں گی، بات چیت کر سکوں گی۔ یہ ریکارڈنگ میں نے چھے ماہ میں کمپیوٹر کے سامنے آنکھوں کی جنبش سے شکیل اور بچّوں کی مدد سے مکمل کی ہے۔‘‘شازیہ بخاری کی بیماری کے حوالے سے ہم نے اُن کی بیٹی، زارا سے بھی بات چیت کی، تو اُن کا کہنا تھا کہ ’’ہماری زندگی کامقصد صرف امّی ہیں۔ اس حالت میں اُنہیں دیکھ کر دُکھ تو ہوتا ہے، لیکن انہوں نے ہمیں بھی مضبوط بنا دیا ہے ۔امّی نے کبھی بے بسی ، بے چارگی اور ترس کھانے والا رویہ اختیار کر کے ہم دردی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ لیکن مَیں کبھی کبھی اکیلے میں بہت ٹوٹ کر روتی ہوں۔‘‘

شازیہ بخاری جس مرض میں مبتلا ہیں، وہ دماغ اور اعصابی نظام کو بُری طرح متاثر کرتا ہے۔ اس کی ابتدا لاعلاج کم زوری سے ہوتی ہے اور بتدریج عرصۂ حیات کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ انسانی سیلز بھی رفتہ رفتہ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی کچھ لوگ کافی عرصہ زندہ رہتے ہیں، لیکن بغیر کسی جسمانی جنبش کے ۔اس مرض کی علامات کے بارے میںہونے والی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ ابتدا میں ہاتھوں، ٹانگوں، ٹخنوں میں کم زوری محسوس ہوتی ہے، سیڑھیاں چڑھنا دشوار ہونے لگتا ہے اور بولنے میں دقّت محسوس ہوتی ہے ۔ 

کھاناحلق سے اتارنے میں بھی تکلیف محسوس ہوتی ہے، ہاتھ کی گرفت کم زور ہوتی چلی جاتی ہے، چیزیں ہاتھ سے گرنے لگتی ہیں۔ یہاں تک کہ روزمرّہ کے معمولات کی ادائی میں بھی دشواری پیش آتی ہے۔ جسم کے کسی حصّے میں پھڑپھڑاہٹ، پٹّھوں میں اکڑ اؤ محسوس ہوتا ہے اور وزن بتدریج کم ہوتاچلا جاتاہے۔ لیکن یہاں یہ بات اہم اور قابلِ ذکر ہے کہ اوّل تو الحمدُللہ ،پاکستان میں اب تک اس بیماری کا کوئی کیس منظرِ عام پر نہیں آیا۔ دوم، معالجین کے مطابق کسی بھی فرد میں ان میں سے کسی ایک یا ایک سے زیادہ علامات پائے جانے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ ایم این ڈی ہی میں مبتلا ہورہا ہے۔ 

البتہ، ایسی علامات ظاہر ہونے پر لا پروائی برتنے سے بہتر ہے کہ فی الفور معالجین سے رابطہ کیا جائے ۔ Motor Neurone Diseaseپر تحقیق کرنے والوں کا خیال ہے کہ خواتین اس مرض میں کم مبتلا ہوتی ہیں، البتہ،مَردوں میں بھی ایتھلیٹس اس کا زیادہ شکار ہو سکتے ہیں۔

تازہ ترین