لندن (پی اے) ایک نئی ریسرچ میں انکشاف ہوا ہے کہ کورونا وائرس کوویڈ 19 پینڈامک کے دوران گھروں سے کام کرنے کی وجہ سے سینٹرل لندن کو 2.3 بلین پونڈ کی قیمت برداشت کرنا پڑی ہے اور اس سے سینٹرل لندن میں 2.3 بلین کا سپینڈنگز بلیک ہول پیدا ہو گیا ہے۔ سینٹر فار اکنامک اینڈ بزنس ریسرچ (سی ای بی آر) کے ڈیٹا میں واضح کیا گیا ہے کہ مارچ اور جولائی کے درمیان سینٹرل لندن میں ورک پلیسز کے قریب بزنسز میں اخراجات کس طرح ختم یا ڈس پلیس ہوگئے۔ اس ہفتے حکومت نے نئی پابندیاں عائد کر دی ہیں، جن کا مقصد کورونا وائرس کوویڈ 19 کے پھیلائو کی رفتار کو کم اور کنٹرول کرنا ہے جو ایک بار پھر بڑھ رہا ہے۔ گھروں پر کام کی وجہ سے اس کی رفتار کم ہو گئی تھی اور اب پھر گھروں سے کام کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ بزنسز ان دی سٹی نے کہا کہ انہیں ورکرز کی غیر حاضریوں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بولین میں 35 سال سے کارنر شاپ چلانے والے ستیام پٹیل نے کہا کہ ان کی دکان پر اب 50 کسٹمرز روزانہ آ رہے ہیں، لاک ڈائون سے قبل یہ تعداد 800 تھی۔ انہوں نے کہا کہ تجارت 90 فیصد کم ہو گئی ہے یہ صورتحال انتہائی مایوس اور پریشان کن ہے۔ آپ حیران ہو رہے ہوں گے کہ اب کیا ہونے والا ہے اور اب کہاں پر جا کر اس کا خاتمہ ہوگا۔ آپ کو اب ریگولر کسٹمرز نظر نہیں آتے۔ ایسے بہت سے کسٹمرز ہیں جو اب آپ کو دکھائی نہیں دیتے آپ یہ سوچ کر حیران ہوں گے کہ وہ کہاں چلے گئے اور کیسے ہیں۔ سی ای بی آر نے گوگل موبیلٹی ڈیٹا کا جائزہ لیا جس میں بتایا گیا تھا کہ اپریل میں لاک ڈائون کے عروج کے دوران لندن میں کام کیلئے جانے والے افراد کی تعداد بحران سے پہلے کی تعداد سے 77 فیصد کم تھی۔ اس نے ریسرچ کیلئے پیمنٹ ایپ ایزیٹل اور نیشن وائیڈ بلڈنگ سوسائٹی کے ڈیٹا کو بھی استعمال کیا تاکہ ملازمت کی جگہ کے قریب لاک ڈائون سے پہلے ملازمین پر ماہانہ 202 ملین پونڈ کے اخراجات کا حساب کتاب کیا جائے۔ سی ای بی آر چیف ایگزیکٹو نینا سکیرو نے کہا کہ مارچ سے جولائی کے مہینوں کے دوران ہر وہ فرد، جو عملی طور پر گھر سے کام کرسکتا تھا تو اس کی وجہ سے ایک اندازے کے مطابق ہمیں اس دورانیے میں 500 ملین پونڈ ماہانہ اخراجات کا نقصان اٹھانا پڑا جو کہ مارکیٹ کی آمدن تھی۔ کیونکہ لاک ڈائون کی وجہ سے ریسٹورنٹس، ہیئر ڈریسرز، کیفے اور دیگر سروسز تقریباً مکمل طور پر بند ہو گئی تھیں اور لوگ اپنے گھروں تک محدود ہو گئے تھے۔ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے بزنس لیڈرز کے اس انتباہ کہ سٹی سینٹرز گھوسٹ ٹائونز بن سکتے ہیں، کے بعد اگست میں لوگوں کو کام پر واپس جانے کیلئے کہا تھا۔ تاہم منگل کو یہ پیغام تبدیل ہو گیا اور حکومت نے اب لوگوں پر زور دیا کہ وہ جہاں تک ممکن ہو گھر سے کام کریں تاکہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پایا جا سکے جو ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے۔ شہر میں بیسٹڈ جے ایم ڈبلیو سالیسٹرز اپنے 40 فیصد آفس سٹاف کو واپس لے آئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس سے کام کی استعداد بڑھانے میں مدد ملی ہے۔ فرم کے پارٹنز لی ایڈمز نے کہا کہ جب آپ کسی ایک مقام پر ایک ساتھ مل کر کام کر رہے ہوں تو پھر بہت سے نئے آئیڈیاز ذہن میں آتے ہیں جبکہ ای میلز کو بھیجنے اور ژوم کالز کی وجہ سے کام میں کچھ پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہے اور کسی فوری مسئلے پر مشاورت بھی ممکن نہیں ہو پاتی۔ کمپنی نے کہا کہ حکومتی گائیڈنس تبدیل ہو چکی ہے اور اب پھر اپنی پالیسی پر نظر ثانی کر رہی ہے۔ منگل کو انویسٹمنٹ بنک بارکلیز نے برطانیہ میں سٹاف کے سیکڑوں ارکان سےکہا کہ وہ گھروں سے کام کریں۔ انہوں نے یہ بات وزیراعظم بورس جانسن کے کمنٹس کے رسپانس میں کہی۔ مئی میں گوگل اور فیس بک سمیت بہت سی کمپنیز نے اپنے سٹاف سے کہا تھا کہ سال کے آخر تک اپنے گھروں سے کام کریں۔ ٹوئٹر نے اپنے سٹاف سے کہا ہے کہ اگر وہ چاہیں تو ہمیشہ کیلئے گھر سے کام کر سکتے ہیں۔