سکھر ریجن میں اغواء برائے توان جیسی سنگین وارداتوں کو روکنے اور مغویوں کی بازیابی کے لیے پولیس نے مختلف اضلاع میں جاری آپریشن تیز کرنے کا فیصلہ کرلیا، کشمور میں کچے کے جنگلات میں جاری آپریشن کے دوران پولیس نے ڈاکوؤں سے مقابلے کے بعد 4 مغویوں کو باحفاظت بازیاب کرالیا ہے، مقابلے میں4 ڈاکو زخمی ہوئے، جب کہ اُن کی متعدد پناہ گاہوں کو مسمار کردیا گیا۔ ایس ایس پی کشمور امجد احمد شیخ کے مطابق ڈاکووں کی جانب سے دو ماہ قبل اغواء کیے گئے مغوی عبدالہادی میرانی کے ورثاء سے ڈاکووں نے 30 لاکھ روپے تاوان طلب کیا تھا، مغویوں کی باحفاظت بازیابی اور کام یاب کارروائیوں پرقائم مقام آئی جی سندھ اور ایڈیشنل آئی جی سکھر ریجن ڈاکٹر کامران فضل نے پولیس کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے تمام اضلاع کے پولیس افسران کو سختی سے ہدایات دی ہیں کہ اغواء برائے تاوان کی وارداتوں کے خاتمے کے ساتھ مغویوں کی باحفاظت بازیابی کو بھی یقینی بنایا جائے اور عوام کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے تمام تر صلاحیتیں اور وسائل بروئے کار لائے جائیں۔
سکھر ریجن میں کشمور کے کچے کے جنگلات سب سے زیادہ خطرناک تصور کیے جاتے ہیں، کیوں کہ کشمور کے کچے کے جنگلات کو مختلف اضلاع کی حدود لگتی ہیں، کشمور کے کچے کے یہ جنگلات دریائے سندھ کے تکونی جزیرے پر واقع ہونے کی بناء پر ڈاکوؤں کی محفوظ پناہ گاہ تصور کیے جاتے ہیں، جس کے باعث ان علاقوں میں پولیس کے لیے ڈاکوؤں کےخلاف آپریشن کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے، جو بھی پولیس آفیسر اس مشکل ترین سمجھے جانے والے ضلع کشمور میں تعینات ہوتا ہے، وہ اپنی حکمت عملی کے تحت کچے کے جنگلات میں ڈاکووں و جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی کے لیے کوشیش کرتا ہے۔
ایس ایس پی امجد احمد شیخ نے اپنے عہدے کا چارج سمنبھال کر ڈاکوؤں کے خلاف کارروائیوں اور مغویوں کی بازیابی کے لیے آپریشن شروع کیا ہے، جس میں پولیس کو بڑی کام یابی ملی ہے پولیس نے دو الگ الگ مقابلوں کے دوران 2 مغویوں کو ڈاکووں کے چنگل سے بحفاظت بازیاب کرا لیا ہے۔ اور خواتین کی نسوانی دلفریب آواز کے جھانسے میں آکر دوستی کرکے کشمور کچے کے علاقے میں ملاقات کے لیے آنے والے 2 افراد جن کا تعلق بلوچستان کے علاقے لسبیلہ اور سکھر سے ہے، کو بروقت کارروائی کرکے اغواء ہونے سے بچا لیا۔ ڈاکوؤں کے خلاف جاری پولیس آپریشن کے دونوں جانب سے فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس کے بعد ڈاکو ایک مغوی کو چھوڑ کر فرار ہوگئے۔
ڈاکوؤں نے لاڑکانہ کے رہائشی عبدالہادی میرانی کو 2 ماہ قبل اغوا کیا تھا، جس کی رہائی کے لیے ڈاکوؤں نے مغوی کے ورثاء سے 30لاکھ روپے تاوان طلب کررکھا تھا، فرار ہونے والے ڈاکوؤں کی گرفتاری کے لیے ناکا بندی کردی گئی ہے۔ دوسرا پولیس مقابلہ غوث پور کے کچے کے علاقے میں ہوا، ڈاکوؤں اور پولیس کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا، پولیس کی فائرنگ سے2 ڈاکو زخمی ہوگئے، زخمی ڈاکوؤں کو ان کے ساتھی اپنے ساتھ لےکر فرار ہوگئے، جب کہ مغوی حبدار پہوڑ کو چھوڑ دیا۔ ڈاکوؤں نے مغوی کو کندھ کوٹ کے کچے کے علاقے گڑھی لاڑو کے مقام سے اغوا کیا تھا۔ فرار ہونے والے ڈاکوؤں کی گرفتاری کے لیے کچے کے جنگلات میں آپریشن جاری ہے۔ پولیس کی جانب سے کام یاب کاروائی میں بازیاب کرائے گئے۔
ایک مغوی عبدالہادی میرانی نے میڈیا کو بتایا کہ ڈاکووں نے مجھے دو ماہ قبل اغواء کیا تھا، اور کچے کے جنگلات میں زنجیروں سے باندھ کر قید میں رکھا ہوا تھا، اللہ نے مہربانی کی، پولیس نے مجھے بازیاب کرایا۔ مغوی کا کہنا تھا کہ ڈاکو مجھے تشدد کا نشانہ بناتے تھے، کھانا دن میں کسی وقت اور رات دیر سے تین بجے کھانا دیتے تھے، ڈاکو موبائل فون پر جب میرے گھر والوں سے30 لاکھ روپے تاوان دینے کا کہہ رہے تھے تو اس وقت ڈنڈوں سے مجھ پر تشدد کررہے تھے، درخت کے ساتھ پیروں میں زنجیریں باندھ کر ایک بند جھونپڑی میں قید کر رکھا تھا۔‘‘
اغواء برائے تاوان کی وارداتیں زیادہ تر خواتین کی آواز میں موبائل فون کے ذریعے دوستی کے بعد ملاقات کے بہانے بلا کر کی جاتی ہیں، جب نسوانی آواز کے جھانسے میں آکر اپنی دوست سے ملاقات کے لیے کچے کے علاقے میں آتا تو ڈاکووں کے چنگل میں پھنس جاتا ہے، ڈاکووں کی ایسی متعدد کارروائیاں کو کشمور پولیس ناکام بنا چکی ہے، گزشتہ دنوں بھی پولیس نے لیڈیز آواز میں دھوکے سے بلا کر اغواء کرنے کی کوشش ناکام بناتے ہوئے ٹیکسی ڈرائیور معشوق علی جس کا تعلق بلوچستان کے علاقے لسبیلہ سے ہے اور علی جو کہ سکھر کا رہائشی ہے اور کاشتکاری کا کام کرتا ہے۔ کو بروقت کارروائی کرکے اغواء ہونے سے بچالیا، دونوں افراد کو ڈاکووں نے نسوانی آواز میں دوستی کے بعد ملاقات کے لیے دھوکے سے بلایا تھا۔
پولیس نے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے دونوں افراد کو اغواء ہونے سے بچا لیا ہے۔ دونوں افراد کو جاگیرانی گینگ لیڈیز وائس میں دھوکے سے بلا کر اغوا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ایس ایس پی کشمور امجد احمد شیخ نے بتایا کہ کچے کے علاقوں میں تیغانی اور جاگیرانی گروہوں سے تعلق رکھنے والے ڈاکو سرگرم ہیں، جو کہ اغوا برائے تاوان، ڈکیتی، چوری سمیت دیگر جرائم کی وارداتیں انجام دے رہے ہیں، ڈاکوؤں کی مکمل سرکوبی کے لیے کچے کے علاقوں میں پولیس کی جانب سے جو آپریشن شروع کیا گیا ہے ، وہ ڈاکوؤں کے مکمل خاتمے تک جاری رہے گا۔ کشمور کچے کے جنگلات ڈاکوؤں کی محفوظ پناہ گاہیں تصور کیے جاتے ہیں، ڈاکو جرائم کی وارداتیں انجام دینے کے بعد کچے کے جنگلات میں چھپ جاتے ہیں، پولیس کی جانب سے وقتاً فوقتاً کچے کے جنگلات میں آپریشن کرنے کا مقصد ڈاکوؤں کے کچے کے جنگلات میں قدم جمنے نہ دینا ہے، کشمور کی حدود میں لگنے والے کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن جاری ہے اور ڈاکوؤں کے مکمل قلع قمع ہونے تک آپریشن جاری رہے گا۔ ڈاکوؤں کی نقل و حرکت پر کڑی نگرانی رکھی جارہی ہے۔
آپریشن کے دوران ڈاکوؤں کی متعدد پناہ گاہوں کو مسمار اور نذر آتش بھی کیا گیا ہے۔ دوسری جانب پولیس نے ڈیرہ سرکی کے علاقے میں کارروائی کرکے جرائم پیشہ شخص نقیب نندوانی کو گرفتار کرلیا ہے، جو کہ موٹر سائیکلیں چوری، چھیننے سمیت مختلف جرائم کی وارداتوں میں مطلوب تھا، جب کہ پولیس نے گاؤں بڈو کھورکھانی مزاری کے قریب ڈکیتی کی واردات کو ناکام بنایا ہے، ڈاکوؤں کی جانب سے راہ گیر سے 13ہزار روپے نقدی چھین کر فرار ہونے کی کوشش کی جارہی تھی کہ پولیس نے ناکا بندی کی اور کھوسو پل کے مقام پر 3 ملزمان کو گرفتار کرلیا، ملزمان کے قبضے سے چھینی گئی موٹر سائیکل، 2 پستول، گولیاں ودیگر سامان برآمد ہوا ہے، ملزمان اسٹریٹ کرائم کی سنگین وارداتوں میں مطلوب تھے۔
ضلع کندھ کوٹ کشمور کے رہائشی مغوی حبدار پہوڑ کی بازیابی پر علاقے اور پہوڑ برادری کے افراد بڑی تعداد میں ایس ایس پی آفس پہنچ گئے، جہاں انہوں نے مغوی کی بازیابی کی خوشی میں ایس ایس پی کشمور کو پھولوں کے ہار، سندھ کا روایتی تحفہ ٹوپی اور اجرک پیش کی اور ان پر گل پاشی کرتے ہوئے پولیس کے حق میں نعرے بازی کی۔ ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ ضلع کے تمام پولیس افسران اور تھانہ انچارجز کو بھی سختی سے ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ اپنے فرائض احسن انداز میں ادا کرتے ہوئے جرائم کی وارداتوں کے خاتمے کو یقینی بنائیں فرائض میں غفلت یا کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔ غفلت اور لاپرواہی برتنے والوں کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی ہوگی۔