• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تعمیرات کے شعبے میں کیریئر بنانا شاید خواتین کے ریڈار پر نہیں ہوتا لیکن غالباً اسے ان کے ریڈار پر ہونا چاہیے۔ تعمیرات کی صنعت خواتین کے لیے چند منفرد مواقع پیش کرتی ہے۔ اوّل بات یہ ہے کہ اس صنعت کو افرادی قوت کی بڑی کمی کا سامنا ہے، دوئم یہ کہ اس صنعت سے بہت کم خواتین وابستہ ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق، اس وقت امریکا میں 9.1فیصد سے بھی کم خواتین تعمیراتی شعبے کی افرادی قوت کا حصہ ہیں اور اس میں سے زیادہ تر خواتین ڈیزائن یا انتظامی امور کی انجام دہی تک محدود ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ محض 1.2فیصد خواتین ہی تعمیرات کے کام سے براہ راست منسلک ہیں۔

ایک سروے کے مطابق 2019ء میں امریکا کی 80فیصد تعمیراتی فرمز کو دستیاب اسامیوں پر تربیت یافتہ عملہ بھرتی کرنے میں مسائل کا سامنا تھا۔ جون 2019ء تک امریکی تعمیراتی صنعت میں 2لاکھ 63ہزار دستیاب اسامیاں تھیں، جن کے لیے ان فرمز کو تربیت یافتہ افرادی قوت کی تلاش تھی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس شعبے میں کیریئر بناکر اپنے مستقبل کو سنوارا جاسکتا ہے۔ دیگر شعبوں کے برعکس تعمیراتی شعبے میں مرد اور خواتین کی تنخواہوں کے درمیان فرق نسبتاً کم ہے۔ تعمیراتی شعبے میں مردوں کے ایک ڈالر کے مقابلے میں خواتین 95.7سینٹ کماتی ہیں، جبکہ مجموعی طور پر خواتین کی اوسط آمدنی 80سینٹ ہے۔ ا س کا مطلب یہ ہوا کہ تعمیراتی شعبے کے ساتھ منسلک ہوکر خواتین اپنی آمدنی میں خاطرخواہ اضافہ کرسکتی ہیں۔

ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر پُرکشش مواقع کے باوجود خواتین تعمیراتی صنعت میں کیوں نہیں آتی ہیں؟

ماہرین کے مطابق، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ خواتین کو پتہ ہی نہیں ہے کہ ان کے لیے تعمیراتی شعبے میں کس قدر زبردست مواقع موجود ہیں جبکہ خواتین کے اس شعبے سے دور رہنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اس میں مردوں کا غلبہ کافی زیادہ ہے۔ اس بات کا اعتراف خود خواتین نے کئی سروے میں بھی کیا ہے۔ ماہرین کے مطابق خواتین اور لڑکیاں انجینئرنگ اور تعمیراتی صنعت کے ساتھ منسلک ہونا چاہتی ہیں لیکن یہ انتہائی مایوس کن صورت حال ہے کہ وہ صرف اس لیے اسے شعبے کا رُخ نہیں کرتیں کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ یہ راستہ ان کے لیے بہت کٹھن ثابت ہوگا۔

مزید برآں، ایک اور اہم بات یہ کہ جب خواتین اس شعبے میں آتی ہیں تو انھیں قائدانہ کرداروں میں کوئی خاتون نظر نہیں آتی، جس کے باعث ان کی مزید حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ اس رجحان کی اہم وجہ یہ ہے کہ جب لوگ تعمیراتی شعبے کا سوچتے ہیں، تو ان کے ذہن میں بھاری جسمانی مشقت کا تصور اُبھرتا ہے، درحقیقت اس شعبے میں کئی کام ایسے بھی ہیں جن میں جسمانی مشقت کی ضرورت نہیں ہوتی۔

ٹیکنالوجی کا کردار اور افرادی قوت

ہم دیکھ رہے ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی بڑے پیمانے پر ہمارے کام کرنے کے انداز پر اثرانداز ہورہی ہے۔ ہرچندکہ ابھی تک کسی بھی تعمیراتی سائٹ پر روبوٹس کام کرتے نظر نہیں آتے، تاہم نئے طریقے اور نئی ٹیکنالوجی انسانی افرادی قوت کی پیداواری صلاحیتوں میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے، جس کے بعد کم یا زیادہ جسمانی طاقت یا صلاحیت ان کے کام میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔

اب ٹیکنالوجی تعمیراتی شعبے میں لچک لارہی ہے اور جب کسی شعبے میں لچک پیدا ہوتی ہے، اس کا فائدہ سب کو ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جنرل سپرنٹنڈنٹ یا پروجیکٹ منیجر اب وقت پر گھر جاسکتا/جاسکتی ہے اور اپنے بچے کے ساتھ بہتر اور معیاری وقت گزار سکتا/سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ کسی دن اگر وہ یا ان کا بچہ بیمار پڑ جائے تو ضرورت پڑنے پر وہ اپنے گھر سے بھی سائٹ یا دفتر کی ذمہ داریاں ادا کرسکتے ہیں۔ 

تاریخی طور پر چونکہ تعمیراتی عمل میں ہاتھوں کا بہت عمل دخل ہوتا ہے، صبح 9بجے سائٹ پر کام شروع ہوتے ہی اس سے وابستہ ہر شخص کو وہاں پہنچنا ہوتا ہے اور پھر شام 5بجے سے پہلے کوئی زیر تعمیر سائٹ سے دور نہیں جاسکتا اور اگر دیکھا جائے تو تعمیراتی شعبے کو ان ہی وجوہات کی بناء پر بڑے پیمانے پر افرادی قوت درکار ہوتی ہے۔ اب چونکہ ٹیکنالوجی لوگوں کے کام کرنے کے اوقات اور جگہ کے معاملے میں آسانیاں پیدا کررہی ہے، ایسے میں خواتین کے لیے اس شعبے میں داخل ہونا قدرے آسان ہوچکا ہے۔

کیا تعمیراتی صنعت خواتین کیلئے موزوں ہے؟

اگر تاریخی جائزہ لیاجائے تو یقیناً جواب ’نہ‘ میں ہوگا، تاہم خوش قسمتی سے اب یہ رجحان بدل رہا ہے۔ خواتین افرادی قوت کو اس بات سے تقویت ملنی چاہیے کہ دنیا میں تبدیلی کے لیے آوازیں اُٹھ رہی ہیں اور ایسی کئی کمپنیاں ہیں جو تبدیلی کی اس آواز کی ہمنوا بن رہی ہیں۔

اس جائزے کے بعد ایک بات واضح طور پر کہی جاسکتی ہے کہ دیگر شعبہ جات کی طرح تعمیرات کے شعبے میں بھی ٹیکنالوجی کا کردار بڑھ رہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی سب کے لیے یکساں مواقع پیدا کررہی ہے اور یہ بات تعمیراتی شعبے میں کیریئر بنانے میں دلچسپی رکھنے والی خواتین کے مفاد میں ہے۔

تازہ ترین