اسلام آباد کی احتساب عدالت میں ایل این جی ریفرنس کی سماعت کے دوران سابق وزیرِ اعظم اور مسلم لیگ نون کے رہنما شاہد خاقان عباسی کے وکیل بیرسٹر ظفر اللّٰہ نے فردِ جرم پر سوالات اٹھا دیئے۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت میں ایل این جی ریفرنس کی سماعت کے دوران سابق وزیرِ اعظم اور مسلم لیگ نون کے رہنما شاہد خاقان عباسی پیش ہوئے۔
بیرسٹر ظفر اللّٰہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ منی لانڈرنگ اور نہ جانے کیا کیا چیزیں فردِ جرم میں ڈال دی گئی ہیں۔
جج اعظم خان نے کہا کہ یہ فردِ جرم ہے جسے نیب کی جانب سے ثابت کیا جانا باقی ہے، عدالت تو شواہد دیکھ کر ہی سزا دے گی، شواہد نہ ہوئے تو بری کرے گی، اب فردِ جرم میں تو ترمیم نہیں کی جا سکتی۔
بیرسٹر ظفر اللّٰہ نے کہا کہ میں شاہد خاقان عباسی پر فردِ جرم میں ترمیم کا نہیں کہہ رہا، شاہد خاقان عباسی کو فردِ جرم کی کاپی دے کر کچھ وقت تو دیتے۔
انہوں نے کہا کہ اس کیس کے لیے کوئی ایک شیڈول بنا دیں کس کس تاریخ کو سماعت ہو گی، ہم سپریم کورٹ اور دیگر عدالتوں میں بھی مصروف ہوتے ہیں۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سپریم کورٹ صاف کہہ چکی ہے کہ ٹرائل میں داخل ہونے کے بعد مقدمات کو جلد چلایا جائے، اس عدالت میں اور بھی 40 کیس ہیں، ایک تاریخ کیسے مقرر ہو سکتی ہے۔
بیرسٹر ظفر اللّٰہ نے کہا کہ جس طرح باقی کیس چلتے ہیں ویسے ہی یہ کیس بھی چلے گا، صاف بتا رہا ہوں اس کیس کو نواز شریف کیس نہیں بننے دیں گے، نیب والےکھڑے ہیں، میں بتا دوں وہ نہیں ہونے دیں گے جو نواز شریف کیس میں ہوتا رہا۔
جج اعظم خان نے کہا کہ ٹرائل تو چلنا ہی ہے، آپ تعاون کریں گے تو بہتر چلے گا، میرے لیے تمام کیسز اہم ہیں، کوئی ہائی یا لو پروفائل کی تفریق نہیں۔
انہوں نے کہا کہ کسی سیاسی شخص کا کیس ہو یا عام آدمی کا میرے لیے برابر ہیں، ہم یہاں انصاف کے لیے ہی بیٹھے ہوئے ہیں، میں ضرور چاہوں گا کہ کمرۂ عدالت کا ماحول ٹھیک رہے۔
عدالت میں نیب کے پہلے گواہ وزارتِ توانائی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد حسن بھٹی کا بیان قلمبند کیا گیا۔