• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب تک احساس، ادراک اور ارادہ ہم سفر نہ ہوں کسی مثبت منزل کا حصول ممکن نہیں! نشیب و فراز کی راہ پر چل چل کر تھک جانے والی قیادت اُس موڑ کا کیوں نہیں سوچتی جہاں سے راستے کی ہمواری کا احساس ہو۔ کیا سدا سے ارادے میں گڑبڑ ہے یا ادراک میں؟

روزویلٹ وہ امریکی صدر تھا جو چوتھی دفعہ بھی الیکشن میں کامیاب ہوگیا۔ 1933 سے 1945 تک اس نے اپنی قیادت کا لوہا منوایا۔ دوسری جنگ عظیم میں اترنے کا ارادہ تھا اور ادراک بھی کہ اس کے بغیر چارہ نہیں، روزویلٹ کو یہ فکر کھائے جارہی تھی مگر محسوس یہ ہورہا تھا جیسے وقت قیام کے موقع پر امریکی اڈے میں گرے تھے یا یوں تصور کرلیجئے کہ اس تناظر میں گھٹنوں کے بل تھے۔ اکانومی فرسٹریشن اپنے شباب پر، بینکوں کی بندش پر ایسا عروج کہ 4مارچ 1929تک 48ریاستوں اور کولمبیا میں بینکاری بند، بے روزگاری انتہا پر، سو ملین لوگ الگ بےگھر، 1929تک 60 فیصد گراوٹ سے زراعت بےربط ، صنعت پر بدحالی اور سماجی چیلنجز بےقابو ہوچکے تھے۔ اور بمطابق مؤرخین روزویلٹ نے ’’ریلیف۔ ریکوری۔ ریفارمز ‘‘ پروگرام کو عملاً جلا بخشی!

فرینکلن ڈینالو روزویلٹ نے ریڈیو و دیگر ذرائع سے مسلسل عوام سے روابط استوار کئے، لیکچرز دیئے، اعتماد میں لیا اور اعتماد دیا، 4 مارچ 1933 کو روزویلٹ عنانِ اقتدار تھامتا ہے اور دوسرے دن بینک کی چار روزہ تعطیلات کا اعلان کردیتا ہے، اسٹیک ہولڈرز کو اس اثنا میں اعتماد میں لیتا ہے اور جب 15 مارچ پیر کو بینک کھلتے ہیں تو 15 فی صد اسٹاک قیمتوں میں اضافہ سامنے تھا، اندازہ کیجئے کہ 9 مارچ تک ایمرجنسی بینکنگ ایکٹ بھی کانگرس سے منظور کرایا جا چکا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کا اجلاس بلایا اور فوری طور پر پلوں، ڈیمز اور اسکولوں کی تعمیر شروع کردی گئی ۔ سویلین کنزرویشن کارپزز کے تحت 2 لاکھ پچاس ہزار نوجوانوں کو فی الفورروزگار کیلئے بلا لیا گیا۔

وہ ڈیموکریٹک امریکی صدر جس نے اپنی زیادہ تر بالغ عمر ویل چیئر پر گزاری جب بطور کمانڈر انچیف دوسری جنگ عظیم میں اترنے سے قبل اپنی قوم سے مخاطب ہوتا ہے، تو احساس، ادراک اور ارادہ کی طاقت سے چند لمحے اچانک اپنے پیروں پر کھڑا ہو جاتا ہے جسے دیکھ کر لوگ ششدر رہ جاتے ہیں کیونکہ کئی برسوں سے قوم نے ایک لمحہ بھی روزویلٹ کو ٹانگوں کے فالج کے سبب کھڑے نہیں ہوتے دیکھا تھا گویا لیڈر کی عملی کمٹمنٹ بھانپ کر قوم نے وہ انگڑائی لی کہ پھر ہتھیاروں کو جدت تک دے ڈالی۔ اس اٹھان پر جین ایڈورڈ اسمتھ نے کہا تھا ’’ اس نے قوم کو گھٹنوں کے بل سے پیروں پر کھڑے ہونے کیلئے اپنے آپ کو ویل چیئر سے ٹانگوں پر اٹھایا ‘‘۔ فرینکلن ڈی روز ویلٹ نے 4 دفعہ انتخابات میں کامیابی حاصل کی مگر چوتھے دور کی ابتدا ہی میں دماغی شریان پھٹنے سے 12 اپریل 1945 کو جہان فانی سے کوچ کرگیا۔ وہ واحد امریکی صدر تھا جسے 4 مواقع ملے اور تین مکمل کئے تاہم بعد میں امریکی صدارت کیلئے ایک شخص کی 1947 کی ترمیم کے تحت دورِ صدارت کے دو ادوار تک محدود کر دیا۔

مانا کہ امریکہ کو امریکہ بننے میں کم و بیش دو صدیاں لگیں، یہ بھی مانا کہ امریکہ میں پلک جھپکتے جمہوریت پروان نہیں چڑھی، عشرے لگے۔ دلچسپ یہ کہ وہ بھی برطانیہ ہی سے آزاد ہوئے، ہماری طرح مگر ہم برطانوی قبضہ میں آئے۔ مسلمانوں کی کئی صدیوں کی برصغیر پاک و ہند میں کامیاب و کامران حکومت کے بعد۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپنی کامیابیوں اور زوال کے علاوہ امریکی تاریخ یا عالمی تاریخ و انقلاب و ارتقا سے واحد نظریاتی ملک اور جوہری توانائی کے حامل پاکستان نے کیا سیکھا؟ اصلاحات کیں نہ انگریز کے قانون کی جان داری و شان داری کو عملی جامہ پہنا سکے۔ وجہ ؟ قیادت کا فقدان؟ قوم میں ارادہ و احساس و ادراک کی کمی یا ان تینوں اشیا کی کمی؟ یا پھر قیادت اور قوم دونوں میں مذکورہ تینوں چیزیں پنپ نہ سکیں؟ کیا پاکستان اکلوتا نظریاتی ملک ہے یا اسرائیل بھی؟ کامیاب کون اور کیوں؟ کبھی گنتی کیجئے گا اسرائیلی نوبل انعام یافتہ افراد کی؟

ایک کامرانی ایسی بہرحال ہے کہ جس کے حوالےسے بدترین مخالف بھی کہتے ہیں’’جو بھی ہے ذوالفقار علی بھٹو پاکستان میں اصلاحات کا گرو تھا، صرف51 سال تک جی سکا مگر سب سے زیادہ اثرات اور اصلاحات کر کے گیا، کیونکہ وقت کے ساتھ وقت کے مطابق وقت پر کھیلتا تھا وہ! ‘‘۔

عمران خان کی آمد سے قبل کچھ امیدیں خان کے اپنوں اور بے گانوں کو بھی تھیں۔ شاید اچھا کپتان اچھی ٹیم نہ پاسکا یا سیاسی کیپٹن اننگ اس کے بس کا روگ نہ تھا۔ اٹھارہویں ترمیم اور مخالفین سے کھیل اور کھلواڑ میں بہت وقت ضائع ہوا۔ بیوروکریٹک اصلاحات وجود پاسکیں نہ تعلیمی اصلاحات۔ ترقیات نہ سہی امور صحت ہی کو اصلاحات کا عملی وعدہ مل جاتا مگر نہ ملا۔ کاش کمشنرز و چیف سیکریٹریز کی جگہ متعلقہ ڈی سی و سیکرٹری وزرا ہی کافی ہوتے۔ کاش وزیراعظم و وزراء اعلی بابو پرنسپل سیکرٹریز کے بجائے پولیٹکل سیکرٹریز رکھتے۔ کاش ضلعی نظام تقویت پاتا اور اس کے اپنے اور صوبوں کے اپنے اپنے بیوروکریٹس ہوتے، مرکز میں بیوروکریسی کم اور ٹیکنوکریسی زیادہ ہوتی، 18ویں ترمیم پر تنقید کے بجائے صوبوں کو اور زیادہ مستحکم کیا جاتا۔ صوبے اپنے بیورکریٹس خود لگاتے اور چیف سیکرٹری کے اختیارات وزرائے اعلیٰ اور وزرا کے اپنے پاس ہوتے۔ من پسند 18 ویں گریڈ کو 20 ویں گریڈکے عہدے نہ دیے جاتے جو ماضی ہی کا چلن چلا جارہا ہے مگر وزیراعظم نے جو انتخابی اصلاحات اور سینٹ کے انتخابات کا ہاتھ اٹھاکر چناؤ کا فارمولا چاہا ہے یہ خوش آئند ہے پس اپوزیشن اس میں وزیراعظم کی مدد کرے۔ ۔ ۔ شاید کہ وزیراعظم کی دل میں اتر گئی ہو اصلاحات کی بات۔ ابھی اتنا وقت ہے کہ اصلاحات لائی جاسکتی ہیں جو رعایا کو عوام اور قوم بنا دے جو صرف انسانی حقوق کو تقویت دینے سے ممکن ہے جبکہ انسانی حقوق کی تقویت ہی جمہوریت کو جلا بخشتی ہے، اس سے بڑی اصطلاح اور فلاح اور کوئی نہیں۔ سیاست دان سے لیڈر بننے کیلئے نعرے و دعوے یا دشمنیاں و دوستیاں نہیں، کریڈیبلٹی چاہئے۔ وقت ہے خان اپنی اور قوم کی اٹھان کیلئے اصلاحات کے عزم میں سنجیدگی لائیں، وہ امر ہوجائیں گے، اگر قوم کو اصلاحات کا موڑ میسر آگیا۔ ورنہ کئی آئے کئی گئے، کل کس نے دیکھا ہے۔ قوم کو گھٹنوں سے اٹھانے کیلئے لیڈر کو پہلے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ تاریخ اور تحریک گواہ ہے، اٹھان کے ہنر سے آشنا پولیوزدہ ٹانگوں کو بھی فولادی رنگ ڈھنگ دے سکتے ہیں۔

تازہ ترین