کچھ عرصہ پہلے تک ذہنی دباؤ اور ڈپریشن کا تعلق بڑی عمر کے افراد کے ساتھ جوڑا جاتا تھا، تاہم اب اس بیماری نے بچوں اور نوجوان طبقے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ امریکن کالج ہیلتھ ایسوسی ایشن کے مطابق، امریکی تعلیمی اداروں میں 15سے 24سال کے بچوں میں 1950ء کے عشرے کے مقابلے میںتین گنا زیادہ خودکشیاں ریکارڈ کی گئیں۔
برطانیہ کی صورتِ حال بھی کچھ مختلف نہیں، جہاںگزشتہ 10سال کے دوران طلبا میں خودکشی کا رجحان 56فی صد بڑھ گیا۔ صرف یہی نہیں، برطانیہ کی تاریخ میں پہلی بار دیگر عام افراد کے مقابلے میں طلبا زیادہ خودکشیاں کررہے ہیں۔ برطانوی اخبار کی ایک رپورٹ میں، بچوں کے ڈپریشن میں مبتلا ہونےکی سب سے بڑی وجہ امتحانات اور پڑھائی میں بہتر کارکردگی دِکھانے کے دباؤکو قرار دیا گیا ہے۔
معاشرے میں بہترمقام، نامور یونیورسٹی میں داخلہ، روزگار کے بہتر مواقع اور اسی طرح کے کئی خوابوں کی تعبیر کی کوشش میں نوجوان نسل کو اندرونی اور بیرونی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔امتحانات میں اچھے نمبرز کے ساتھ پاس ہونے، اپنے ہمسایوں، رشتہ داروں اور دوستوں کے بچوں کے مقابلے میں اچھی کارکردگی دِکھانے اور ان چیزوں کو سماج میں وقار کی حیثیت دینے سے والدین اپنے بچوں کو شدید ذہنی دباؤ میں مبتلا کردیتے ہیں۔ امتحانات کے دوران اور نتیجہ آنے سے قبل کچھ طلبہ اور طالبات میں ذہنی تناؤ اور دباؤ اتنا زیادہ ہوجاتا ہے کہ بعض اوقات اس کا نتیجہ انتہائی خطرناک نکلتا ہے۔
شعبہ تعلیم میں کسی بھی طالب علم کی ایک خاص درجہ کی علمی استعدادپرکھنے کو امتحان کہا جاتا ہے۔مثال کے طور پر طالب علموں کو تعلیمی سال کے دوران، ان کی جماعت میں پہلے پڑھایا جاتا ہے اور پھر متعین کردہ عرصے کے اختتام پر جانچ کی جاتی ہے کہ آیا دی گئی تعلیم سے انہوں نے کس حد تک استفادہ کیا ہے۔ اسی جانچ کا نام امتحان ہے۔ کسی بھی طالب علم کی اگلے درجے یا جماعت میں ترقی اس کی امتحان میں کامیابی سے مشروط ہوتی ہے۔
امتحان صرف علمی استعداد کی جانچ ہی نہیں بلکہ ایک مقابلہ بھی ہوتا ہے، جس میں کامیابی کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ امتحان کی قسم جو بھی ہو اور امتحان دینے والے نے خود کو اس کے لیے جس قدر بھی تیار کیا ہو، اس کے اندر امتحان کی وجہ سے کسی نہ کسی حد تک اضطراب ضرور پیدا ہوتا ہے۔ یہ اضطراب کبھی کبھار ذہنی دبائو کی شکل بھی اختیار کر لیتا ہے۔ بعض اوقات یہ دبائو محض امتحان دینے والے بچوں تک محدود نہیں رہتا بلکہ ان کے والدین کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
ویسے تو اپنے ہی اسکول میں امتحان دینے والے بچے بھی دبائو کا شکار ہوجاتے ہیں مگر جب امتحان لینے والا ادارہ داخلی انتظامیہ کی بجائے بورڈکا ہو تو ذہنی دبائو کی شدت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ امتحانات کے دوران دبائو کی وجہ سے طالب علم چڑ چڑے ہوجاتے ہیں، سہمے سہمے سے رہتے ہیں، ٹھیک طرح سے سو نہیں پاتے، ان کا کھانے کو دل نہیں کرتااور بعض اوقات وہ سر یا پیٹ درد کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔
عام خیال کے برعکس، یہ بات درست نہیں ہے کہ صرف نالائق طالب علم ہی امتحانات کے دبائو کا شکار ہوتے ہیں بلکہ لائق طالب علموں کے دبائو کا شکار ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ کئی ممالک میں طالب علموں کی اس کیفیت کو مد نظر رکھتے ہوئے امتحانات سے قبل انہیں ذہنی دبائو سے محفوظ رکھنے کے لیے نا صرف خصوصی لیکچرز دیے جاتے ہیں بلکہ امتحانوں کا شیڈول بھی اس طرح مرتب کیا جاتا ہے کہ انہوں نے جو پڑھا ہوتا ہے، اس کو آسانی سے دُہرا سکیں اور کسی قسم کے دبائو یا پریشانی کا بھی شکار نہ ہوں۔
اس سلسلے میں چھوٹے بچوں کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ چھوٹے بچوں کے امتحانات سے قبل ان کے والدین سے خصوصی ملاقاتیں کی جاتی ہیں اور بہتر امتحانی ماحول فراہم کرنے کے لیے ان سے تجاویز مانگی جاتی ہیں۔
اس ضمن میں والدین سے گزارش کی جاتی ہے کہ وہ گھر پر بچوں کو پُرسکون تعلیمی ماحول فراہم کریں اور ذاتی جھگڑوں اور تنازعات سے اسے پاک رکھیں۔ اس کے علاوہ ٹی وی ،موسیقی، ویڈ یوگیمز اور انٹر نیٹ کے استعمال کو محدود رکھیں۔
ہر وقت پڑھائی کی تلقین نہ کر یں بلکہ پڑھائی کے لیے اوقات کار مقرر کریں اور ان اوقا ت پر صرف نگرانی کا کام انجام دیں۔ والدین کی جانب سے اگر ان احتیاطی تدابیر کو اختیار کر لیا جائے تو یہ بچوں کی کا میابی کا پہلا زینہ ثابت ہو گا۔
والدین کے ساتھ، اساتذہ بھی بچوں میں یقین کی کیفیت اور خود اعتمادی کی فضا پروان چڑھائیں جو کہ کسی بھی معرکہ کو سر کرنے میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ اس طرح بچہ نہ صرف حصولِ تعلیم میں اعلیٰ کارکردگی دکھانے کے دباؤ سے آزاد ہوجائے گا بلکہ اس کی کارکردگی بھی بہتر ہوگی۔