حکومت اور اپزیشن میں سے کوئی بھی اپنے موقف میں لچک دکھانے کے لئے تیار نہیں ، ایسے میں تو محاذ آرائی یقینی امر ہے ۔
بظاہر مفاہمت کے لئے اپیل مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی جا نب سے آئی وہ بھی رائیگاں گئی کیونکہ وزیر اعظم عمران خان نے طاقتور حلقوں کو ٹھوس پیغام دیا ہے کہ وہ تازہ عام انتخابات اور استعفے کے مطالبے پر کسی دبائو میں نہیں آئیں گے ۔ عمران خان کی ساکھ ایک مضبوط چیلنجر کی ہے جو آخر تک مقابلے پر یقین رکھتا ہے ۔
گیارہ جماعتی اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے بارے میں ان کا موقف سخت سے سخت تر ہو تا جا رہا ہے ، چاہے وہ اسلام آباد کی جانب مارچ کا فیصلہ کریں ، گرفتاریاں دینے کی تحریک شروع کریں یا اسمبلیوں سے اجتماعی استعفے دینے کا فیصلہ کریں ۔
دبائو کا مقابلہ کر نے کے حوالے سے وہ اپنے زمانہ کرکٹ کا حوالہ دیتے ہیں جس میں 1992 کے ورلڈ کپ کی فتح بھی شامل ہے کہ انہوں نے کس طرح سے دبائو کا سامنا کیا تھا ۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کو مایوس ہو گی کیونکہ انہیں اس کے دبائو کا سامنا کرنا بھی آتا ہے ۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے 8 دسمبر کو اپنے اپوزیشن اتھاد میں شامل جماعتوں کا سربراہ اجلاس بلایا ہے جس میں ملتان کی ریلی کی روشنی میں مستقبل کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا ۔
پی ڈی ایم 13 دسمبر کو مینار پاکستان لاہور پر اپنے آخری جلسہ عام کا اعلان کر چکی ہے جس کے بعد اس اپوزیشن اتحاد کی تحریک کا فیصلہ کن مرحلہ شروع ہو گا جس میں 1983 کی ایم آر ڈی تحریک کی طرز پراسلام آباد کی جانب مارچ ، اسمبلیوں سے اجتماعی استعفے اور گرفتاریاں دینا شامل ہیں ۔
ماضی میں گزشتہ لانگ مارچ ، مارچ سے قبل ہی نتیجہ خیز ثابت ہوا تھا لیکن 2014 میں طویل ترین دھرنا اور 2013 کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کی تحقیقات کے لئے عدالتی کمیشن کی تشکیل کے باوجود عمران خان کو اقتدار کے لئے 2018 کے عام انتخابات تک انتظار کر نا پڑا ۔تاہم لگتا ہے موجودہ اپوزیشن کے لئے اپنے کلیدی مطالبات کا پوار ہونا دشوار لگتا ہے ۔
اس سے محاذ آرائی بڑھے گی اور طاقتور حلقے موجودہ حالات میں ایسا ہونا پسند نہیں کریں گے ۔
پی ڈی ایم نے وزیر اعظم سے بات چیت پہلے ہی مسترد کردی ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈائیلاگ پر آمادہ ہے جو ناقدین کے مطابق اپوزیشن کے اصولی موقف میں بڑا تضاد ہے ۔
ملتان کے جلسے سے جس غلط انداز میں نمٹا گیا اس پر پنجاب کی حکومت اور انتظامیہ کو خود اپنے رہنمائوں اور وفاقی وزرا کی جانب سے ہدف تنقید بننا پڑا۔ اب تو وزیر اعظم بھی دریافت کر رہے ہں کہ کمزور فیصلہ سازی کی وجہ سے پی ڈی ایم کو اس قدر بڑھاوا ملا ۔