• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم نے ایسا عالم ِ دین نہیں دیکھا جو اصرار کرتا ہو کہ اسے مولانا نہ کہا جائے۔ ڈاکٹر کلبِ صادق اپنے علم اور فضل اور سادگی اور کشادہ قلبی کی وجہ سے بہت یاد رکھے جائیں گے۔ کچھ عرصے سے بیمار تھے اور پریشان تھے کہ ان کے شروع کئے ہوئے کام رُک نہ جائیں، کہ اس علالت نے کام تمام کیا اور ڈاکٹر کلبِ صادق اس جہان فانی سے اُٹھ کر بہت بڑا خلا چھوڑ گئے۔کبھی ہم سب کے درمیان بیٹھتے تو ہم ہی جیسے ہوجاتے تھے، کبھی جو محسوس ہوا کہ گھر میں کوئی اجنبی چلا آیاہے۔

منکسر المزاج، ہمیشہ جھک کر ملنا، اپنی علمیت کا مظاہرہ نہ کرنا،ان کی خوبیوں کو کہاں تک شمار کیا جائے۔ ان میں خطیبوں والی کوئی بات ہی نہ تھی۔

مجلس عزا میں تقریر اس طرح کرتے تھے جیسے سامنے بیٹھے ہوئے احباب سے باتیں کر رہے ہوں، اور باتوں میں بھی وہی سادگی اور سہل انداز۔ عام لباس،وہی مخصوص ٹوپی، خواتین کی موجودگی میں مسلسل جھکی ہوئی نظریں،کھانا اتنا سادہ اور اس قدر کم کہ میزبان سمجھ نہ پائے کہ خاطر و مدارت کیسے کرے۔

مجھے اور میری اہلیہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ ڈاکٹر کلبِ صادق جب بھی لندن آئے، ہمارے گھر بھی آئے اور وہ بھی اس فرمائش کے ساتھ کہ صرف ارہر یا کالی مسور کی دال کھائیں گے جن کے بارے میں انہیں یقین تھا کہ میری اہلیہ کے ہاتھ میں غضب کا ذائقہ ہے۔کیسے بھلے انسان تھے کہ ان کے ہاتھوں کوئی نہیں جانتا کتنے یتیموں ، بیواؤں ، معذوروں اور اپاہجوں کو فیض پہنچ رہا تھا۔

کہا کرتے تھے کہ جی چاہتا ہے ساری امّت کے لئے عمدہ تعلیم کا انتظام کردوں۔بہت بڑے بڑے ارادے تھے جو یا تو مکمل ہو چکے تھے یا راہ میں تھے۔ کتنے تعلیمی ادارے کھولے، میں حساب نہ رکھ سکا بس یہ جانتا ہوں کہ دنیا انہیں دوسرا سر سید کہنے لگی تھی۔لکھنؤ میں اپنے یونٹی کالج کی افتتاحی تقریب کررہے تھے جس میں ہم دونوں خصوصی دعوت پر گئے۔ ہم گئے تو ان کے تعلیمی ادارے دیکھے ۔

ایسے منّظم، اس قدر صاف ستھرے کہ ہم حیران رہ گئے۔ مجھے اپنا میڈیکل کالج دکھانے لے گئے۔ اتنا بڑا کالج کیسے قائم کرلیا۔ تب پتہ چلا کہ ان کے قدر دانوں نے اپنی فیاضی کا ایسا مظاہرہ کیا ہے کہ خواب سچے کر دکھائے۔ ملک میں کالج اور یونی ورسٹیاں بہت ہیں لیکن صاف نظر آتا تھا کہ ان میں داخلے کے خواہش مندوں کی راہ مسدود ہے، ڈاکٹر صاحب نے اس کا حل نکال لیا اور اپنے تعلیمی ادارے کھول دئیے۔

کلب صادق صاحب کو دنیا کے کتنے ہی علاقوں کے علم دوست احباب اپنے ہاں بلاتے تھے اور ان کے منصوبوں کی تکمیل کے لئے فراخ دلی سے عطیات دیتے تھے۔

مجھے یاد ہے ایک بار ڈاکٹر صاحب کے حاسدوں نے انہیں بین الاقوامی بھکاری کہنا شروع کردیا تھا۔ مگر نہ ان کے حوصلے پست ہوئے نہ عطیات دینے والوں نے ہاتھ کھینچے۔مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ایک مرتبہ عطیات میں کچھ خیانت کا شبہ ہوا،ڈاکٹر کلب صادق کو اتنا پریشان کبھی نہیں دیکھا۔انہوں نے ساری مصروفیات ترک کرکے جب تک ایک ایک پیسے کا حساب درست نہیں کرلیا ،چین سے نہیں بیٹھے۔

ایک بار ہمارے ہاں آئے ، رمضان کے دن تھے۔ میں نے اپنے لکھنے پڑھنے کے چھوٹے سے کمرے میں ریکارڈنگ کا اہتمام کیا تاکہ ان کا انٹرویو ریکارڈ کرنے کے لئے انہیں اسٹوڈیو نہ جانا پڑے۔اس ذرا سی بیٹھک میں ریکارڈنگ ہوئی۔ موضوع وہی ان کا پسندید ہ عنوان تھا۔ تمام نفاق مٹائے جائیں، اتحاد اور ہر قیمت پر اتحاد۔

ریکارڈنگ کے بعد میں نے کہا کہ چل کر آرام دہ نشست گاہ میں بیٹھئے، صاف انکارکردیا اور کہنے لگے کہ یہیں اسی کمرے میں بیٹھیں گے، یہیں روز ہ کھولیں گے اور یہیںنماز پڑھیں گے۔یہی ہوا، دنیا بھر کے اپنے دوروں کے قصے سناتے رہے۔

افطار کا وقت ہوا تو ایران کی نہایت ملائم کھجور سامنے رکھی گئی۔ اسے منہ میں رکھتے ہی کھل اٹھے اور بولے کہ اتنی لذیذ کھجور کبھی نہیں کھائی۔پھر میرے کمرے کو یہ شرف ملا کہ کلب صادق صاحب کی امامت میں میرے دوست ہادی عسکری اور میں نے یہیں نماز ادا کی۔ کھانے کا وقت تھا، اب کھانے کے کمرے میں چلنے پر رضا مند ہوئے ۔

بیگم نے دیسی گھی میں سرخ مرچ اور لہسن کا تازہ تازہ بگھار لگا کر ارہر کی دال پیش کی ۔ منہ میں پہلا لقمہ لیتے ہی بچوں کی طرح کھل اٹھے اور بولے کہ اتنی لذیذدال میں نے کبھی نہیں کھائی۔ میں نے کہا کہ یہ آپ کے پسندیدہ الفاظ ہیںجنہیں آپ دہراتے رہتے ہیں۔ذرا سے خفا ہوئے اور اصرار کرنے لگے کہ ارہر اور کالی مسور کی دال بیگم عابدی سے بہتر کوئی نہیں پکا سکتا۔لوگ پلاؤ زردے شوق سے کھاتے ہیں، ڈاکٹر کلبِ صادق کا اصرار تھا کہ وہ سادہ چاول کے سوا کچھ نہیں کھائیں گے۔ہم یوں مسرور ہوئے کہ ہماری بھی مرغوب غذا یہی ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے کمال کی حسِ مزاح پائی تھی۔خود بھی ہنس مُکھ تھے اور محفل کو بھی اپنی باتوں سے محظوظ کرتے تھے۔ ایک بار یورپ کا دورہ کرتے ہوئے اسپین سے برطانیہ آئے تو احباب کے درمیان بیٹھ کروہاں کے قصے سنارہے تھے۔ کہنے لگے کہ آپ کو شاید علم نہ ہو، اسپین کی زبان میں خچّر کو مُلّا کہتے ہیں۔سب کوہنسایا، خود بھی خوب ہنسے۔

ایک مرتبہ شہر لکھنؤ کی بات ہورہی تھی تو پتہ چلا کہ ڈاکٹر صاحب وہاں جوہری محلے میں رہتے ہیں۔ میں نے خوش ہوکر بتایا کہ جوہری محلہ میں ہمارے بزرگ رہتے تھے۔ کہنے لگے کہ اب تو وہاں انسان سے زیادہ گائے بھینسیں رہتی ہیں اور جوہری محلہ اب گوبری محلہ کہلاتا ہے۔

کیسا بڑا خسارہ ہے ان کا جانا، کتنے کام نہ جانے اب کیوں کر مکمل ہوں گے۔ ہمارے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کی ان کی آرزو یقین ہے پوری ہوتی رہے گی کیونکہ اُن کے روشن کئے ہوئے چراغ بجھنے والے نہیں۔یہ ہے نیک نیتی کا فیضان۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین