• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مُقرّب سے مردُود ہونے تک

آپ میں سے اکثر شاید اِس بات سے واقف نہ ہوں کہ آسمانوں پر میرا نام عزازیل تھا۔ مَیں طائوسِ ملائکہ، بادشاہِ اَفلاک، فرشتوں کا امام، مقرّبین کا سردار، جنّت کے بیتُ المال کا خازن اور معلّمِ ملائکہ تھا۔ خالقِ کائنات کے چند مقرّب ترین ملائکہ میں سے تھا۔ مجھے یہ اعزازات ہزاروں سال تک دِن و رات کی مسلسل ریاضت اور عبادات کے باعث عطا فرمائے گئے تھے۔ ہر وقت، ہر لمحہ ذکرِ الٰہی میری صفتِ خاص تھی۔ خوش نودیٔ رَبّ میرا مقصدِ حیات تھا۔ پہلے آسمان سے ہفت اَفلاک تک، جنّت الماویٰ سے لوحِ محفوظ تک بلا روک ٹوک رسائی نے مجھے دُوسروں سے برتر کر دیا تھا۔یہ تخلیقِ آدمؑ سے ہزاروں سال پہلے کی بات ہے کہ ایک دن میں ادب و احترام کے قرینوں کا خیال رکھتے ہوئے لوحِ محفوظ پر پہنچا۔ شُکر و احسان سے بوجھل پَلکوں کو اُٹھا کر اُوپر دیکھا، جہاں تحریر تھا’’اعوذ باللہ من الشّیطان الرجیم‘‘۔ یعنی ’’پناہ مانگتا ہوں اللہ کی، شیطان مردُود سے۔‘‘یہ پڑھ کر میرے پورے وجود پر خوف سے سنسناہٹ طاری ہوگئی۔ 

مَیں نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا ’’اے اللہ! یہ شیطان کون ہے؟‘‘ بارگاہِ خداوندی سے ندا آئی’’ اے عزازیل! یہ نہایت عابد، زاہد برگزیدہ اور میرے مقرّبینِ خاص میں سے ہے، لیکن یہ تکبّر میں مبتلا ہو کر میری حکم عدولی کرے گا۔ پس، مَیں اُسے ملعون و مردُود قرار دے کر راندۂ درگاہ کر دوں گا۔‘‘ رَبّ ِ ذوالجلال کی اِس بات سے مَیں لرز اُٹھا۔ میری زبان میں لڑکھڑاہٹ آ گئی۔ اَٹکتے لفظوں کے درمیان پھر عرض کیا’’ اے معبودِ برحق! کیا مَیں اس سے واقف ہوں؟‘‘ ارشاد ہوا’’ وقت آنے پر تُو نہ صرف اُسے پہچان جائے گا، بلکہ اس کے انجام سے بھی واقف ہو جائے گا۔‘‘ عرشِ معلّیٰ سے آنے والے اس جواب سے میرا وجود کانپ اُٹھا۔ بے اختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ مَیں نے سوچا، آخر وہ کون بدبخت و بدنصیب ہوگا، جو ہمیشہ کے لیے نشانِ عبرت بنا دیا جائے گا۔ پھر برسوں تک یہ خیال میری سوچوں پر غالب رہا۔

تاہم، گزرتے وقت کے ساتھ بڑھتی ذمّے داریوں اور شدید مصروفیات نے اس واقعے کو میری یادوں سے محو کر دیا۔ فرشتوں کے اُستاد کی حیثیت سے میری ذمّے داری درس و وعظ بھی تھی، جس کا آسمانوں میں دُور دُور تک چرچا تھا اور ملائکہ کی بڑی تعداد اُس میں شریک ہو کر مستفید ہوتی تھی۔ 

جب مَیں اپنی اُن محافل میں حضرت جبرائیلؑ، حضرت میکائیلؑ، حضرت عزرائیلؑ اور حضرت اسرافیلؑ جیسے مقرّب فرشتوں کو دیکھتا، تو اپنی برتری کی ایک لہر میرے سراپے میں سرور کی کیفیت پیدا کرتی ہوئی گزر جاتی۔ شاید اسی کا نام تکبّر ہو؟ بہرحال، بیتے سالوں کے ساتھ میرے درجات مزید بُلند ہوتے چلے گئے۔ اب میری حیثیت بادشاہِ اَفلاک کی سی تھی۔ اِتنے بڑے مرتبے کے بعد مجھ میں عاجزی و انکساری پیدا ہونی چاہیے تھی، لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوا۔ مجھے یوں محسوس ہوتا کہ جیسے میرے اندر سے ایک آواز مجھے کہتی’’ اے عزازیل! تُو ان سب میں افضل ہے۔‘‘ مجھے اچھی طرح یاد ہے، ایک دو بار مجھے حضرت جبرائیلؑ اور حضرت میکائیلؑ نے سمجھانے کی کوشش بھی کی تھی، لیکن جب عقل پر غُرور اور تکبّر کے بادل چھا جائیں۔ آنکھوں پر رعونیت کا پردہ پڑ جائے، کان وعظ و نصیحت سُننے سے قاصر ہوں، تو پھر تباہی و بربادی مقدّر بن جاتی ہے۔ 

ذِلّت و رُسوائی کا طوق ہمیشہ کے لیے گلے کی زینت بن جاتا ہے اور پھر ایک بدقسمت دِن یہ ہی سب کچھ میرے ساتھ بھی ہوا۔رَبّ ِ ذوالجلال نے میری ہزارہا سالوں کی عبادتیں میرے مُنہ پر دے ماریں۔ مَیں جو طائوسِ ملائکہ تھا، اب ملعون و مردُود بن چُکا تھا۔ مجھے حضرتِ انسان کا کھلا دُشمن قرار دے کر’’ لعنت اللہ علی شیاطینھم‘‘ کے لقب سے نوازا گیا۔ اب میں شر کی طاغوتی قوّت میں تبدیل ہو کر بدی اور بُرائی کی سب سے بڑی علامت بن چُکا تھا۔ قرآنِ پاک میں 88 بار شیطان اور 11 بار ابلیس کے نام سے میرا ذکر کر کے انسانوں کو مجھ سے دُور رہنے اور میرے شر سے بچنے کا حکم دیا گیا۔ باری تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کو دُنیا میں مبعوث فرما کر قوموں کو میرے مکر و فریب سے بچنے کی تلقین فرمائی۔

اللہ تعالیٰ کی جانب سے چار چیزوں کی اجازت

زمین پر جانے سے پہلے مَیں نے اللہ سے چار چیزوں کی اجازت طلب کی۔ (1) تاقیامت موت سے مہلت (2) اہلِ زمین کو بہکانے کی قوّت (3) ہیئت تبدیل کرنے کی صلاحیت (4) اولادِ کثیر اور اُن کی طویل عُمریں۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’جا تجھے اجازت ہے، لیکن میرے نیک بندے تیرے فریب میں نہیں آئیں گے اور جس نے تیرا ساتھ دیا، مَیں تجھ سے اور اُن سب سے جہنّم کو بَھر دوں گا‘‘( سورۂ بنی اسرائیل۔61,63)۔ اب میرا کام آسان ہوگیا تھا۔ کھنکھناتی، سڑی مٹّی سے پیدا کیا گیا یہ حضرتِ انسان، جو اشرف المخلوق ہے، مسجودِ ملائکہ، احسنِ تقویم اور اپنے اوصاف و کمالات پر نازاں ہے، لیکن مَیں نفس کے پجاری اِس انسان کے رَگ و پے سے اچھی طرح واقف ہوں۔ 

گوکہ مجھے اِس بات کا اختیار نہیں ہے کہ مَیں ان کے اجسام پر قابض ہو کر ان سے بالجبر بدی کے کام کروائوں، چناں چہ مَیں اُن کی اندرونی جبلّت، یعنی نفسِ اَمّارہ کو اپنی وسوسہ اندازیوں اور دسیسہ کاریوں کے چنگل میں پھنسا کر برائیوں پر آمادہ کرتا ہوں۔ ان میں سے جو صاحبِ ایمان ہیں، وہ تو تعوذ اور استغفار پڑھ کر مجھے بھاگ جانے پر مجبور کر دیتے ہیں، لیکن لالچی فطرت کی حامل اکثریت میرے دامِ فریب میں مبتلا ہوکر اندھا دُھند میرے پیچھے چلنے لگتی ہے۔ پھر یہ خود ہی شرک کو تعلیم، کفر و فسق کو عبادت، نافرمانی کو حاضر جوابی، بدتمیزی کو بہادری، موسیقی کو رُوح کی غذا، رَقص کو جسم کی شاعری، عریانیت و فحاشی کو جدّت پسندی، مذہبی اقدام کو فرسودہ، دینی روایات کو قدامت پسندی قرار دے کر شرم و حیا کی چادر کو تار تار کر دیتے ہیں۔

شیطان کا خاندانی پس منظر

حضرت آدمؑ کے دُنیا میں آنے سے قبل کرّۂ اَرض اور آسمان پر دو قسم کی مخلوقات رہتی تھیں۔ ایک نوری اور دُوسری ناری۔ نوری مخلوق نور سے پیدا کیے گئے فرشتے ہیں، جو آسمانوں میں رہ کر دن رات عبادتِ الٰہی میں مصروف رہتے ہیں۔ اُن کے یہاں عورتیں ہوتی ہیں اور نہ ہی اُن کی نسل چلتی ہے۔ ناری مخلوق جنّات ہیں، جو آگ سے پیدا کیے گئے۔ یہ زمین پر رہتے ہیں۔ اُن کے یہاں عورتیں بھی ہوتی ہیں اور اُن کی نسل بھی خُوب پھیلتی ہے۔

جنّات میں شر کا مادّہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اکثر لوگ مجھے بھی فرشتہ سمجھتے ہیں، لیکن مَیں جنّات کی نسل سے ہوں اور آگ کے بھڑکتے شعلے سے پیدا کیا گیا ہوں۔ جس طرح انسانوں میں حضرت آدمؑ کو’’ ابوالبشر‘‘ کہا جاتا ہے۔ اِسی طرح میرے جدِ اَمجد ’’طارانوس‘‘ کو ’’ابوالجن‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ کچھ مؤرّخین نے اُن کا نام’’مارج‘‘ بھی لکھا ہے۔ یہ میرے پیدا ہونے سے ڈیڑھ لاکھ سال پہلے کا واقعہ ہے۔میرے والد کا نام ’’چلیپا‘‘ اور ’’ابوالغوی‘‘ اُن کی کنیت تھی۔ میرے باپ کا چہرہ ببرشیر جیسا تھا، وہ بڑا بارُعب، بہادر، قوی اور نڈر جن تھا۔ 

میرا باپ اپنی قوم کا سردار تھا۔ قومِ اجناء کا ہر جن میرے باپ کی دہشت سے خوف کھاتا تھا۔ اِسی لیے اُس کی قوم اسے ’’شاشین‘‘ کے نام سے یاد کرتی تھی، جس کے معنیٰ ہیں ’’دِل دہلا دینے والا۔‘‘میری ماں کا نام ’’تبلیث‘‘ تھا۔وہ بھی میرے باپ کی طرح طاقت وَر، بہادر اور نڈر تھی۔ جنوں کی اکثریت سرکش، شرپسند، فسادی اور جنگ و جدل کی دل دادہ ہے، جب کہ نیک اور پُرامن جنوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ میرے باپ نے اپنے قبیلے کے لیے بہت جنگیں لڑیں اور ایک وقت وہ آیا کہ تمام قبائل میرے باپ کے زیرِ نگیں ہوگئے اور یہ ہی وہ وقت تھا کہ جب ہماری قوم غرور و تکبّر میں مبتلا ہو کر سرکشی پر اُتر آئی۔ یہاں تک کہ اُن کے جھگڑوں، فسادات اور خون خرابے سے زمین سُرخ ہوگئی۔ 

لہٰذا، اللہ تعالیٰ نے اس فساد کے قلع قمع کے لیے آسمانوں سے فرشتوں کی فوج بھیجی۔ زمین پر میری قوم اور فرشتوں کے درمیان ایک خوف ناک جنگ ہوئی، جس کے نتیجے میں میرے والدین سمیت زیادہ تر شرپسند جن مارے گئے، کچھ سمندر پار دُور دراز جزائر میں جا چُھپے، جب کہ نیک جِنوں نے غاروں میں پناہ لے لی۔ اُس وقت میں کم سن تھا اور اس تباہی پر ایک میدان میں کھڑا زار و قطار رو رہا تھا۔ میرے اِردگرد جنّات کی لاشوں کے ڈھیر پڑے تھے۔ فرشتوں کا کام ختم ہو چُکا تھا۔ 

وہ آسمان پر اُڑتے ہوئے واپس جا رہے تھے کہ اچانک فرشتوں کے ایک گروپ نے مجھے روتے دیکھا، تو زمین پر اُتر آئے۔ مَیں نہایت حَسین و جمیل تھا اور چہرے سے معصومیت بھی ٹپکتی تھی۔ اُنہیں مجھ پر ترس آ گیا، چناں چہ اُن رحم دل فرشتوں نے حضرت جبرائیلؑ کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے مجھے ساتھ لے جانے کی اجازت طلب کی اور پھر اللہ کی رضا سے مجھے گود میں لے کر پہلے آسمان پر اُتر گئے۔ وہاں میری تعلیم و تربیت کا بہترین بندوبست کر دیا گیا۔ 

مَیں بہت ذہین تھا اور محنتی بھی۔ اپنا تمام تر وقت عبادت و ریاضت میں گزارتا تھا۔ اپنے اتالیق فرشتوں سمیت سب سے بہت کم بات کرتا ۔ اکیلا ہی آسمان کی سیر کو نکل جاتا اور گھنٹوں قدرتِ الٰہی کے رازہائے سربستہ کو جاننے کی ناکام کوششوں میں اپنا سَر کھپاتا۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا، میرے سرد رویّے نے مجھے فرشتوں میں مغرور، مشہور کر دیا تھا، لیکن مجھے اس کی فکر نہیں تھی۔ میرا ہدف تو اللہ کا سب سے مقرّب اور عبادت گزار بننا تھا، جس کے لیے مَیں دن رات ریاضت و عبادت میں مصروف رہتا تھا۔ یہاں تک کہ ایک دن اللہ نے مجھے دُوسرے آسمان پر فائز فرما دیا اور پھر گزرتے وقت کے ساتھ اپنی علمیت اور قابلیت کی بنا پر مجھے اللہ کا قُرب حاصل ہوتا چلا گیا۔ پہلے آسمان پر مجھے عابد کہا جاتا تھا، دُوسرے پر زاہد، تیسرے پر عارف، چوتھے پر ولی، پانچویں پر تقی، چھٹے پر خازن اور ساتویں آسمان پر مجھے عزازیل کے نام سے پکارا جاتا۔ 

حضرت کعب احبارؓ میرے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ’’ ابلیس چالیس ہزار برس تک جنّت کا خزانچی رہا۔ اَسّی ہزار برس تک ملائکہ کا ساتھی رہا۔ بیس ہزار برس تک ملائکہ کو وعظ سُناتا رہا۔ تیس ہزار برس تک مقرّبین کا سردار رہا۔ ایک ہزار برس تک رُوحانین کی سرداری کے منصب پر فائز رہا۔ چودہ ہزار برس تک عرش کا طواف کرتا رہا۔ لوحِ محفوظ پر اس کا نام ابلیس لکھا ہوا تھا اور یہ اپنے انجام سے غافل اور خاتمے سے بے خبر تھا۔‘‘(تفسیر صاوی جلد اوّل صفحہ51)۔

آدمؑ کے پُتلے سے ملاقات

ایک دن کا واقعہ ہے کہ مَیں ہفت افلاک کی سیر کرتا ہوا اُوپر پہنچا، تو مجھے پتا چلا کہ اللہ تعالیٰ ایک نئی مخلوق پیدا فرما رہے ہیں، جس کے لیے دُنیا کے ہر کونے سے مٹّی لائی گئی ہے۔ علّامہ ابنِ کثیرؒ لکھتے ہیں کہ’’ اللہ عزّوجل نے آدمؑ کے پُتلے کو اپنے دستِ قدرت سے پیدا فرمایا اور یہ بغیر رُوح کے چالیس سال تک اسی طرح پڑا رہا۔ فرشتے جب اس کے پاس سے گزرتے، تو گھبرا جاتے۔ اُن میں سب سے زیادہ گھبرانے والا ابلیس تھا۔ یہ اس کے پاس سے گزرتا، تو اسے مارتا، جس کی وجہ سے اس جسم سے ایسی آواز نکلتی جیسے کھنکھناتی مٹّی کی ٹھیکری سے نکلتی ہے۔ ابلیس اس جسم کے مُنہ سے اندر داخل ہوا اور پیچھے سے نکل آیا اور فرشتوں سے کہا کہ ’’تم اس سے نہ ڈرو۔ یہ تو اندر سے خالی ہے۔ اگر مَیں اس پر مسلّط ہوگیا، تو اسے ہلاک کر ڈالوں گا۔‘‘ (قصص الانبیاء، ص 55)۔اور پھر وہ دِن بھی آ گیا، جب رَبُّ العالمین نے فرشتوں سے فرمایا کہ’’ مَیں زمین پر اپنا ایک نائب بنانے لگا ہوں۔ 

وہ زمین پر میرے احکام کا نفاذ کروائے گا۔‘‘ فرشتوں نے عرض کیا’’اے پروردگارِ عالم! یہ زمین پر فساد برپا کرے گا اور یہ آپس میں خون ریزی کریں گے۔ جب کہ ہم تو دن رات آپ کی تسبیح کرتے رہتے ہیں اور آپ کی پاکی بیان کرتے رہتے ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’ جو کچھ مَیں جانتا ہوں، وہ تم نہیں جانتے۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو تمام چیزوں کے نام سِکھا دیئے اور اُنہیں فرشتوں کے سامنے پیش کرتے ہوئے فرمایا’’ اگر تم سچّے ہو، تو مجھے ان کے نام بتائو‘‘، اُنہوں نے کہا’’ تُو پاک ہے۔ ہم تو اِتنا ہی جانتے ہیں، جتنا تُو نے ہمیں بتایا ہے۔ بے شک تو بڑے علم و حکمت والا ہے۔‘‘ پھر اللہ نے فرمایا’’ اے آدمؑ! ان چیزوں کے نام بتا دو۔‘‘ پھر جب آدمؑ نے اُنہیں نام بتا دیئے، تو فرمایا’’ کیا مَیں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ مَیں آسمانوں اور زمین کی چُھپی ہوئی چیزیں جانتا ہوں اور جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چُھپاتے ہو، اُسے بھی جانتا ہوں۔‘‘ پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو، اُنہوں نے سجدہ کیا، مگر ابلیس نے انکار کیا‘‘(سورۃ البقرہ 30,34)۔ میرے تکبّر رعونیت اور بڑائی نے مجھے سجدے سے روکے رکھا۔ 

اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’ تجھے سجدہ کرنے سے کس چیز نے منع کیا ہے، جب کہ مَیں نے تجھے حکم دیا۔‘‘ وہ بولا’’ مَیں اس سے بہتر ہوں کہ تُو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے مٹّی سے بنایا ہے۔‘‘(سورۃ الاعراف۔12) ’’ مَیں ایسا نہیں کہ اس انسان کو سجدہ کروں، جسے تُو نے سڑے ہوئے کھنکھناتے گارے سے پیدا کیا ہے۔ اللہ نے فرمایا’’ اب تُو یہاں سے نکل جا، کیوں کہ تُو مردود ہوگیا ہے اور قیامت تک تجھ پر میری پھٹکار ہے۔‘‘ (شیطان نے کہا) اے میرے رَبّ! مجھے روزِ محشر تک کی مہلت دے دے۔‘‘ فرمایا’’ جا، مَیں نے تجھے متعیّن وقت کے دن تک مہلت دے دی۔‘‘ (پھر شیطان نے کہا)’’ مجھے تیری عزّت کی قسم! مَیں ان سب کو یقیناً بہکائوں گا۔‘‘ (سورۃ الحجر: 33,39) ’’ ان پر حملہ کروں گا، اُن کے آگے سے بھی اور پیچھے سے بھی۔ 

اُن کے دائیں جانب سے بھی اور بائیں جانب سے بھی اور آپ اُن میں سے اکثر کو شُکرگزار نہیں پائیں گے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ’’ یہاں سے ذلیل و خوار ہو کر نکل جا،ان میں سے جو شخص تیرا کہنا مانے گا، مَیں اُن سب سے جہنّم کو بھر دوں گا۔‘‘(سورۃ الاعراف۔17,18)۔اور یوں بارگاہِ خداوندی سے دُھتکارے جانے کے بعد مَیں، عزازیل سے ابلیس بن گیا۔ اپنے غرور و تکبّر اور رعونت کی بنا پر میری ہزاروں سالوں کی عبادت و ریاضت ضائع ہوگئی اور مجھے عرش سے فرش پر پٹخ دیا گیا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین