نواب شاہ سے سکرنڈکی طرف جاتے ہوئے دائیں ہاتھ پر ایک عظیم الشان قلعہ سر اٹھائے نظر آتاہے جوکہ عظمت رفتہ کی تصویر بنا سیاحوں کی دلچپسی کا سامان اپنے اندر پنہاںرکھے ہوئے ہے۔یہ قدیم تعمیراتی فن کا عجیب و غریب شاہکار ہے جسےاس دور کے کاریگروں نے گولائی میں تعمیر کیا ہے۔دلیل کوٹ اور دلیل قلعہ کے نام سے معروف اس قلعہ کی تاریخ صدیوں قدیم ہے۔ اس کے بارے میں سندھ کی تاریخی کتب میں اس قلعے کے حوالے سے مختلف واقعات منسوب ہیں۔ تاہم سوانو ایکڑ رقبہ پر چکنی مٹی سے تعمیر کیا گیا یہ قلعہ حوادث زمانہ کے باوجود آج بھی قائم و دائم ہے۔
اس قلعے کی منفرد بات یہ ہے کہ اسے گولائی میں اس طرح تعمیر کیا گیا ہے کہ اس کا کوئی حصہ چوکورنظر نہیںآتا بلکہ اس دور کے کاریگروں نے اسے ایک نئی شکل میں ڈھالا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اُس زمانے میں سائنسی ترقی اور اِس دور کی طرح جدید تعمیری مشینری نہ ہونے کے باوجودجس طرح پرکار سے گول دائرہ بنایا جاتا ہے اسی طرح اس قلعہ کو گول گیند کی طرح بنایا گیا ہے۔قدیم آثار کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پورے پاکستان گولائی کی شکل میں بننے والے کسی قلعہ کا وجود نہیں ہے ، البتہ ہندوستان کے شہر بیجاپور میں ایک قلعہ ہے کا صرف شمالی حصہ گول ہے۔
دلیل قلعہ کی دیوارزمین سے بیس فٹ بلند ہے جبکہ قلعہ کی کچی دیواروں کو سہارا دینے کے لئےزمین کے اندر کھدائی کرکے چار فٹ اوپر تک دیوار بنائی گئی ہے تاکہ موسم کے سردوگرم اور تیز آندھیاں اور طوفان اس قلعہ کی دیواروں کو منہدم نہ کردیں ۔قلعہ کی دیوار کو مزید مضبوط بنانے کے لئے اس میں لکڑی کے تختوں کی بھی چنائی کی گئی ہے۔ اس قلعے کے چاروں اطراف خوبصورت انداز میں برجیاں تعمیر کرکےاسے مزید دلکش بنادیا گیا ہے۔عمارت کے اندرتہہ خانے واقع ہیں جن کا راستہ اینٹیںلگا کر بند کردیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ خطرے کے وقت قلعہ موجود خواتین، بچوں اور بزرگوں کو تہہ خانے میں منتقل کردیا جاتا تھا۔
چند عشرے قبل اس قلعے کی سیر کے لیے آنے والے افراد جنہوں نے تہہ خانے بھی دیکھے ہیں، ان کا کہنا تھاقلعے کے تہہ خانے اپنی مثال آپ تھے اور ان کی چھتیں اتنی مضبوط تھیں کہ ان کے اوپر چلنے والوں کی آوازیں تہہ خانے کے اندر موجود لوگوں کو نہیں سنائی دیتی تھیں ۔ تاریخی روایات کے مطابق ماضی میں دریائے سندھ کے قلعہ کی فصیل کے ساتھ بہتا تھالیکن ارضی تبدیلیوں کے بعداس کا رخ تبدیل ہوگیا اور اب یہ سکرنڈ کے قریب مڈ کے مقام پر بہہ رہا ہے ۔
دلیل کوٹ کے چاروں طرف خوبصورت برجیاں تعمیرکی گئی ہیں جن پر کنول کے پھول کی شبیہہ بنائی گئی ہیں۔اس بارے میںروایت بیان کی جاتی ہے کہ ہندودھرم میں کنول کا پھول مذہبی حیثیت رکھتا ہے۔قلعہ کے تخلیق کار، ہندو حکم راںنے اس کی شبیہوں سے مزین برجیاںاس لئے بھی بنوائیں کہ اس کے مذہبی عقیدے کہ مطابق قلعہ میں رہنے والےمذکورہ پھول کی برکتوں سے محفوظ و مامون رہیں گے ۔ لیکن محمد بن قاسم کے حملے کے وقت اس کا یہ عقیدہ باطل ہوگیا۔
تاریخ میںرقم ہے کہ دلیل قلعہ میں اس وقت تجارتی سرگرمیوں کا مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ فوج کی چھائونی بھی تھی جس میں سولہ سوسپاہی سکونت پذیر تھے۔دلیل قلعہ پر محمد بن قاسم کے حملے کی خبر سن کر تاجروں اور ان کے اہل خانہ نے دریا کے راستے راہ فرار اختیار کی اور قلعہ بند فوج نے محمد بن قاسم کی فوج سے شکست کھائی۔ قلعہ کو اب دلیل ڈیرو بھی کہا جاتا ہے۔ روزانہ ہزاروں افراد اس کے سامنے کراچی سے پنچاب ۔بلوچستان اور خیبر پختونخواہ جاتے ہوئے گزرتے اور قلعہ کی پر شکوہ عمارت کو دیکھتے ہیں۔
محکمہ قدیم آثار، ٹورزم ڈیولپمنٹ اور وزارت ثقافت کی عدم توجہی کی وجہ سے قدیم آثار، پرشکوہ قلعہ اور عمارتیںقصہ پارینہ بنتی جارہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سکرنڈ کے قریب چایھن جودڑو جوکہ زمین بوس ہو چکاہے اس کے آثار قدیمہ کی تلاش کے لئے جرمنی کے ماہرین کئی مرتبہ آچکے ہیں اور وقفے وقفے سے اس کی کھدائی جاری اور اس میں نوردات نکالنے کا سلسلہ جاری ہے۔سندھی تہذیب و تمدن کی علامت تاریخی ورثہ کو محفوظ بنانے کے لیے صوبائی و وفاقی حکومت بھی توجہ مبذول کریں۔